کب تک امیدِسحرسے لولگائے رکھی جائے اورکب تک تمنائے ثمرمیںعوام صبرکے پودے کوسینچتے رہیں۔لیکن یہاںتودن نکلتا ہے نہ صبرکے پودے پہ کوئی پھول کھِلتاہے اوراسی کشمکش میںپون صدی گزرگئی ہے۔اس دوران ہماری اشرافیہ اورہمارے حکمران طبقات میں یہ کشمکش چلتی رہی کہ اس مملکت ِخداداد پرحکمرانی کااہل کون ہے اوراصل حقدارکون؟اسی اکھاڑپچھاڑمیںآدھاملک بھی گنوایا مگرکوئی سبق نہیںسیکھا البتہ ہر آٹھویںدسویںبرس ہم سب کچھ الٹ پلٹ کر، پھروہیںپہنچ جاتے ہیںجہاںسے سفر کاآغازہواتھا۔
ہمارایہ سفرآغازہی سے عوام کے حق حکمرانی سے کوسوں دوررہاہے۔اتنادورکہ قیام پاکستان کے گیارہویںسال میںملک اپنے پہلے مارشل لاکی زدمیںآچکاتھا۔ پاکستان کے طاقتورطبقات اورادارے بانی ِپاکستان کی رحلت کے فوری بعدمحلاتی سازشوں میںمصروف ہوچکے تھے۔پاکستان آرمی کے پہلے کمانڈرانچیف،پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر،پہلے اورواحدفیلڈمارشل اورا سکندر مرزاکے بعد دوسرے صدر مملکت محمدایوب خان 1950میںپاک فوج کے چارمیجرجنرلزمیںسب سے جونیئرمیجرجنرل تھے ان کی فائل پاکستان کے پہلے کمانڈرانچیف کی تعیناتی کے دوسرے امیدواروںکے ساتھ میجرجنرل( ریٹائرڈ) اسکندرمرزا،ڈیفنس سیکرٹری پاکستان کے سامنے پیش کی گئی۔مرزا کاتعلق مشرقی پاکستان سے تھااوروہ بدنامِ زمانہ میرجعفرکے پڑپوتے تھے(اگرچہ یہاںاس رشتے کااظہارمحض برسبیل تذکرہ ہے)ایوب خان اور اسکندرمرزادونوںسینڈھرسٹ ملٹری اکیڈمی برطانیہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ا سکندرمرزا اس وقت 1948کی کشمیرجنگ کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان کے ساتھ اسپیشل سیکرٹری ڈیفنس کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔یہ وقت وہ تھاجب پاکستان آرمی کے کمانڈرانچیف جنرل ڈگلس گریسی کی مقررہ مدتِ ملازمت ختم ہورہی تھی اوروزیراعظم نہیںچاہتے تھے کہ جنگ کے ان حالات میںغیرملکی کمانڈرانچیف کوملازمت میںتوسیع دی جائے۔ڈیفنس سیکرٹری بھی یہی چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش یہ بھی تھی کہ اس اہم عہدے پرجونیئرموسٹ میجرجنرل محمدایوب خان کی تعیناتی ہو۔شایدسینڈھرسٹ تعلق کام آیاتھا۔اسپیشل سیکرٹری ڈیفنس ‘وزیراعظم کوقائل کرنے میںکامیاب رہے اور17جنوری1951سے میجرجنرل محمدایوب خان ڈبل پروموشن پاکرٹواسٹارسے فوراسٹارجنرل اورپاک فوج کے پہلے مقامی کمانڈرانچیف بنادئیے گئے۔
پاکستان کے ابتدائی دورمیںیہ دو رکنی سول ملٹری افسرشاہی اتحادبہت اہم واقعہ تھااوراگلے سات برس میںنہ صرف جسے کامیابی کی انتہائی بلندیوںکوچھوناتھابلکہ پاکستان کی آئندہ تاریخ میںداخلی سیاست‘خارجہ تعلقات‘سول ملٹری معاشرت کامزاج تراشنا‘ان کا رول ماڈل بن کرایک تسلسل اورٹھوس بنیادفراہم کرناتھا۔ جنوری1951سے اکتوبر1958تک ایوب اور مرزا دوطرفہ مفاداتی اشتراک ایک دوسرے کے قدم قدم پرکام آیا۔
انہی سات سال کے دوران پاکستان میںپے درپے بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ اکتوبر 1951میںراولپنڈی جلسے سے خطاب کے دوران وزیراعظم پاکستان شہیدکردئیے گئے۔یہ انتہائی افسوسناک واقعہ نوزائیدہ مملکت کے لئے ایک عظیم صدمہ تھا۔ لیکن مملکت کے کاروبارکوچلتے رہناتھا۔قائداعظم کی رحلت کے بعدخواجہ ناظم الدین گورنرجنرل بنے تھے اور اب تین سال گزرے تو وزارت عظمیٰ کے خالی عہدے کے لئے قرعہ فال ایک بارپھرتجربہ کارسیاستدان خواجہ ناظم الدین کے نام نکلا۔قیامِ پاکستان سے پہلے وہ متحدہ بنگال کے وزیراعظم رہ چکے تھے‘ پاکستان کے دوسرے گورنرجنرل اب پاکستان کے دوسرے وزیرِاعظم تھے۔ لیکن اس سے پہلے اوائل سن اکیاون میں ہی پنڈی سازش کیس کے چرچے ہو چکے تھے جس کی قیادت اور پلاننگ کا الزام پاک فوج کے سینئر میجر جنرل اکبر خان کو ٹھہرایا گیا۔ مگر نئی فوجی قیادت کے تحت فوری کارروائی کرتے ہوئے جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید سجاد ظہیر، فوج کے چند دوسرے افسران، کچھ سیاسی ورکر ، بائیں بازو کے دانشور شاعر فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی بھی شامل تھے۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش بروقت اور بڑی کامیابی کے ساتھ ناکام بنا دی گئی تھی۔ یہ کارنامہ 9مارچ1951کوانجام دیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیرِاعظم بنے تو وزیرخزانہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دسویں ہفتے میں سندھ کی حکومت اور صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ دوسری طرف وزیرِاعظم کو ملک بھر میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے چیلنج درپیش تھے۔ ادھرمشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر ہنگامے اور خون خرابہ جاری تھا۔ سینٹرل پنجاب میں مجلس احرار کی قیادت میں اینٹی قادیانی تحریک سر اٹھا رہی تھی اور ملک میں گندم کا بحران بھی شدت اختیار کر تا جا رہا تھا۔ 1952کا سال انہی ہنگامہ آرائیوں میں گزرا ۔ اس دوران ایک اہم بات یہ ہوئی کہ ملک کی نازک مالی صورت حال کے پیش نظر ناظم الدین حکومت نے 1952 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے سرکاری اخراجات میں قابل ذکر کمی کا اعلان کیا۔ فوج کے لئے بجٹ کی رقم میں 25فیصد کمی کر دی جبکہ فوج اپنے بجٹ میں اضافہ چاہتی تھی، جس کی بنا پر فوجی اور سیاسی قیادت میں سرد مہری بتدریج نمایاں ہو رہی تھی ۔ اس دوران اینٹی قادیانی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے لاہور میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ دو مہینے بعد جب مارشل لا اٹھا تو اس سے پہلے گورنر جنرل غلام محمد اپنے ایک فرمان کے ذریعے 17اپریل1953کو خواجہ ناظم الدین کی حکومت اور کابینہ بر طرف کر چکے تھے۔ یہ حکومت صرف ایک سال اور چھ مہینے قائم رہ سکی۔ ان کی جگہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ وزیر اعظم بنا دئیے گئے۔
بوگرہ کیرئیر ڈپلومیٹ تھے اور امریکی حکومت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی امریکہ دوستی کا زیادہ فائدہ امریکہ نے ہی اٹھایا یا پھر جنرل ایوب نے کہ وہ اپنی خوائش کے مطابق امریکہ کے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ یہ قربت بعد میں مارشل لا لگانے اور اسے دیر تک پائیدار رکھنے میں جنرل کے کام آئی۔بوگرہ حکومت کے دو سالہ دور میں ہم کولڈ وار کے امریکی کیمپ کی دلدل میں دور تک دھنستے چلے گئے۔
ہم سیٹو اور سینٹو جیسے جارحانہ معاہدوں کا حصہ بنے جسے روس اور چین کی ممکنہ مہم جوئی کے خلاف ترکی سے تھائی لینڈ اور فلپائن تک ، امریکہ کی پہلی دفاعی لائن ثابت ہونا تھا۔ پاکستان کے تقریباً سبھی ائیربیس امریکی فضائیہ کے کام آ رہے تھے۔ پشاور کے قریب بڈبیر کا ہوائی اڈہ جہاں سے پرواز کرنے والا امریکی طیارہ روس کی فضائی جاسوسی کرتے ہوئے گرا لیا گیا تھا اور روس کے وزیر اعظم خروشیف نے پشاور کو تباہ کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی کابینہ کم وبیش سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل تھی، وزیر خزانہ چوہدری محمد علی تھے،وزیر خارجہ خود وزیرِاعظم، وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا اور پاک فوج کے کمانڈر انچیف وزیر دفاع، لیکن جنرل ایوب کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے سہروردی اور فیروز خان نون کی سیاسی کابینہ میں بھی وزیر دفاع رہے ۔ اور اس بوگرہ حکومت کے دور میں ہی ون یونٹ کا شوشہ چھوڑا گیا۔ 1954میں جب دستور ساز اسمبلی پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل کر چکی تو اسے نافذ نہ کیا جا سکا کہ گورنر جنرل اس سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کا فرمان جاری کر چکے تھے۔ 1956میں پھر یہ تاریخ دہرائی گئی، آئین بنا تو یہ فیصلہ مان لیا گیا کہ اسے دو سال بعد نومبر58کے عام انتخابات کے بعد نافذ کیا جائے گا۔ اور انتخابات سے ایک مہینہ پہلے ملک اپنے پہلے مارشل لا سے دوچار تھا۔ اسکندر مرزا نے 8اکتوبر کومارشل لالگایا اور بیس روز بعد جنرل ایوب نے صدر مملکت کو بر طرف کرکے ملک بدر بھی کر دیا۔
حالات آج بھی وہی ہیں، کچھ بھی نہیں بدلا۔منیر نیازی نے ٹھیک ہی کہا تھا
تھا منیر آغاز ہی سے فیصلہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998