• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی کی معاشی ترقی میں خواتین بھی ہیں پیش پیش

فاروق احمد انصاری

 ایک خبر کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ پاکستانی کاروباری خاتون سے متاثرہیں۔ ایوانکا ٹرمپ نے گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین (ورکنگ وومن) کی رہنمائی کے لیے ایک کتاب لکھی ہے۔اس کتاب کا نام ’وومن ہو ورک: ریرائٹنگ دی رولز فار سکسیس ہے،۔یوانکا ٹرمپ کئی خواتین سے متاثر ہیں جن کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب میں کیا، ان میں سے ایک پاکستانی خاندان سے تعلق رکھنے والی کاروباری خاتون عنبر احمد ہیں، جنہوں نے نیو یارک میں موجود وال اسٹریٹ پر طویل عرصہ گزارنے کے بعد اپنی بیکری کھولی تھی۔

پاکستان میں بھی بیسیوں خواتین ہیں جو اپنی کمپیناں چلارہی ہیں اور ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ان میں بخش فائونڈیشن کی فِضا فرحا ن بھی ہیں ، جو 2015میں فوربس میگزین کی 30 under 30 social entrepreneurs کی فہرست میںشامل تھیں۔ پاکستان سوفٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن (PASHA)کااخترا ع جہاں آرا ء نے کی ، وہ بہترین سوفٹ ویئر کی فراہمی میں ملکی اور غیر ملکی اداروں کے ساتھ مل کر جانفشانی سے کا م کررہی ہیں۔ فیشن انڈسٹری میں نبیلہ نے 1986سے اپنا سکہ جما رکھا ہے ۔

TIE( دی انڈس انٹرپریئنرز کی سابق صدر سبین محمود(مرحومہ ) نے سیکنڈفلور کی بنیادرکھی تھی۔ اسی طرح کشف فائونڈیشن کی بانی اور ڈائریکٹر روشانے ظفر ، WordPL.net. کی بانی اور سی ای او سلمیٰ جعفری ، ثنا اور سفیناز، فریدہ قریشی، سیما طاہر خان ،کلثوم لاکھانی، ماریہ عمر، صبا گل،شیبا نجمی، مومنہ درید وغیرہ چند ایک نام ایسے ہیں جو پاکستانی خواتین کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔

حال ہی میں نافذ العمل ہونے والے کمپنی ایکٹ 2017 کے نتیجے میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے عوامی مفادات کی کمپنیوں کے بورڈز پر خواتین ڈائریکٹرز کی نمائندگی کے تناسب میں اضافے کے لئے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میںا سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ تمام کمپنیوں کو کارپوریٹ گورننس کے ترمیم شدہ کوڈ کے تحت ہدایت کی گئی ہے کہ اگلے تین سالوں میں کمپنیوں کے بورڈ کم از کم ایک خاتون ڈائریکٹر کو نمائندگی دیں ۔

مجموعی طور پر ملک بھرمیں لسٹڈ کمپنیوں کے بورڈز پر خواتین ڈائریکٹرز کا تناسب صرف چھ اعشاریہ چار فیصد ہے۔یہ تناسب پاکستان کی پارلیمان میں خواتین کی سترہ اعشاریہ دو فیصد نمائندگی اور ملک کے محنت کش طبقے میں خواتین کے پندرہ اعشاریہ آٹھ فیصد حصے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔پاکستان کے کاروباری اداروں میں خواتین ڈائریکٹر زکی شمولیت دنیا بھر میں اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔

ایس ای سی پی کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق اس قانون پر عمل درآمد تمام پبلک انٹرسٹ کمپنیوں کے لئے لازمی ہے اور ان میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ لسٹڈ وہ تمام کمپنیاں شامل ہیں جو ادا شدہ سرمائے، ٹرن اوور، ملازمین کی تعداد، یا حصص داروں کی مقرر کردہ حدسے زائد کی حامل ہیں۔ ایس ای سی پی کے ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کے کارپوریٹ بورڈ ز میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب 6.4 فیصد سے بڑھ کر 14.3فیصد ہو جائے گا جو کہ پاکستان میں خواتین کی نمائندگی کے تناسب کے حوالے سے ایک نمایاں کامیابی ہو گی۔

 اس وقت پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں شامل ہر سو کمپنیوں میں سے69 کمپنیوں کے بورڈزمیں کوئی خاتون ڈائریکٹر شامل نہیں۔ ان کمپنیوں میں وہ سولہ بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں جنہیں فری فلوٹ کیپٹلائزیشن کی بنیاد پر ملک کی بیس بڑی لسٹڈ کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

خواتین ڈائریکٹرز کی بورڈ میں شمولیت سے بہتر فیصلہ سازی اور کرپشن میں کمی دیکھی گئی۔ساتھ ہی ساتھ کمپنیوں کی مالیاتی کارکردگی میں بھی کئی جگہ پر بہتری مشاہدے میں آئی۔ نہ صرف ترقی پذیر ممالک مثلاً ملائیشیا، ہندوستان اور کینیا وغیرہ میں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک یعنی جرمنی، ناروے اور فن لینڈ میں بھی صنفی تنوع کے حصول کے لئے براہِ راست قانونی مداخلت کی مثالیں موجود ہیں۔

