• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ سوالات دیکھتے ہی دیکھتے خاصی شدت اختیار کر گئے ہیں۔کیا میڈیا کے ایک بڑے حلقے کی غیر ذمہ دارانہ روش کے باعث، ذرائع ابلاغ کی ساکھ پر منفی اثر پڑا ہے؟ کیا اب عوام الناس اپنی رائے بنانے کیلئے میڈیا سے بے نیاز ہو گئے ہیں؟ کیا ملکی سیاست میں نظریاتی سوچ نے یکایک اہمیت اختیار کر لی ہے؟ کیا نواز شریف کا بیانیہ عوام کے دلوں میں گھر کر گیا ہے؟ کیا اب یہ بیانیہ سیاستدانوں کو بھی متاثر کرنے لگا ہے اور ایک نئی تقسیم ہونے کو ہے؟ کیا 2018 کے انتخابات میں یہ بیانیہ اتنی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ انتخابی عمل کو ریفرنڈم کی حیثیت حاصل ہو جائے؟ یہ چند بڑے بڑے سوالات ہیں۔ ان ہی سے ملتے جلتے کئی اورسوالات بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ نہ تو ان سوالات پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے نہ ہی یہ سوالات ہمارے ٹاک شوز کا موضوع ہیں اور نہ ہی قومی سطح پر کوئی مباحثہ ہو رہا ہے ، لیکن سولات بہر حال موجود ہیں۔ انکی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اورانکے اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اب اس بات میں تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ میڈیا کا ایک مخصوص حصہ ، مخصوص ایجنڈا رکھنے اور مسلسل منفی پروپیگنڈا کرنے کے با وجود پاکستان کے لوگوں کو باور نہیں کرا سکا کہ نواز شریف کرپٹ ہے اور اس نے قومی دولت لوٹی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا جھنڈ ا عمران خان اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے 2013 کی انتخابی مہم بھی اسی بیانیے پر اٹھائی اور بعد میں بھی انتخابی دھاندلی کیساتھ ساتھ حکمرانوں کی لوٹ مار کو موضوع بنائے رکھا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے "گو نواز گو" کا نعرہ لگایا۔ بالآخر ایک عدالتی فیصلے کے تحت انہوں نے اپنی منزل مقصود پائی۔ نواز شریف نہ صرف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے بلکہ نا اہل بھی قرار پائے ۔ پھر انہیںپارٹی صدارت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب وہ صرف "محمد نواز شریف "ہیں۔ لیکن تمام سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہہ یہ نواز شریف، وزیر اعظم ہاوس میں بیٹھے نواز شریف سے کہیں زیادہ مقبول اور کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اسکی معزولی کے بعد سے اب تک پنجاب میں ہونے والے تمام انتخابات میں اس نے اپنے سیاسی حریفوں کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑے مارجن سے شکست دی۔نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عدالتی فیصلوں ، عمران خان کی مہم اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کی طرف سے انتہائی منفی پروپیگنڈے نے کوئی اثر نہیں دکھایا۔ اور اگر دکھایا بھی ہے تو صرف یہ کہ نواز شریف زیادہ مقبول اور مسلم لیگ(ن) زیادہ مضبوط ہو گئی۔
