• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکا اور روس کی بڑھتی ہوئی کشیدگی

ظفر محی الدین

 نوے کی دہائی کے شروع میں روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے غیر موثر ہونے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی اور امریکہ نے واحد سپر پاور ہونے اور اس حیثیت کو اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے برقرار رکھنے کےلیے جو جو جتن کئے، وہ بھی عیاں ہیں۔ رواں صدی میں ایک طرف چین نے معاشی، دفاعی اور سیاسی ترقی کی،جو ایک بڑی مثال ہے، روس نے بھی گزشتہ چند برسوں میں جو نئی کروٹ لی ہے، یہ بھی ایک حققیت ہے۔ 

جبکہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر سوالیہ نشان لگتے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ دوست بنانے سے زیادہ دشمن بنانے یا ناراض کرنے میں زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ دے کر عالمی گیریت سے بیزاری کا مظاہرہ کیا، یورپی یونین، ناٹو اور عالمی اداروں سمیت ماحولیات کے خدشات کو رد کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں سے ناراضی مول لی۔ داخلی پالیسیوں میں بھی وہ مضطرف اور عوام غیر یقینی کیفیات کا شکار دکھائی دیئے۔ 

جبکہ دنیا میں اس وقت چین نے جو معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کے جھنڈے گاڑے ہیں، وہ بھی یہ ایک تاریخی مثال ہے۔ چین مزید تیزی سے آگے کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔ ایسے میں روس جو کبھی زار روس کے دور میں ایشیا اور مشرقی یورپ کی سب سے بڑی قوت تھا، پھر بیسویں صدی کے اوائل میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سوویت کے پرچم تلے دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور بن کر ابھرا، اس طرح ستر برس سے زائد عرصے تک وہ سپرپاور کے طور پر اپنا عالمی کردار ادا کرتا رہا۔

 نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد اب رواں صدی کی دوسری دہائی میں روس صدر ولادی میر پیوٹن کی سربراہی میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے، اس طرح امریکہ کے عالمی کردار کے محدود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اور دنیا بتدریج ایک قطبی نظام سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے قوم سے سالانہ خطاب میں جس جوش اور ولولے سے خطاب کیا، اس پر سب حیرت میں ہیں کہ انہوں نے یہ برملا کہہ دیا کہ روس اب ناقابل تسخیر میزائلوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی پوری کھیپ تیار کر چکا ہے۔

 انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ روس کے نوجوان اور جوشیلے سائنس دانوں اور ماہرین نے ایسے جدید میزائل اور راکٹ تیار کرلئے ہیں، جو سب سے زیادہ رفتار سے جاتے ہیں،جبکہ نچلی پرواز کرنے والے ناقابل دید بولیٹر میزائل بھی تیار کیے ہیں، جو چشم زون میں اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ نے اپنے دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین میزائل اور طیارے تیار کرنے کا عندیہ بھی دیا، اس کے ساتھ امریکہ اپنے میزائل ڈیفنس سسٹم کو روس کی سرحدوں کے قریب اور ایشیا میں نصف کر رہا ہے۔ اس لئے روس کو بھی اپنے دفاع کو مزید مستحکم بنانے کے لئے اقدام کرنا پڑے ہیں۔ اب ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ روس کے پاس ناقابل تسخیر دفاعی نظام موجود ہے۔

 اس موقع پر بڑے اسکرین پر ہتھیاروں کی گرافک ویڈیو دکھائی گئی۔ روس کے صدر پیوٹن کے مذکورہ خطاب پر امریکی دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بعض کے خیال میں روسی صدر کی یہ تقریر محض ایک جوشیلے بیان سے زیادہ نہیں ہے، کیونکہ وہ چوتھی بار صدر منتخب ہونے کے حوالے سے الیکشن مہم کی آخری تقریر کر رہے تھے۔ 

صدر پیوٹن نے نہایت ہوشیاری سے امریکی دفاع کو غیر محفوظ قرار دینے اور روس کے جدید ہتھیاروں کی زد میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ روس کی نئی نسل کو جوش دلانے کی سعی کر رہے تھے، جو چاہتی ہے کہ روس اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔ بعض آزاد دفاعی تجزیہ نگاروں کے خیال میں صدر پیوٹن کی تقریر خواہ اس میں مبالغہ آرائی ہو یا نہ ہو یہ امریکہ روس کے مابین مزید سردمہری کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی خدشہ ہے کہ ہتھیاروں کی نئی دوڑ نہ شروع ہو جائے۔

روسی صدر کی تقریر کے بعد امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے ایک بیان میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس جوہری ہتھیاروں کی تیاری نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جبکہ امریکہ نے اپنے میزائل میں کچھ اضافہ محض شمالی کوریا کے بار بار میزائلوں کے تجربات اور اشتعال انگیز بیانات کی روشنی میں کیا تھا۔ یہ روس کے ہتھیاروں کے ذخیرے کے خلاف نہیں تھا۔ اگر روس واقعی مہلک اور جدید میزائلوں و دیگر ہتھیاروں کی طرف مائل ہے تو پھر امریکی نوجوان سائنس دان اور ماہرین بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ 

