محمد عبدالمتعالی نعمان
ثانی اثنین،خلیفۂ رسولﷺ ، محبوبِ بارگاہِ رسالت، محرمِ اسرارِ نبوت، مزاج شناس رسولؐ، پیکر تسلیم و رضا، سرچشمہ مہرو وفا، امام عادل، سید المتقین، امام العارفین، حق و صداقت کی مشعل تاباں، علم و فضیلت کا آفتاب، عشرۂ مبشرہؓ کے بزم نشین، خلافت راشدہ کے پہلے رکن، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓکا اسم مبارک عبداللہ، کنیت ابوبکر اور صدیق و عتیق لقب ہے۔
قریش مکہ کے سیاسی نظام میں قصاص ودیت کے نفاذ کا عہدہ آپ کے خاندان کے پاس تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بچپن ہی سے نہایت ذکی ،معاملہ فہم، سلیم الطبع، نیک فطرت اور اعلیٰ اخلاق حمیدہ سے متصف تھے۔ سخاوت و فیاضی، پاک بازی، سچائی، رحم دلی، امانت داری اور بلند اخلاق کا مرقع تھے ۔ آپؓ چوں کہ نبی اکرم ﷺ کے ہم عمر تھے، اسی لیے دونوں میں بہت سی صفات مشترک تھیں۔ ہم عمری اور طبعی ہم آہنگی کا نتیجہ تھا کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ میں بچپن سے گہرے دوستانہ مراسم قائم تھے اور تمام شرفائے مکہ آپ کو ادب و احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ذریعہ معاش تجارت تھا ، آپؓ عرب کے بڑے تاجر، صاحب اثر شخصیت اور قریش کے نام ور سرداروں میں شمار کیے جاتے تھے۔
علم الانساب، فن تاریخ، ’’ایام العرب‘‘ اور تعبیر رؤیا میں بھی آپ کی قابلیت اور علمی مہارت مشہور تھی۔ آپ کی دانش مندی، فہم و فراست اور خوش اخلاقی لوگوں میں معروف تھی ۔
قبائل عرب کے قصاص ودیت کے مقدمات آپؓ ہی طے کیا کرتے اور سب اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے ،جب ظلمت کدۂ عالم میں رسالت محمدیؐ کا چراغ روشن ہوا تو مَردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ آپﷺ پر ایمان لائے۔ آپؓ عظیم المرتبت صحابی رسولؐ ہیں۔ آپؓ کے والدین ، اولاد اور اولاد کی اولاد بھی صحابیت کے شرف سے فیض یاب ہوئی۔ یہ عظیم تر خصوصیت و فخر آپؓ کے سوا کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہیں۔
آغازِ اسلام سے رسول اکرم ﷺ کے وصال تک ہر مرحلے پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے آنحضرت ﷺ کی رفاقت کی۔آپ ﷺ پر ان کی خدمات اور قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے کہ جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابو بکرؓ سے زیادہ کسی کا احسان نہیں۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہم نے ہر ایک کے احسان کا بدلہ چکا دیا،مگر ابوبکر ؓ کو ان کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا‘‘۔
ایمان لانے کے بعد صدیق اکبرؓ نے اپنی تمام قوت و قابلیت، سارا اثر، کُل مال و متاع، جو کچھ آپؓ کے پاس تھا، وہ سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا جوئی اور اسلام کی خدمت و آبیاری کے لیے وقف کردیا۔ آپؓ کی پوری زندگی حبّ رسولؐ سے سرشار تھی۔ بنو تیم کے سردار تھے۔ ذی اثر، ذی حشم اور سابقون الاولون کی ممتاز شخصیات اور جلیل القدر صحابہ کرام ؓ جیسے حضرت زبیر بن عوامؓ، حضورﷺ کے پھوپھی زاد، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، سیف الاسلام حضرت سعد بن ابی وقاصؓ امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ جو کہ عشرہ مبشرہؓ کے بزم نشین بھی ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت و کوششوں سے دولت اسلام سے فیض یاب ہوئے، یہ تمام معدن اسلام کے نہایت تاباں و درخشاں جواہر ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شخصیت جامع کمالات تھی اور اس کا ہر پہلو منفرد و ہمہ گیر تھا۔ آپؓ نہایت پاک باز، صائب الرائے، صادق القول،رقیق القلب، حد درجہ متقی، جو دوسخا اور زہد و ورع کا مجسم پیکر تھے۔ آپؓ امام الانبیاءﷺکی سیرت و کردار کا کامل نمونہ تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سب سے ممتاز اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ تقریر و خطابت اور فصاحت و بلاغت میں بھی خداداد ملکہ حاصل تھا۔ علم تفسیر، حدیث اور اصول اجتہاد میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو امتیازی شان عطا کی تھی۔
جمہورامت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ انبیاء ؑ کے بعد سب سے افضل ہیں، قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں آپؓ کے فضائل و مناقب بکثرت موجود ہیں۔ طبرانی میں ہے، سوائے انبیاء کے ابوبکرؓ سب لوگوں سے افضل اور سب لوگوں سے بلند ہیں۔سیدنا صدیق اکبرؓ کےایثار کی ترجمانی شاعر مشرق نے کیا خوب کی ہے۔
اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا
شاہد ہے جس کی مہر و وفا پر حرا کی غار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت
ہر چیز جس سے چشم ِجہاں میں ہو اعتبار
بولے حضورؐ، چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
پروانے کو چراغ ہے،بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حیات طیبہ عشق رسولؐ کی آئینہ دار ہے۔ آپ نے حبِ رسولؐ کی جو درخشندہ مثالیں پیش کیں، اس کی نظیر ممکن نہیں۔
واقعہ معراج کی صبح کفار کے پوچھنے پر بلا توقف اس محیرالعقول واقعے کی تصدیق کی اور بارگاہ رسالت سے صدیقؓ کا لقب پایا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رحمۃ للعالمینﷺ نے مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا تو مسجد نبویؐ کی جگہ کی قیمت حضرت صدیق اکبرؓ نےادا کی، اس طرح مدینے پہنچنے کے بعد بھی سب سے پہلے ثانی اثنین حضرت ابوبکرؓ کے ابر کرم نے اسلام کے لیے جو دوسخا کی بارش کی۔
آپؓ سفر و حضر اور تمام غزوات و معرکوں میں مجاہدانہ کردار و کارناموں کے ساتھ نبی رحمتﷺ کے ساتھ رہے اور صلح و جنگ کے تمام فیصلوں میں رحمت دو عالم حضرت محمدﷺ کے وزیر و مشیر بن کر ہر موڑ پر آغاز اسلام سے وصال نبویؐ تک آپﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے، حدیث، سیرت اور طبقات کی تمام کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام میں آپﷺ کے ثانی، ہجرت کے وقت غار ثور میں ثانی، بدر کے دن عریش میںثانی، امامت میں حضورﷺ کے ثانی اور وفات کے بعد قبر میں بھی ثانی۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فضائل صدیقی کی کیا خوب ترجمانی کی ہے، گویا منقبت کے آسماں سے نجوم درخشاں اتار لائے ہوں اور دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہو۔
آں ’’آمن الناس‘‘ برمولائے ما
آں کلیمِ اول سینائے ما
ہمتِ اُو کشتِ ملت راچو ابر
ثانیٔ اسلام و غار و بدر و قبر
خاتم النبیینﷺ نے اپنی حیاتِ مقدسہ کے آخری ایام میں حضرت ابوبکرؓ کو اپنی جگہ جانشین بناکر اپنے مصلّے پر نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا،لہٰذا آنحضرتﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ نےمتفقہ طور پر آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح آپ مسلمانوںکے پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے منبر پر بیٹھ کر ایک مختصر مگر فصیح و بلیغ خطبہ دیا۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:’’لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں۔ لیکن میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں نیک کام کروں تو میری اس میں مدد کرو اور برے کام کروں تو مجھے ٹوکو۔ صدق امانت ہے اور کذب خیانت، تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے، جب تک میں اس کا حق نہ دلادوں اور تمہارا قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک اس کے ذمے جو حق ہے، وہ اس سے نہ لے لوں۔
یہ دبستان نبوت کی تعلیم و تربیت اور حضورﷺ کے فیضان صحبت کا اثر تھا کہ اس مختصر سے خطبے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وہ جامع اصول بیان فرمائے جو حکمرانی اور جہاں بانی کی اساس ہیں اور چودہ سو سال کے بعد بھی ان اصولوں کی تازگی میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ خطبہ درحقیقت حکمرانی کا ’’مقدس منشور‘‘ اور ہر دور کی حکومتوں لیے ’’صحیفۂ ہدایت‘‘ ہے۔
آپ نے اپنے عہد خلافت میں لشکرِ اسلام کو وہ پُر خلوص وصیت فرمائی،جو تاریخِ عالم میں سنہری حروف سے لکھی گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’ خیانت نہ کرنا، بے وفائی سے بچنا، مقتولین کا مثلہ نہ کرنا،بوڑھوں،بچوں اور عورتوں اور مذہبی رہنمائوں کو قتل نہ کرنا، ہرے بھرے اور پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا، کھیتوں کو نہ جلانا، کھانے کے علاوہ جانوروں کو بے کار ذبح نہ کرنا‘‘۔
سیدنا صدیق اکبرؓ نے اپنے محبوبﷺ کے مشن کی تکمیل میں جو عظیم خدمات انجام دیں، وہ تاریخ عالم میںزریں حروف سے رقم ہیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حیاتِ طیبہ عظیم الشان کارناموں سےلبریز ہے۔ آپؓ کی دینی خدمات کی طویل فہرست ہے، آپؓ کا دور خلافت بلاشبہ اسلامی فلاحی مملکت کا ایک مکمل نمونہ ہے۔
آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں جو روشن نقوش ثبت کیے ، وہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتے۔ نظام خلافت، ملکی نظم و نسق،حکام کی نگرانی، نفاذ حدود و تعزیر، فوجی و مالی انتظامات، بدعات کا سدباب، خدمت حدیث،اشاعت اسلام، جمع و ترتیب قرآن ایسے لازوال کارنامے ہیں جو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں اور انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ حق تو یہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کی شان ہی نرالی ہے،حضرت ابوبکر صدیقؓ کے کارہائے نمایاں نہایت ہمہ گیر اور عظیم الشان ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر گو ناگوں اہمیت کے حامل ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم مشاہیر نے آپ کی شخصی عظمت اور کارناموں پر خراج عقیدت پیش کیا۔
مغرب کا دانشور لین پول رقم طراز ہے:’’ابوبکر صدیقؓ فیصلہ کرتے وقت متین و عادل ہوتے تھے۔ وہ دل کے نرم اور کریم النفس تھے اور خدمت اسلام کے لیے بے لاگ جذبے سے سرشار۔جانشین رسولؐ ابوبکر صدیقؓ غریبوں کے دکھ درد میں ہمیشہ ان کے کام آتے اور ان کی مالی مدد کرتے۔خلافت کے زمانے میں صحابہ کرامؓ کےبے حد اصرار پر بیت المال سے بہت معمولی تنخواہ لیتے تھے۔ آپؓ کی زندگی بے حد سادہ اور تکلفات سے پاک تھی۔
سادہ ترین غذا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے۔ طبیعت میں انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنی بکریاں جنگل میں خود چراتے، رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور دن کو اکثر روزہ رکھتے، وفات سے قبل اپنے رشتے داروں کو وصیت کی کہ جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے۔ میری فلاں زمین کو بیچ کر اسے ادا کردیا جائے۔ آپؓ کی وفات کے بعد جب یہ رقم امیر المومنین عمر فاروقؓ کے پاس پہنچی تو وہ بے ساختہ رو پڑے اور فرمایا ’’ابوبکرؓ! آپ اپنے جانشینوں کے لیے بہت دشوار کام چھوڑ گئے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ بچپن میں بھی آپﷺ کے رفیق تھے،جوانی میں بھی آپﷺ کے رفیق رہے، سب سے پہلے آپؓ ایمان لاکر رسول اللہ ﷺکے رفیق و دستِ راست بن گئے،صبر آزما حالات میں بھی آپﷺ کے رفیق تھے۔ وصال کے بعد بھی آپﷺ کے رفیق ہیں اور پہلوئے مصطفیٰؐ میں آرام فرما ہیں۔22جمادی الثانی 13ہجری کو تقریباً سوا دو سال مسند خلافت کو زینت بخش کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور یوں علم و فضیلت کا یہ درخشاں آفتاب افق عالم سے غروب ہوگیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حافظ ابن قیمؒ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزہۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ روزانہ فجر کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکرؓ کو موجود نہ پاتے۔وہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت ابوبکر ؓ نماز کی ادائیگی کے لیے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں ،مگر جوںہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینے کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں ،مگر ایسا نہ کر سکے۔
ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے چل دیے۔ سیدنا ابوبکر ؓ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینہ شریف کی طرف لوٹ چکے تو حضرت عمرؓ اُس خیمے میں داخل ہوئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔حضرت عمرؓ نے بڑھیا سے پوچھا،اے اللہ کی بندی، تم کون ہو؟ بڑھیا نے جواب دیا، میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں، ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔
حضرت عمر ؓ نے پھر سوال کیا، یہ شخص کون ہے جو تمہارے گھر آتا ہے؟ بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکرؓ کو نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اسے جانتی تو نہیں، مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے،ہمارے لیے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔
حضرت عمر ؓ یہ سُن کر رو پڑے اور خلیفہ وقت کے جذبہ خدمت خلق اور کفالت عامہ سے بے حد متاثر ہوکر کہا، ابوبکرؓ، آپ نے اپنے بعد آنے والے حکمرانوںکے لیے بے مثال نمونہ پیش کیا ہے (کہ رعایا پروری اور عوامی خدمت اسے کہتے ہیں)