عدالتی فیصلوں پر تنقید یا تبصرے کی گنجائش کم ہے۔ عمران خان یا دیگر شخصیات سیاسی ہیں اور وقت کیساتھ ساتھ انہیں نئے سیاسی موضوعات بھی مل جائیں گے۔ یوں بھی سیاستدانوں کی ساکھ زیادہ حساس نہیں ہوتی۔ اس میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ میڈیا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لوگوں نے اس کا اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو حالات حاضرہ کے پروگرام بھی تفریح طبع یا وقت گزاری کے طور پر دیکھتے ہیں اور لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ لیکن سنجیدہ، با شعور لوگوں کا بہت بڑا طبقہ اب بیزار ہو چکا ہے۔ جہاں تک ملکی سیاست میں نظریاتی سوچ کے ابھر آنے کا تعلق ہے، اسے اچھی پیش رفت خیال کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں ترقیاتی کاموں ، بجلی، پانی، گیس، تعلیم، صحت، مہنگائی، کرپشن یا عوامی مسائل ہی انتخابی مہم کا موضوع بنتے ہیں۔ تمام جماعتوں کے منشور تقریباََ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن پہلی بار ایک خالصتا نظریاتی بیانیہ ملکی سیاست پہ حاوی ہوتا نظر آتا ہے۔ اس بیانیے کا پرچم سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اٹھا رکھا ہے۔ 28 جولائی کے بعد جی۔ٹی۔ روڈ سے اس بیانیے کا آغاز ــ"مجھے کیوں نکالا؟" کے سادہ جملے سے ہوا۔ اب یہ جملہ" ووٹ کوعزت دو "کے نعرے میں ڈھل چکا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک عام آدمی کو بھی اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے معنی کیا ہے۔
وہ سوچنے لگا ہے کہ ستر سال سے ایسا کیوں ہو تا ہے کہ جنہیں لوگ ووٹ دیتے ہیں، انہی کو سزائیں ملتی ہیں۔لوگوں کو اس بیانیے میں کشش محسوس ہونے لگی ہے۔ شاید اسی کشش نے نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں کی رونق کئی گنا بڑھا دی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سینیٹ میں آخری تقریر نے ہل چل سی پیدا کر دی ہے۔انہوںنے وہی باتیں کی ہیں جو نواز شریف کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ کا رشتہ کیا ہے۔ ایک حالیہ عوامی جلسے میں نواز شریف نے کہا تھا کہ ووٹ کی حرمت کے حوالے سے آنے والے انتخابات کو ریفرنڈم میں بدل دو اور ایک انقلاب بپا کر دو۔ فرحت اللہ بابر نے بھی کہا ہے کہ اگر ریاست کے تین بنیادی اداروں میں توازن قائم نہ رکھا گیا اور عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی رہی تو ڈر ہے کہ اگلے انتخابات عوامی ریفرنڈم کا درجہ اختیار نہ کر لیں۔
سینیٹ کے چیئر مین کے طور پر جناب رضا ربانی کا نام تجویز کر کے نواز شریف نے اپنے بیانیے کو مزید تقویت دی ہے۔ انکا واضح پیغام یہ ہے کہ ہر وہ شخص انہیں عزیز ہے جو انکے بیانیے پر یقین رکھتا ہے۔ چاہے اسکا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ نواز شریف نے رضا ربانی سے نہیں اپنے نظریے سے وابستگی کا اظہارکیا ہے اور اس مقصد کیلئے اپنے جماعتی سیاسی مفاد کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔زرداری صاحب نے رضا ربانی کے نام سے اتفاق نہ کرتے ہوئے واضح پیغام دے دیا ہے کہ موجودہ نظریاتی ماحول میں انکا وزن کس پلڑے میں ہے۔ بد قسمتی سے عمران خان نہ تو خود کوئی نظریہ یا اصول تخلیق کر سکے نہ ہی تحریک انصاف کو آنے والے انتخابات کیلئے کوئی واضح سوچ دے سکے۔ کہا جا رہا تھا کہ اگر چیئرمین کے الیکشن میں وہ اپنا وزن پی پی پی کے پلڑے میں ڈالتے ہیں تو یہ سراسر نقصان کا سودا ہو گا۔خان صاحب یہ سودا کر چکے اور انہوں نے اپنی پارٹی کے تمام ووٹ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے توسط سے پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں۔ موجودہ سیاسی ماحول بہر حال ایسے انتخابات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں بیانیہ نہایت اہم ہو گا۔ اس وقت یہ نظریاتی بیانیہ صرف نواز شریف کے پاس ہے۔ انکے حریف ابھی تک کوئی متبادل بیانیہ نہیں لا پائے۔ وہ چھوٹے موٹے سیاسی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین