• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دال : صحت بخش غذائیت سے مالا مال

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے ،’’ دال بڑا مال‘‘۔ بچپن میں تو ہمیں سمجھ نہیں آئی کیونکہ دال ہمیںکبھی نہیں بھائی ۔ لیکن آج بڑے ہو کر دال کی افادیت نے ہماری حیرانگی بڑھائی کہ دال واقعی بڑی خوبیوں سے مالا مال ہے ، بچے اور بوڑھوں کی یکساں پسندہے ، خاص و عام کی ضرورت ہے ، کئی امراض کا علاج اور ہر گھر میں بچھے دسترخوان کی زینت ہے۔دالیں دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں کاشت کی جاتی ہیں اور انھیں انسانی خوراک میں اہم مقام حاصل ہے۔ جہاں لوگوں کی اکثریت سبزی خور ہے وہاں غذا کا بڑا حصہ اناج اور دالوں پر مشتمل ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت سال 2016کودنیا میںسب سے زیادہ پکنے والی ڈش ’’ دال ‘‘ سے منسوب کیا تھا ، یعنی2016کو دال کا سال قرار دیا دیا گیا تھا، جس کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں دالوں کی غذائی افادیت کا شعور اجاگر کرنا ہے ۔ دالوں میں پائی جانے والی پروٹین تندرستی کا ضامن ہے۔ یہ کم خرچ لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتی ہے اس لیے اسےکم آمدن گھرانوں کے لیے گوشت کا درجہ حاصل ہے۔دنیا کے کچھ ممالک میں اسے خوش نصیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اطالوی روایات کے مطابق نیا سال دال اور ساسیج کھا کر منایا جاتا ہے۔ دال چونکہ سکّوں کی طرح گول ہوتی ہے اس لیے اسے دولت کی فراوانی کی علامت اور ساسیج کو کامیابی اور خوشحالی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اسی طرح جنوبی امریکہ میں دال چاول اور گوشت کے پکوان سے نئے سال کا آغاز کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں مصر کے مقابر میں بھی دال کے اثرات پائے گئے ہیں یعنی دفناتے وقت قبر میں دال بھی رکھی جاتی تھی۔18ویں صدی میں فرانسیسی شہنشاہ لوئی پنج دہم کی ملکہ ماریہ نے شاہی دسترخوان پر دال کو فوقیت دی اور وہ ملکۂ دال کہلائیں۔ شاید یہ وہی مسور کی دال ہے جسے ہم آپ ’ملکہ مسور‘ کہتے ہیں۔ مسور کی دال دل کو سبک اور نرم کرتی ہے اور آنکھ سے پانی کے اخراج کو کم کرتی ہے۔ نہ صرف مسور کی دال بلکہ ہر قسم کی دالیں بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں۔

امریکہ کے بعض علاقوں میں ہر سال بڑے کروفر سے دال کا میلہ منایا جاتا ہے۔ اس میلے کی تیاری سال بھر ہوتی رہتی ہے اور ہفتے بھر دال کے گن گائے جاتے ہیں۔ اس میں نہ صرف صارفین بلکہ کاشت کار اور دال بیچنے والے بھی شرکت کرتے ہیں۔میلے کے دوران مختلف اقسام کی دال کی دکانوں کے علاوہ دال سے بنے پکوان، دال پکانے کے مقابلے، بچوں کے لیے دال کی خاص غذائیں، دال کے کباب، دال کی رانی اور راجہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ الغرض دال کا یہ میلہ اپنے آپ میں انوکھا ہے اور وہاں کے لوگوں کے لیے تفریح کا سامان بھی!

کئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں، فائبر، وٹامن اور معدنیات کی وجہ سے دل کی صحت کے لئے بہترین ہیں۔ دالوں میں فولیٹ اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ میگنیشیم کی کمی سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دالوں کے باقاعدہ استعمال سے یہ کمی دور رکھی جاسکتی ہے۔ دالوں میں موجود فائبر کی وجہ سے خون میں کولیسٹرول کا لیول کم ہوتا ہے۔ کولیسٹرول اگر بڑھتا جائے تو خون کی نالیوں کی دیواروں میں جمع ہوکر ان نالیوں کو بلاک کرسکتا ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر دل کوخون کی سپلائی بند ہوجائے تو اس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتاہے۔