پاکستان کی بڑی کمپنیوں کے بورڈ ز میں صنفی تنوع میں بہتری کی امید کی جارہی ہے کہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور بڑی کمپنیوں کے سرمایہ کاری سے متعلق فیصلوں میں ماحولیات، سماجی شعبے اور گوورننس کے مسائل کو اہمیت دی جائے گی۔رواں سال مئی میں نافذ العمل ہونے والے کمپنیز ایکٹ 2017 میں پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کے فروغ کے لئے متعدد اصلاحات متعارف کروائی گئیں ہیں جن میں کاروبار کرنے میں آسانی لانے، کاروبار کو رجسٹرڈ کروانے کے اخراجات میں کمی، انسدادِ تطہیرِ زر، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال اور کمپنیوں کے بورڈ میں خواتین کی نمائندگی کے تناسب کو بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

یونی لیور پاکستان نے بھی یو این ویمن کی حمایت سے خواتین کو با اختیار بنانے کے اصولوں پر دستخط کر کے اپنے کاروبار میں صنفی تنوع بڑھانے کے لیے اپنے عزم کی تجدید کی ہے۔خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے یہ سات اصول،یو این ویمن (the United Nations Entity for Gender Equality and the Empowerment of Women) اور یو این گلوبل امپیکٹ کی مشترکہ کوشش ہے۔یہ اصول کمپنیوں کو ان کلیدی عناصر پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں جو پالیسی اور عمل کے ذریعے ،کام کرنے کی جگہ، مارکیٹ پلیس اور کمیونٹی میں صنفی برابری کو فروغ دینے کے لیے لازمی ہیں۔ 

پاکستان میں اس ادارے کی طرف سے خواتین کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ حد تک بڑھانے ،کیرئر کے فروغ اور دونوں اصناف کے لیے پورے بزنس ویلیو چین میں یک جہتی و برابری برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ،ان سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔یو این ویمن اکنامک امپاورمنٹ پروگرام ،خواتین کو اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال،فیصلہ سازی میں مکمل طور پر شامل ہونے، وسائل تک کنٹرول اور رسائی اور معاشی و سیاسی امور میں حصہ لینے سمیت خواتین کو با اختیار بنانے کی حمایت کرتا ہے۔آمدنی کا ذریعہ بننے والی سرگرمیوں ،باضابطہ ملازمت اور entrepreneurship مواقع تک رسائی کے لیے خواتین اور الگ تھلگ گروپوں کی مدد کرنے کے لیے یو این ویمن اکنامک امپاورمینٹ پروگرام پاکستان کے چاروں صوبوں اور فاٹاتک بڑھایا جا رہا ہے۔یہ پروگرام رائٹ ہولڈرزکو استعداد بڑھانے کی تربیت دے گا اور بزنس ڈیویلپمنٹ اور مالیاتی خواندگی کے ہنر میں مدد کرے گا۔

پاکستان کی 54فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے ، ان میں سے بر سر روزگار خواتین مجمو عی تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی جبکہ کاروباری خواتین تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں تاہم ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد ضرور زیادہ ہے لیکن وہ بھی کل آباد کا ڈیڑھ یا دو فیصد ہیں۔جب سے خواتین کے تعلیمی اور تر بیتی اداروں میں اضافہ ہوا ہے پروفیشنل خواتین کی تعداد بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے ۔

تمام تر اقدامات کے باوجو د خواتین ملکی معاشی یا معاشرتی ترقی میں تاحال وہ کردار ادا نہیں کر پا رہیں جس کی ملک و قوم کو فی الوقت ضرورت ہے ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو جب پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں تو خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ اب

خواتین کو ترقی کے مزید مواقع میسر آئیں گے اور وہ معاشرے کی مفید شہری کے طور پر دکھائی دیں گی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور زندگی کی دوڑ میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آنے کی بجائے خاصے فاصلے پر ہی رہیں۔بعض معاشرتی رکاوٹیں ایسی ہیں جو خواتین کو آگے بڑھنے میں حائل دکھائی دیتی ہیں اس میں مختلف ادوار میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے جوعورتوں کو ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر نے کی طرف مائل ہی نہیں کر سکیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری خواتین کو مساوی حقو ق و مواقع فراہم کر نے کے لیے سر کاری سر پر ستی کی جائے اورایسی خواتین جن میں تمام تر صلاحیتیں اور خصو صیات ہونے کے باوجو دان کو گھر گرہستی میں زنگ کھائے جارہا ہے ان کی مثبت اور تیز سوچ سمجھ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان میں مذید نکھار پیدا کرنا ہو گا اور خواتین کو کاروبارکرنے کی جانب راغب کر نے کے لیے نہ صرف سیمینار کا انعقاد بلکہ خواتین کے شعور کو اجاگر ٹھوس حکمت عملی اپنا نا ہو گی جس کے لیے اقتدار کے ایوانوں سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گاتاکہ پاکستان کی خواتین بھی کاروباری سر گر میوں میں دلچسپی لیتے ہوئے نہ صر ف اپنے اور اہلخانہ کی مالی ضرورتوں کو باآسانی پورا کر سکیں بلکہ بین الاقوامی مارکیٹوں میں تجارت کر کے ملک کے لیے کثیر زرمبادلہ کما سکیں۔ 

تازہ ترین