اسلام آباد (محمد صالح ظافر ) قومی سیاست کا محور سینیٹ کے چیئرمین کا چنائو ہے جو دودن بعد آئندہ پیر کو مکمل ہوگا اس دوران پاکستان مسلم لیگ نون کےقائد سبکدوش وزیراعظم نواز شریف نے جنوبی پنجاب کے حددرجہ اہم شہر بہاولپور کا رخ کیا ہے جہاں انہوں نے جمعۃ المبارک کی سہ پہر تاریخ ساز جلسے سے خطاب کیا اس عظیم الشان جلسے سے محترمہ مریم نواز نے بھی خطاب کیا جن کی تقریر کے بغیر نواز شریف کا پیغام ادھورا رہ جاتا ان دو لازم و ملزوم خطابات نے ملکی سیاست کے اس رخ کی نشاندہی کردی ہے جو کبھی کبھار نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اس کا تعلق عوام کی منتخبہ قیادت سے حق حکمرانی چھیننے کی ناپاک آرزو سے ہے۔ نواز شریف نے واشگاف لہجے میں کہا کہ اب ہم اپنے ووٹ کو پائوں تلے روندنے کی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے جذبات سے لبریز لہجے میں کہا کہ میں اس سے بغاوت کا اعلان کرتا ہوں جو ستر سال سے اس ملک میں ہورہا ہے وہ بھرپور انقلابی لہجے میں اپنا مافی الضمیر بیان کررہے تھے انہوں نے عوام کو باور کرایا کہ اگر اپنا حق مانگنے سے نہ ملے تو اسے چھین لیا جائے نواز شریف کا اپنا لب و لہجہ ہے ان کی ہر بات اور ہر جملے سے عوام کا انبوہ کثیر کامل اتفاق کررہا تھا یوں تو نواز شریف کو پورے ملک سے دعوتیں موصول ہورہی ہیں تاکہ ان کے بے چین پرستار ان سے مل سکیں جنہیں وہ نجات دہندہ دکھائی دے رہے ہیں۔ عوام کا سوال صرف یہ ہے کہ نواز شریف جب اس قدر شاندار طور پر ملک کی خدمات انجام دے رہے تھے توان کی حکومت کو زمین بوس کرنے میں کونسی مصلحت کارفرما تھی۔ نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ وہ ستر سالہ بوسیدہ نظام کو مسمار کردینگے تو اس میں وہ جواب موجودہے جس کی تلاش ہورہی ہے نواز شریف حکومت میں پانچ سال پورے کرکے عوام میں جاتے تو انہیں عوام سے اس قدر بھاری تائید ملنے کا امکان تھا جس سے وہ جرات و بے خوفی سے ادارہ جاتی اصلاح کرے اس اصلاحی عمل سے خائف عناصر نے انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کرانے میں سرگرمی دکھائی کہ کہیں وہ اپنے مقاصد کو پورا نہ کرلیں ستر سالہ بوسیدہ اور گلے سڑے نظام نے گرنا ہی ہے یہ سوچ کا نقص تھا کہ نواز شریف کو فارغ کردینے سے یہ عمل رک جائے گا یا آہستہ ہوجائے گا نواز شریف کے لئے ملنے و الی پذیرائی جہاں ان سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے مثال چاہت کا اظہار ہے وہاں اس کے پہلو بہ پہلوعوام کی اس خواہش کو بھی ابھر کر سامنے آنے کا موقع مل رہا ہے کہ وہ بھی اس نظام سے عاجز آچکے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کا خطاب بھی اپنی جولانیوں پر تھا انہوں نے اپنی تقریر میں چومکھی لڑی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے تقریباً سبھی مخالفین کواپنے ہدف پر لے رکھا۔ اسی دوران وفاقی دارالحکومت میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لئے جوڑ توڑ عروج پر ہے جس شخص کو مفاہمت کا گرو قرار دیا جاتا تھا وہ بورے بھر کر یہاں پہنچا ہے اور کھلے بندوں سودے کاری میں مصروف ہے اس کی کایا کلپ ہوگئی ہے اس نے دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ نون جوانتخابی نتائج کی رو سے سینیٹ کی اکثریتی پارٹی ہے اسے اپنا چیئرمین منتخب نہیں کرنے دینگے۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات کے بعد صوبہ کے پی میں مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر اپنی حکومت قائم کرنے کی بجائے اپنی بڑی حریف تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ نواز شریف نے اس وقت بھی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا کہ ایوان میں سب سے بڑی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع دیا حالانکہ اس کے پاس ایوان کی اکثریت موجود نہیں تھی ان کا استدلال ہے کہ اسی اصول کے تحت پاکستان مسلم لیگ نون کو سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اپنا بنانے کا حق ملنا چاہئے اور اس میں رخنہ اندازی سے گریز کیا جائے تو موزوں ہوگا لیکن بدقسمتی سے تخریب کاری کے عمل میں دوسرے اور تیسرے درجے پر آئی پارٹیوں نے نہ صرف اس اصول سے انکار کردیا ہے بلکہ دونوں نے خفیہ طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملالیا ہے حالانکہ وہ ماضی میں ایک دوسرے کو غلیظ گالیوں سے نو ازتے رہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کا نامزد کردہ امیدوار سینیٹ کا چیئرمین نہ بن سکے۔ یہ سراسر منفی طرز فکر ہے اورا س سے جمہوری نظام پر سخت حرف آتا ہے تحریک انصاف نے اپنے تیرہ ارکان کو بلوچستان سے چیئرمین لانے کے خوشنما نعرے کی آبیاری کے لئے صوبے کے وزیراعلیٰ کو سونپ دیئے تھے جس نے ان ارکان کو پیپلزپارٹی کے ہاتھ بیچ دیا ہے اب پیپلزپارٹی بلوچستان کی بجائے کسی دوسرے صوبے سے کسی غیر موزوں امیدوار کونامز کرتی ہے تو سوال پیدا ہوگا کہ تحریک انصاف اپنے ارکان کو بقائمی ہوش و حواس کہہ سکتی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیدیں۔