غذائیت سے بھرپور

زیادہ گوشت کھانا آنتوں کی صحت کے لئیے مضر ہے۔ اس سے آنتوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فروٹ، سبزیاں اور دالیں کھانے سے آنتوں کی صحت بہتر رہتی ہے اور ان میں کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔دالیں کھانے سے قبض کی شکایت بھی دور ہوتی ہے۔ یہ فوائد حاصل کرنے کے لئیے ہفتے میں ایک سے زائد بار دال کھانی چاہئے۔ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لئیے بہترین ہیں کیونکہ فائبر موجود ہونے کی وجہ سے دال کھانے سے مریضوں کے خون میں شوگر کی مقدار میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ دال چاول ایک پسندیدہ خوراک ہیں۔ دال کا سوپ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ وہ بہت مزے کا بنتا ہے اور تمام لوگ اسے باآسانی بنا سکتے ہیں۔ دال دھو کر اس میں پانی ، نمک ، مرچ اور ہلدی ملا کر پکائیں۔ ایک ٹماٹر کاٹ کر ڈال دیں۔ جب دال نرم ہوجائے تو اس کو بلینڈ کرلیں۔ ریگولر دال سے اس کو زیادہ پتلا رکھنا ہوگا۔

دالوں میں فولاد موجود ہوتا ہے۔ فولاد سے خون کے سرخ جسیمے بنتے ہیں اور اگر فولاد کی کمی ہو تو جسم میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ خواتین میں فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کی بیماری بہت عام ہے۔ خون کے سرخ جسیمے آکسیجن کی سپلائی کا کام کرتے ہیں اور اگر ان کی کمی ہوتو مریضوں میں تھکن کی شکایت ہوسکتی ہے۔دال اس کا بہترین علاج ہے ۔دالوں میں فولیٹ موجود ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین میں فولیٹ کی کمی کی وجہ سے ان کے ہونے والے بچوں میں جسمانی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سنجیدہ بیماری نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ ہے۔ اس بیماری کے شکار معصوم بچے تمام زندگی کے لئیے معذور ہوجاتے ہیں۔

بہترین ڈائٹ

دالوں کو اپنی خوراک کا باقاعدہ حصہ بنائیں کیونکہ دالوں میں کئی ضروری وٹامن اور نمکیات موجود ہوتے ہیں۔ ان سے پروٹین حاصل ہوتے ہیں اور چکنائیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ایک کپ پکی ہوئی دال میں صرف 230 کیلوریاں ہوتی ہیں۔کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دالوں کا استعمال بلڈ پریشر کو خطرناک حد تک بڑھنے سے روکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دالیں انسانی خون کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔سبھی دالیں آئرن کا خزانہ ہیں۔ایک پلیٹ دال روزانہ کھانے سے مطلوبہ خوراک کا37 فیصد آئرن حاصل ہوتاہے۔اور دالوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمارے پٹھے کو مضبوط بناتی ہے۔

وزن کم کرنے میں مددگار

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہر روز خشک پھلیاں، مٹر، چنے اور دالیں کھانے سے ناصرف لوگوں کو وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ یہ وزن کم ہونے کے بعد اسے دوبارہ بڑھنے سے روکنے میں بھی مددگار ہیں۔یعنی غذا اور جسمانی سرگرمیوں کی روٹین میں کوئی تبدیلی کئے بغیر بھی آپ روزانہ کی بنیاد پر لوبیا کی پھلیاں، چنے، مٹر اور دالیں کھا کر دبلے پتلے ہوسکتے ہیں،نہ صرف لوگوں کو وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ یہ وزن کم ہونے کے بعد اسے دوبارہ بڑھنے سے روکنے میں بھی مددگار ہیں۔ جریدہ 'امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن کے مطابق 'جسم کے وزن پر غذائی پھلیوں کے اثرات کے نام سے شائع ہونے والی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ایک دن میں صرف 130 گرام یا تین چوتھائی کپ دالیں کھانا وزن میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ کھانے سے پیٹ زیادہ دیر بھرا بھرا محسوس ہوتا ہے اور یہ خراب کولسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔یہ ایک منظم جائزہ ہے جس میں محققین نے 940 مردوں اور عورتوں پر مشتمل 21 طبی جائزوں کا تجزیہ کیا جس میں شرکاء نے روزانہ کی بنیاد پر صرف ایک مرتبہ دالیں اپنی خوراک میں شامل کر کے چھ ہفتوں کے دوران 0۔75 پاونڈ کی اوسط سے وزن کم کیا تھا ۔نتائج سے واضح تھا کہ انھوں نے اس دوران دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے اجتناب کی کوشش کئے بغیر اپنے وزن کو کم کیا تھا۔

سینٹ مائیکلز اسپتال سے منسلک تحقیق کے مصنف ڈاکٹر رسل ڈی سوزا نے کہا کہ دالوں کے معلوم فوائد کو جانتے ہوئے بھی صرف 13 فیصد کینیڈین ہر روز خشک پھلیوں اور دالوں کو اپنے کھانوں میں شامل کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کم وزن کے ممکنہ فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی غذائی عادات میں دالیں اور پھلیاں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پھلیاں اور دالیں گلائسمک انڈیکس پر کم درجے کی غذا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ٹوٹنے کے بعد توانائی میں تبدیل ہوکر خون میں آہستہ آہستہ شامل ہوتی ہے جس سے خون میں شکر کی سطح بلند نہیں ہوتی۔ 

تازہ ترین