• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیلتھ اینڈ فٹنس : بچوں میں سرطان

ڈاکٹر شمویل اشرف

بچوں میں سرطان...بر وقت تشخیص ، کام یاب علاج کی ضمانت

سرطان ایک غیر متعدّی مرض ہے، جو جسم کے خلیات کے فطری عمل میں تبدیلی کا موجب بنتا ہے۔ ہمارے جسم میں تین ارب خلیات پائے جاتے ہیں، اگر کسی بھی وجہ سے کچھ خلیات ناکارہ ہو جائیں، تو ایک مربوط نظام کے تحت اُن کی جگہ نئے خلیات لے لیتے ہیں۔ یوں ان خلیات کا تناسب بگڑنے نہیں پاتا، لیکن اگر جسم کے کچھ خلیات کی نشوونما معمول کے مطابق جاری نہ رہ سکے، اُن کی تعداد اور جسامت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگے، تو یہ بگاڑ سرطان کا سبب بن جاتا ہے۔ سرطان ایک موذی عارضہ ہے، جو اس وقت دنیا بَھر میں اموات کا سبب بننے والے عوارض میں سرِفہرست ہے۔ 

یہ مرض ہر عُمر کے فرد کو متاثر کرسکتا ہے، جس میں بچّے بھی شامل ہیں۔ تاہم، بچّوں میں سرطان کی نوعیت بڑوں سے مختلف ہوتی ہے، لیکن اُن میں بھی اگر بروقت تشخیص نہ ہو، تو مرض انتہائی خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ دنیا بَھر میں ہر سال تقریباً دو لاکھ بچّوں میں سرطان کا مرض تشخیص ہو رہا ہے۔ 1975ء تک ایک برس سے انیس سال کی عُمر تک کے ہر ایک لاکھ میں سے13بچّے سرطان کا شکار ہوتے تھے، جب کہ 2005ء تا 2012ء، ہر سال ایک لاکھ بچّوں میں سے17بچّوں کو مرض نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ 

یعنی مرض کے پھیلائو کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ نتیجتاً اس وقت دنیابَھر میں بڑوں کے ساتھ بچّوں میں بھی یہی مرض موت کا سبب بننے والے عوارض میں سرِفہرست ہے۔ جس کا اندازہ اسی طرح لگائیں کہ ہر سال صرف سرطان کے سبب ایک سے انیس سال کے 3,468 بچّے انتقال کرتے ہیں، جو کہ کُل اموات کا57فی صد ہے۔ حالاں کہ اگر علاج معالجے کی بہتر سہولتیں میسّر ہوں، تو سرطان سے متاثرہ80فی صد سے زائد بچّے صحت مند زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک میں سرطان سے متاثرہ90فی صد بچّے نامناسب دیکھ بھال کم وسائل اور دیگر مسائل ہی کے سبب لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔

پاکستان میں بچّوں کی عمومی صحت پر نظر دوڑائیں، تو بدقسمتی سے یہاں5سال سے کم عُمر بچّوں میں شرحِ اموات خاصی بُلند ہے۔ ایک تو اسہال، آر ٹی آئی، نمونیا اور دیگر متعدّی و غیر متعدّی امراض کا تناسب زیادہ ہے، تو حاملہ خواتین کا غیر متوازن طرزِ زندگی، شعور و آگاہی کی کمی، طبّی سہولتوں کے فقدان سمیت حکومت کی عدم توجہی جیسے دیگر محرّکات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ پھر آبادی کے تناسب کے ساتھ بچّوں میں سرطان کا مرض بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے یہاں سالانہ آٹھ ہزار بچّے اس موذی عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔ 

اگرچہ بچّوں میں سرطان کی شرح بڑوں کی نسبت کم ہے، لیکن علاج معالجے کی سہولتیں ان کے لیے بھی ہرگز تسلی بخش نہیں۔ چلڈرن کینسر اسپتال کے مُلک بَھر میں قائم سینٹرز سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ50فی صد بچّوں کو سرطان کا صحیح اور بروقت علاج میسّر نہیں۔

بچّے جسم کے کسی بھی حصّے مثلاً ہڈیوں، پٹّھوں، گُردوں اور جگر کے سرطان سے متاثر ہوسکتے ہیں، لیکن زیادہ تر بچّوں میں خون کا سرطان عام ہے، جسے طبّی اصطلاح میں "Leukemia" کہا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرطان کے شکار ہر ایک سو بچّوں میں35خون کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر غدود کا سرطان ہے، جو پندرہ فی صد بچّوں کو متاثر کرتا ہے، جب کہ تیسرے نمبر پر برین ٹیومر ہے۔ علاوہ ازیں، کم عُمر بچّوں میں آنکھ کے پردے(Retina)کا بھی سرطان پایا جاتا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں’’ Retinoblastoma‘‘کہا جاتا ہے۔