روس کے دفاعی تجزیہ کار مکرکن نے لکھا کہ روسی صدر نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ چند خطرناک اور جدید ترین ہتھیار بھی تیار ہو رہے ہیں، جن کا نام تجویز کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ تمام دعوے درست ہیں تو حیرت ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے، جبکہ روس کی معیشت بہت کمزور ہے۔ روس کے پاس سرمایہ نہیں، صرف تیل ہے، جبکہ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں بتدریج کم ہوتی جا رہی ہیں، البتہ عوام کو اس کی پروا نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں روس سپر پاور بن کر ابھرے۔ روس کے ایک کالم نگار نے لکھا کہ سولہویں صدی میں زار روس نے بھی ایسی ہی جوشیلی تقریر کی تھی، جس کا جدید ایڈیشن صدر پیوٹن نے پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس کی سالانہ تقریب میں صدر ٹرمپ نے بہت جوشیلی تقریر کی تھی، جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اس کے ردعمل میں چین کے وزیراعظم لی کی یانگ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو سردجنگ کے دور کی ذہنیت سے باہر آنا ہوگا، کیونکہ اختلافات سے زیادہ امریکہ اور چین کے مفادات عزیز ہیں۔

 کوئی بھی قوم اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور چین کے لئے اپنا اور اپنے دوستوں کا مفاد عزیز ہے، جبکہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کے اسٹیٹ آف یونین میں تقریر کرتے ہوئے چین کو بھی بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

امریکی وزارت دفاع کے ماہرین نے روس سے نمٹنے کےلیے جوہری ہتھیاروں کو تبدیل کرنے اور چھوٹے جوہری بم بنانے کی تجویز دی ہے۔ ان ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ کے بھاری اور بڑے ہتھیار، جس سے مزاحمت میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

 تاہم ماہرین نے یہ بھی استدلال پیش کیا کہ روس کو بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے کسی کو فائدہ نہیں ہے۔ یہ تباہی کا سودا ہے، ہمیں اپنی اپنی پالیسیوں پر ازسر نو غور کرنا چاہئے۔

جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے قائم عالمی تنظیم کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو خفیہ رکھا ہوا ہے، تاہم جو معلومات اب تک منظرعام پر آچکی ہیں، اس کے مطابق دنیا میں نو ہزار چھوٹے بڑے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں لگ بھگ دو ہزار جوہری ہتھیار ایسے ہیں، جو چند منٹ میں حرکت میں لائے جا سکتے ہیں اور اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 

اس طرح کے ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم گرائے جانے کے بعد سے دنیا میں کہیں بھی جوہری ہتھیار استعمال نہیں ہوئے۔ امریکہ اور روس کی ماضی کی سردجنگ کے موقع پر چند ایسے واقعات سامنے آئے تھے، جس سے یہ خدشہ محسوس ہوتا تھا کہ روس یا امریکہ جوہری جنگ شروع نہ کردیں، جس میں روس کا کیوبا میں میزائل نصب کرنے کا اعلان اور ترکی میں امریکی جوہری میزائل نصب کرنے کے واقعات نمایاں ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے کے قیام کے فوری بعد چالیس کی دہائی میں پہلا جوہری عالمی معاہدہ تیار کیا گیا تھا۔ بعدازاں این پی ٹی معاہدہ تیار کیا گیا، جس کی رو سے فضا یا سمندر میں جوہری دھماکوں پر پابندی عائد کی گئی۔ اس طرح عالمی ادارے نے 1996 میں پی ٹی ای ٹی کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے نے عالمی برادری کو نہ صرف جوہری ہتھیاروں کی بھیانک تباہی اور اس کے مضر ترین اثرات سے آگاہ کیا، بلکہ بائیں کیمیکل ہتھیاروں، لیزر خلائی ہتھیاروں اور دیگر مہلک جنگی تجربات کے حوالے سے بھی آگاہی فراہم کرتا رہا ہے۔ 

امریکی جوہری سائنس دان اور ماہر طبعیات رابرٹ اوپن ہیمر نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ میں جوہری ہتھیاروں پر تحقیق کو فروغ دیتے ہوئے ایک بیان دیا تھا، جس میں اس سائنس دان نے بھگوت گیتا کی ایک کہاوت کو موضوع بنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ ’’اب میں موت بن چکا ہوں‘‘ دنیا کو تباہ کرنے والی طاقت۔‘‘

بعض تاریخ دانوں کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں انسانی حیات کی ہزاروں سالہ جدوجہد میں نہ جانے کہاں کہاں ترقی ہوئی، تہذیبیں ابھریں، جنگیں ہوئیں اور قدرتی آفات کے سلسلے دراز ہیں، ان حالات میں بہت ممکن ہے ،کبھی ماضی کے انسانوں نے بھی جوہری توانائی کے جوہر پالیے ہوں، جس کے بیشتر اشارے کم ترین آثار قدیمہ، تاریخ اور اہرام مصر کے بعض مقبروں کے اندر اشارے ملے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دور جدید کا انسان جو خلائوں کی وسعتوں کی پیمائش کر رہا ہے۔

 اس کے ساتھ ہی کھربوں ڈالر کا خطرناک ترین اسلحہ ہر سال تیار کرتا ہے۔ فوجوں پر اربوں ڈالر سالانہ صرف کرتا ہے، مگر اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ مفادات کے تحفظ کے عنوان سے لاکھوں انسانوں کو ہر سال جنگ و جدل، مہلک بیماریوں، شدت پسندی، بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اپنی جان گنوانی پڑتی ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز کردیتا ہے کہ اندھی نسل پرستی یا قوم پرستی کے نام پر نہتے عوام کا خون بہایا جاتا ہے، مرد و زن اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اس پر سوچنا غور کرنا اور عمل کرنا قوموں کی ذمے داری اور انسانیت کی پکار ہے۔

تازہ ترین