• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ، افغانستان اور انڈیا اتحاد خطے میں پاکستانی مفادات کو زک پہنچانے کیلئے اپنی کوششیں آخری حد تک لیجا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے بعد امریکہ مسلسل افغانستان میں اپنی ہزیمت کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہا ہے اس مطالبے میں سختی آ گئی ہے۔ ایک طرف امریکہ پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے باوجود ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے تو دوسری طرف پاک افغان تعلقات بھی زبردست گراوٹ کا شکار ہیں۔ آخر امریکہ پاکستان پر ڈومور کے لیے کیوں دبائو ڈال رہا ہے؟ اس کیلئے ہمیں افغانستان کی جغرافیائی حیثیت سےآگاہ ہونا ضروری ہے۔افغانستان کیوں اہم ہے ؟ پہاڑیوں میںسمایا افغانستان سات ممالک تاجکستان، ترکمانستان ،ازبکستان، ایران، پاکستان، انڈیا اور چین سے گھرا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ترکمانستان کے گیس ذخائر مارکیٹ تک صرف پائپ لائنوں کے ذریعے ہی پہنچ سکتے ہیں۔ روس مغرب کی طرف جبکہ چین مشرق کی جانب پائپ لائن بنا رہا ہے۔ امریکہ کثیر جہتی تیل اور گیس روٹس بنانے پر زور دے رہا ہے۔روسی ، چینی اور امریکی ماہرین کےوفود اکثر ترکمانستان دورہ کرتے پائے جارہے ہیں تاکہ توانائی کے اس ذخیرے کو استعمال کرنے کیلئے معاملات میں اپنا حصہ لیا جاسکےاس منصوبے کو یوریشین انرجی ڈپلومیسی کا نام دیا گیا۔ توانائی وسائل کے پائپ لائن روٹس کی لازم تعمیر پر پائی جانے والی مقابلہ بازی کی فضا سے صورتحال گمبھیر چلی جارہی ہے۔ تیل اور گیس روٹس کی تکمیل اور اسکی حفاظت کیلئے افغانی خطہ پیس آف کیک بنا ہوا ہے۔ اسی کی دہائی میں روس نے اسی لئے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام کردیا گیاتھا جس کا بدلہ لیتے ہوئے روس خطہ میں اپنےمفادات کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے امریکہ کو نہ صرف کمزور کررہا ہے بلکہ امریکہ کے ساتھ ماضی کا حساب بھی بے باق کررہا ہے۔ پائپ لائن مخاصمت یورپ میں بھی نہایت واضح ہے۔یوکرائن روس سے یورپ تک گیس کا گیٹ وے ہے۔آذربائجان سےنکلنے والا پائپ لائن روٹ ریاست جارجیا اور ترکی تک کا ہے۔روس جنوبی پائپ لائن روٹ پر کام کررہا ہے جہاں سے وہ بلغاریہ تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ ایرانی گیس کو بلاک کرنا چاہتا ہے۔جبکہ ایران پاکستان اور انڈیا کے ساتھ پائپ لائن روٹ کو تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ امریکہ افغانستان میںاپنی موجودگی کا جواز انسانی ہمدردی ، ترقی اور سیکورٹی کو قرار دے رہا حالانکہ پس منظر میں کئی عزائم پنہاں ہیں اول یہ کہ وہ خطہ میں رہ کر اسرائیل کی بقا کو بھی یقینی بنا رہا ہے ۔دوسرایہ کہ گرینڈ انرجی گیم میں شیر کا حصہ لے سکے۔ تیسرا یہ کہ وہ افغانستان کی معدنیات کو زیر استعمال لا نا چاہتا ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ افغانستان سے ملحقہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال مشرق وسطیٰ کےممالک سے اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے تجارتی راستوں پر اپنا قبضہ یقینی بنانا چاہتا ہے۔ پانچواں یہ کہ وہ چین کی ناکہ بندی کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت کے ذریعے قابو کرنا چاہتا ہے۔ چھٹا یہ کہ وہ افغان منشیات کی پیداوار اور فروخت پر اپنی اجارہ داری برقرا ر رکھنا چاہتا ہے۔ ساتواں یہ کہ وہ روس پر بھی عقابی نظریں رکھے ہوئے ہے۔آٹھواں یہ کہ شمالی اتحاد کے بعد اب پشتونوں کو پاکستان سے لڑوانا چاہتا ہے ۔ نواں یہ کہ وہ بلوچستان میں امن و امان کو خراب کررہا ہے۔ دسواں یہ کہ وہ افغانستان کو ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کے خلاف اکسا رہا ہے۔یہاں پر دو سوال مزید جنم لیتے ہیں پہلا یہ کہ پاکستان کا کیا رد عمل ہونا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیاسی استحکام اور تمام اداروں کا ایک پیج پر ہونا اشد ضروری ہے تاکہ ٹھوس پالیسی سے عالمی سطح پر پیغام چلا جائے دوسرا یہ کہ کیا امریکہ افغانستان میں طویل عرصہ تک رہ پائے گا ؟امریکہ کیلئے تو میں صرف یہ کہوں گی کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا غرور اور تکبر ہوتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ خدائی طاقت محض ایک اشارہ سےتکبر کرنے والے مکبرکومٹا دیتی ہے۔ ہر فرعون کی شدت پسندی کو چور چور کرنے کیلئے ایک موسیٰ کی پیدائش فطرت ایزدی کا معجزہ خود کار ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ بالکل ویتنام کی مانندآج امریکہ کو ویت نام سے بھی بڑی شکست کا سامنا ہے۔ امریکہ افغانستان کی ذلت آمیز دلدل سے نکلنے کیلئے جتنی زیادہ تگ و دو کررہا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اس میں دھنستا چلا جارہا ہے ۔امریکی عوام اور یہاں تک کہ سابق فوجی بھی تسلسل سے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امریکی فتح جس کے بلند و بانگ دعوے 2004 میںکئے گئے تھے؟سیاسی و سماجی سائنسدان اس امر پر متفق ہیں کہ امریکہ کو خطہ سے جلد ہی نکلنا ہوگا ورنہ اس کے بھی اتنے ٹکڑے ہی ہوں گے جتنے سوویت یونین کے ہوئے تھے۔

تازہ ترین