• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانسیسی وزیر خارجہ کا دورہ ایران

ناظر محمود

اس ہفتے کے آغاز میں فرانس کے وزیر خارجہ ژاں ایولا دریاں نے ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے کا اہم مقصد وہ مذاکرات ہیں جو 2015 کے جوہری معاہدے کے بارے میں ہوئے، ان کے علاوہ ایران کی جانب سے شام میں صدر بشارالاسد کی مدد پر گفت گو کی گئی۔

اس دورے کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران کو دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر صورت حال بہتر نہ ہوئی تو امریکا مئی میں جوہری معاہدے سے نکل جائے گا۔ امریکی صدر کی اس دھمکی کے بعد کسی یورپی رہنما کا یہ ایران کا پہلا دورہ ہے۔

اس دوران یہ قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں کہ فرانس کے وزیر خارجہ دراصل امریکی صدر کا کوئی اور پیغام لے کر ایران پہنچے ہیں، مگر انہوں نے اس بات کی تردید کردی کہ وہ ٹرمپ یا کسی اور کے نمائندے بن کر ایران آئے ہیں۔ دراصل امریکا اور فرانس کے درمیان بھی اس مسئلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، جہاں ٹرمپ اس معاہدے کو ختم کرنے کے درپے ہیں وہیں فرانس کے خیال میں اس جوہری معاہدے کو برقرار رہنا چاہئے اور فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ معاہدہ کارآمد ہے اور اسے برقرار رہنا چاہئے۔

دوسری طرف ایران کے صدر حسن روحانی کے لیے بھی پہلا موقع تھا کہ وہ جنوری میں ہونے والے مظاہروں کے بعد پہلی بار کسی یورپی وزیر خارجہ سے مل رہے تھے۔ ان مظاہروں کے بعد ایران میں یہ تاثر پیدا ہو چلا تھا کہ ایرانی عوام ، ایرانی خواتین اب اپنی زندگیوں، خاص طور پر لباس کے بارے میں ایرانی حکومت اور اس کے قدامت پسند احکامات کو ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ خاص طور پر ایران کی خواتین اس بات پر نالاں رہی ہیں کہ انہیں زبردستی حجاب یا اسکارف پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اپنے دورے کے دوران فرانس کے وزیر خارجہ نے البتہ یہ بات واضح طور پر کہی کہ جب تک ایران اپنے بیلسٹک میزائل کے تجربے کرتا رہے گا، مغربی طاقتوں کو بہرحال یہ خدشات رہیں گے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔ خود ایران کا موقف یہ ہے کہ وہ صرف اپنے تحفظ کے لیے میزائل بنارہا ہے اور اس کا جوہری ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 

نہ ہی ایران اپنے میزائلوں کے پروگرام پر گفت گو کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مطابق جوہری معاہدہ صرف ایٹمی ہتھیاروں تک محدود رہنا چاہئے اور اس کے ذریعے دیگر ہتھیاروں پر پابندی کی بات نہیں کی جانی چاہئے۔

ایران کے خیال میں جوہری ہتھیار اور میزائل دو الگ الگ باتیں ہیں اور معاہدے کے مطابق صرف جوہری ہتھیار کی تیاری پر پابندی ہے اور اب اس میں کسی اور معاملے کو جوڑ کر ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو ایرانی صدر کے مطابق قابل قبول نہیں ہے۔ یہی بات انہوں نے فرانس کے وزیر خارجہ پر بھی واضح کردی۔

اس معاہدے میں فرانس کے وزیر خارجہ لادریاں (Ledrian) کی سفارت کاری بہت اچھی رہی، کیوں کہ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ ستر سالہ لادریاں فرانس کی سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ تقریباً ایک سال سے فرانس کے وزیر برائے یورپ اور امور خارجہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ 

اس سے قبل وہ پانچ سال یعنی 2012 سے 2017 تک فرانس کے وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں، یعنی انہیں ملکی اور بین الاقوامی دفاعی اور سیاسی امور کا وسیع تجربہ رہا ہے، ان کے مقابلے میں امریکی صدر ٹرمپ جو صرف بڑکیاں مارنے میں مشہور ہیں، نہ دفاعی اور نہ خارجہ امور کا کوئی تجربہ رکھتے ہیں، اسی لیے ایک ایسے معاہدے کے پیچھے پڑے ہیں، جو بڑی طویل گفت و شنید کے بعد اور صدر بارک اوبامہ کی ذاتی دل چسپی اور سرپرستی کے بعد 2015 میں تمام فریقوں کی رضامندی سے منظور کیا گیا، جس سے بین الاقوامی کشیدگی کم ہوئی تھی۔

اس حالیہ دورے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ فرانس سیاسی و معاشی طور پر ایران کے ساتھ بہتر روابط اور تعلقات کا خواہاں رہا ہے، اس سلسلے میں فرانس کی حکومت نے ایران کے صدر حسن روحانی کی کوششوں کو بھی سراہا ہے۔ ایران اور فرانس کے بڑھتے ہوئے بہتر تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی گزشتہ سال ہی ایران اور فرانس کے درمیان پانچ ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ ہوا ہے، جس کی فریق فرانس کی کمپنی ٹوٹل ہے۔

 یہ کمپنی تیل اور گیس کے شعبے میں دنیا کی بڑی کثیرالقومی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور دنیا کی سات ’’سپر میجر‘‘ یعنی عظیم ترین کمپنیوں میں شامل ہے، جو پورے کرہ ارض کے تیل و گیس کے ذخائر پر حاوی ہے۔

اب اس سارے معاملے میں کشیدگی کا ایک پہلو شام کی خانہ جنگی بھی ہے۔ باوجود اس کے ایران اور فرانس ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے آئے ہیں اور حالیہ برسوں میں تجارتی معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ فرانس کو شام کی خانہ جنگی پر نہ صرف تشویش ہے ،بلکہ وہ ایران سے کہتا رہا ہے کہ وہ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت اور مدد کرے۔ 

فرانس کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورے سے صرف ایک روز قبل ایران کے صدر حسن روحانی اور فرانس کے صدر ایمل نوئیل میکراں کے درمیان فون پر بات ہوئی تھی، جس میں فرانس کے صدر نے حسن روحانی سے کہا کہ اپنے شامی حلیف بشارالاسد پر دبائو ڈال کر شامی قصبے غوطہ میں ہونے والی کارروائی کو رکوائے۔

یاد رہے کہ غوطہ میں کارروائی پانچ سال کے محاصرے کے بعد کی جارہی ہے، کیوں کہ وہاں کے شامی باغی اور ان کے غیر شامی مددگار ہتھیار ڈالنے پر راضی نہیں ہیں اور مسلسل دمشق پر حملے کرتے رہے ہیں۔ شامی حکومت نے بار بار کوشش کی ہے کہ دمشق کے نواح میں واقع غوطہ سے باغیوں کو نکال دے، مگر بڑی سویلین اموات کے خدشے کے پیش نظر یہ کارروائی پانچ سال سے ملتوی کی جارہی تھی۔

جب ایران پر مغربی طاقتیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ ایران شام میں بشارالاسد کی حکومت مدد کررہا ہے تو جواب میں ایران کا کہنا ہوتا ہے وہ ممالک جو سعودی عرب کو اسلحہ بیچ رہے ہیں، ان کو یمن میں جنگی جرائم کا شریک کار سمجھا جانا چاہئے۔ شام اور یمن کی صورت حال بڑی مختلف بھی ہے اور مماثل بھی۔ مختلف اس طرح کہ یمن عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، وہاں کے باغی یعنی حوثی شیعہ قبائل یمن کے دارالحکومت صنعا پر قابض ہوچکے ہیں، جن کو سعودی عرب وہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔ 

سعودی عرب کی مدد سے جنوبی شہر عدن پر ایک دوسری حکومت ہے۔اس کے برعکس شام میں باغی شیعہ نہیں بلکہ سنی ہیں، جنہیں بشارالاسد کی شیعہ حکومت مار رہی ہے۔ اس طرح مماثلت یہ ہے کہ شام اور یمن دونوں ممالک میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور فرانس دونوں سے تجارتی اور کاروباری فائدے حاصل کررہا ہے۔ اس وقت بھی فرانس سعودی عرب کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

جب فرانس کے وزیر خارجہ نے ایران سے کہا کہ وہ اپنے میزائل ختم کرلے تو ایران کا جواب تھا کہ پہلے امریکا اور یورپ اپنے جوہری ہتھیار اور میزائل تلف کردیں تو پھر ایران کے ہتھیاروں پر بات کی جاسکے گی۔ اس دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ گزشتہ ماہ میونخ میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی ملاقات ہوئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق جان کیری اس معاہدے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے لیے انہوں نے بطور وزیر خارجہ خاص محنت کی تھی اور کئی برس کی گفت و شنید کے بعد مغربی ممالک کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ ہوسکا تھا۔

اسی دوران ایک اور دھماکا خیز خبر یہ آئی کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اپنے ایک خطاب میں دعویٰ کیا کہ روس ’’ناقابل تسخیر‘‘ جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، جو دنیا میں کہیں بھی مار کرسکتے ہیں۔ 

اس بیان سے نہ صرف بین الاقوامی کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ خود ایران پر دبائو مزید بڑھ گیا کیوں کہ اب مغربی طاقتیں شدید دبائو میں آگئیں کہ کہیں ایران بھی ایسے میزائل نہ بنالے، جو جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کے قابل ہوں۔گو کہ روسی صدر نے یہ دعویٰ اپنے آنے والے انتخابات میں کام یابی کے لیے کیا، لیکن اس کے دوررس بین الاقوامی نتائج برآمد ہوں گے اور ایران پر دبائو مزید بڑھنے کا امکان ہے، پھر روس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ایسے ڈرون بنارہا ہے، جو آب دوز سے چھوڑے جاسکیں گے اور ان ڈرونوں کے ذریعے جوہری حملے بھی کیے جاسکیں گے۔

پھر اس سے کچھ دن قبل سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف قرارداد کی حمایت کرے گا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جرمن کے شہر میونخ میں کہا کہ وہ ایران کے بیلسٹک میزائل کے خلاف اقوام متحدہ میں امریکا اور برطانیہ کی مجوزہ قرارداد کی حمایت کرے گا۔

اس طرح ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایران اور روس ایک طرف اور سعودی عرب مغربی طاقتوں کے ساتھ دوسری طرف ہے۔ اس صورت حال میں ایران اور سعودی عرب، شام اور یمن میں دست و گریباں ہیں۔ کچھ لوگ کہیں ہیں کہ یہ سب امریکی اور اسرائیلی سازش ہے۔ اگر ہے بھی تو اس کے آلہ کار ایران اور سعودی عرب بن رہے ہیں اور اس سے پاکستان کو الگ رہنے کی ضرورت ہے اور کسی ایک فریق کا ساتھ خود پاکستان کے لیے نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوگا۔

٭٭……٭٭

تازہ ترین