 اس سرطان سے متاثرہ بچّوں کی آنکھیں اندھیرے میں بلّی کی آنکھوں کی طرح چمکتی ہیں،جسے cat's eye reflectsکہا جاتا ہے۔اگر کسی بچّے میں ایسی علامت پائی جائے، تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ چشم سے رابطہ کرنا چاہیے کہ یہ مرض قابلِ علاج ہے۔

بچّوں میں سرطان لاحق ہونے کی وجوہ بڑوں سے کچھ مختلف ہیں۔ بڑوں میں جینیاتی اثرات کے مقابلے میں ماحولیاتی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ جب کہ بچّوں میں جینیاتی عوامل زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لیے بچّوں کے سرطان میں روک تھام کی گنجایش بھی ذرا کم ہوتی ہے۔ اگر ہو بھی، تو وہ دورانِ حمل ہی ہوسکتی ہے۔ 

جو طبّی ماہرین کے خیال میں ممکن نہیں۔ تاہم، یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اگر بچّوں کا سرطان بروقت اور ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہوجائے، تو کام یاب علاج ممکن ہے، کیوں کہ ایک تو بچّوں میں دِل، جگر اور پھیپھڑوں کے وہ عوارض نہیں پائے جاتے، جن میں بڑی عُمر کے افراد مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسے کم عُمر بچّے تمباکو نوشی نہیں کرتے۔ غیر متوازن غذا کا استعمال نہیں کیا جاتا اور ذہنی پریشانیوں سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ 

دوم، ان کے علاج میں کیموتھراپی بے حد مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ مُمالک میں بچّوں کے سرطان کے علاج کی کام یابی کی شرح85 فی صد سے بھی زائد ہے، جب کہ بڑوں میں یہ شرح20 سے30 فی صد ہے۔ انڈس چلڈرن کینسر اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں پچاس سے ساٹھ فی صد بچّے کینسر کے علاج کے بعد مکمل طور پر نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ تصوّر عام ہے کہ سرطان کے علاج کے بعد بچّے دو سے چار برس ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے بچّے جنہیں90کی دہائی میں سرطان ہوا، مکمل علاج کے بعد آج بھی نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ سوچنا کے سرطان ناقابلِ علاج ہے یا پھر اس کا طویل المیعاد علاج ممکن نہیں، قطعاً درست نہیں۔ بعض کینسرز علاج کے بعد بھی پلٹ آتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر 80سے55 فی صد بچّے نارمل ہی زندگی گزارتے ہیں۔ 

دراصل سرطان کے کام یاب علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ تشخیص میں تاخیر ہے۔ عموماً گائوں، دیہات میں پہلے اتائیوں کے ہاتھوں علاج کروانے میں وقت ضایع کر دیا جاتا ہے اور جب مرض خطرناک مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے، تو پھر معالج سے رجوع کیا جاتا ہے۔ جب کہ بچّوں کے علاج کے معاملے میں پیڈیاٹرک اونکولوجسٹس کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ 

چوں کہ اس حوالے سے معلومات عام نہیں، تو زیادہ تر والدین اپنے بچّوں کا علاج جنرل فزیشنز ہی سے کرواتے ہیں اور جب تک مرض کی درست تشخیص ہوتی ہے، سرطان کافی پھیل چکا ہوتا ہے۔ سو، اس ضمن میں معالجین پر بھی یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ اگر اُن کے پاس خون کی کمی، ہڈی کے درد اور پیٹ یا پھر جسم کے کسی بھی حصّے میں گلٹی کی شکایت کے ساتھ کوئی بچّہ آئے، تو اُسے فوری طور پر کسی پیڈیا ٹرک اونکولوجسٹ کو ریفر کرے، تاکہ ایک قابلِ علاج مرض ناقابلِ علاج نہ بن جائے۔

اس وقت پاکستان بَھر میں بچّوں کے سرطان کی تشخیص اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے والے زیادہ تر ادارے این جی اوز کے تحت چل رہے ہیں، جب کہ سرکاری سطح پر مکمل دستیاب سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں بھی بچّوں کے سرطان کے شعبے الگ قائم کیے جائیں اور دَورِ جدید کے مطابق سہولتیں فراہم کی جائیں، تاکہ وہ طبقہ جو سرطان کے مہنگے علاج کا متحمل نہیں اُنہیں آسان اور سستا علاج مہیا ہو سکے۔

(مضمون نگار، ماہرِ امراضِ سرطان(اطفال) ہیں۔ انڈس ہیلتھ نیٹ ورک میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر میڈیکل سروس خدمات انجام دے رہے ہیں۔شوکت خانم اسپتال اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے پیڈیاٹرک آنکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما)کے سینئر ممبر ہیں)

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین