• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرے لسٹ، انسانی اسمگلنگ اور امریکی تر جیحات

محمد مہدی

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ دنیا کے متعدد عالمی اداروں کی مانند امریکہ کا اس میں کلیدی کردار ہے اور دیگر اہم یورپی ممالک عموماً امریکی نقش قدم پر ہی قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو پیرس کے حالیہ اجلاس میں اس ادارے نے گرے لسٹ میں شامل کر دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں مالی ادائیگیوں ، بینکوں میں موجود سرمائے کی نقل و حرکت پر جون سے نگرانی کی جائے گی۔ 

اس سے پاکستانی معیشت براہِ راست کسی پابندی کی زد میں تو نہیں آئے گی، لیکن کاروباری افراد مستقبل کی ممکنہ پابندی ،یعنی بلیک لسٹ میں پاکستان کی شمولت کے خوف میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس سے سرمایہ کاری کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

 پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں ناکامی کا منہ کن وجوہات کی بناء پر دیکھنا پڑا اور اس قرار داد کا حقیقی محرک امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں ناکامی کو سمجھنے کے لئے اس تنظیم کی ساخت کو سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 

یہ 35 ممالک اور 2 تنظیموں خلیج تعاون کونسل اور یورپین کمیشن پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کو مکمل رکنیت حاصل نہیں ،بلکہ وہ خلیج تعاون کونسل کے رکن کے طور پر وہاں موجود تھا، اگر ان 37 اراکین میں سے 3 اراکین بھی پاکستان کے خلاف آنے والی قرار داد کی مخالفت کر دیتے تو منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ 

مگر نائن الیون کے بعد سے بدلتی اور غیر واضح حکمت عملی کے سبب پاکستان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ 37 اراکین میں سے صرف 3 کی بھی حمایت حاصل کر سکتا۔ اس سے سفارتی محاذ پر پاکستان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 یہ واضح ہے کہ اقوام متحدہ اور اہم ممالک میں پاکستان وہ نتائج حاصل نہیں کر سکا ،جو کرسکتاتھا ۔ امریکہ کی طرف سے اس قرار داد کے محرک کے طور پر سامنے آنے کے بعد یہ امر تو طے شدہ تھا کہ امریکہ نے اس کو کامیاب کرانے کی غرض سے کوئی حکمت عملی ضرور تیار کی ہو گی۔

 امریکہ جانتا تھا کہ چین ، سعودی عرب اور ترکی اس حوالے سے پاکستان کی حمایت میں سامنے آئیں گے، لہٰذا چین اور سعودی عرب کو پاکستانی مؤقف سے دُور کرنے کی غرض سے امریکہ نے یہ حکمت عملی تیار کی کہ ایف اے ٹی ایف کی نائب صدارت کے لئے جاپان کے حق میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

 چین بھی اس عہدے کے لئے کوشاں تھا۔ جب پہلی بار چین نے پاکستان کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا تو چین سے اس حوالے سے بات کی گئی کہ اگروہ اس ادارے میں پاکستان کےلیے مثبت مؤقف سے دستبردار ہو جائے تو ایسی صورت میں جاپان کے بجائے چین کی نائب صدارت کے لئے راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دوست ممالک کی بھی اپنی ضروریات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔

 وہ ہر وقت ہر موقع پر حمایت نہیں کر سکتے، جبکہ سعودی عرب کا یہ معاملہ ہوا کہ وہ بطور ملک ایف اے ٹی ایف کی رکنیت نہیں رکھتا، جو اس کی خواہش ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے رکن کی حیثیت سے وہ وہاں موجود تھا ۔ درحقیقت اس کا پاکستان کی حمایت سے دور ووٹ اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہ ووٹ صرف سعودی عرب نے نہیں، بلکہ تمام خلیج کی ریاستوں نے استعمال کیا، کیونکہ پہلی رائے شماری کے بعد واشنگٹن نے سعودی عرب سے رابطہ کر کے یہ وعدہ کیا کہ وہ اگر پاکستان کی حمایت سے دست بردار ہو جائے تو سعودی عرب کو مستقل مکمل رکنیت بطور ملک دی جا سکتی ہے۔

 اس سے سعودی عرب کو مستقل رکنیت ملنے کی امید ہوئی، جبکہ خلیج تعاون کونسل سعودی عرب سے جداگانہ طور پر اگر وہاں موجود ہو گی تو متحدہ عرب امارات، ایف اے ٹی ایف میں ہو گا، جو اس کی خواہش ہے۔ ایک تصور یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ بیجنگ نے سعودی عرب کے فیصلے کے بعد پاکستان کو باور کروا دیا تھا کہ اب اس کے لئے مسترد رائے کا اظہار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ وہ پاکستان سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی بات کیوں نہیں سن رہا۔ امریکہ میں تصور بہت مضبوط ہے کہ یہ ناقابل اعتماد ہے، پالیسیاں روز نت نئے سامنے لاتے ہیں، پھر چاہے جمہوری حکمران کتنے ہی قریب ہوں یانہ ہوں،ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کو مکمل صورتحال سے آگاہ کر رہے ہوں گے اور ہدایات صرف ان ہی سے لے رہے ہوں گے۔

 اس لئے بسا اوقات جمہوری حکمران کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں اورہو کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے۔ امریکہ مقاصد تو یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ سی پیک سے جڑے معاشی مفادات کا امکانی حد تک رخ اپنی جانب موڑلے، مگر اس امر سے بھی شاکی ہے کہ کہیں چین اپنا فوجی اثر ورسوخ بڑھانے میں پاکستان میں اور پاکستان کے توسط سے وسطی ایشیاء اور عرب ممالک میں قدم نہ جما لے، کیونکہ ان ممالک میں پاکستان کی اہمیت دو چند ہے اور امریکہ پاکستان اس اہمیت کو صرف اپنے تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ 

انہیں مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ پاکستان میں اپنے متعین افراد کی تعداد کو بھی مختلف حربوں سے بڑھا رہا ہے۔ 2016ء سے پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ اس کے کنٹریکٹرز کو سروس پاسپورٹ پر فضائی اڈے پر ہی ویزہ جاری کر دیا جائے۔ سروس پاسپورٹ کا درجہ سرکاری پاسپورٹ جیسا نہیں ہوتا، نہ ہی یہ عام استعمال کا پاسپورٹ ہوتا ہے۔

 وزارت خارجہ سے منسلک ماضی کی ایک شخصیت اس کے نقصانات جاننے کے باوجود اس کی بہت حامی تھی، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کسی صورت اس پر راضی نہ ہوئے۔ یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، لیکن اس وقت بھی امریکی سفارتخانے کی تعمیر کے نام پر 500 کنٹریکٹرز پاکستان میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سفارتخانے کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے،بلکہ وہ مزید ویزے بھی مانگ رہے ہیں۔

 جس کی ابھی تک پاکستان مزاحمت کر رہا ہے،لیکن امریکہ بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مزید اقدامات کر رہا ہے۔ ابھی ایف اے ٹی ایف کے بعد انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پاکستان پر سختی کرنے کی حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے، جو کہ اگلے تین ماہ میں مکمل طور پر واضح ہو جائے گی۔ امریکہ نے پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک خط تحریر کیا تھا ۔ 

اس خط میں 100 شقیں شامل تھیں کہ پاکستان ان پر عمل پیرا ہو۔ اس خط کا جواب دینے کی آخری تاریخ 28فروری تھی، مگر پاکستان نے تا حال اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ جواب نہ دینے کی وجہ سے امریکہ اپنا دبائو مزید بڑھا رہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی طرف قدم بڑھا لے۔ آئندہ تین ماہ کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ اور انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے امریکی اقدامات پاکستان کے لئے بڑے چیلنج ہوں گے۔

تازہ ترین