مفتی خالد محمود
آج’’بادشاہی مسجد‘‘لاہور میں ہونے والی اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ اور مختلف جماعتوں کے زعماء خطاب کریں گے
آج لاہور کے تمام راستے، تمام قافلے بادشاہی مسجد لاہور کی طرف رَواں دَواں ہیں، کیوں کہ آقائے نام دار، سرورِ دو عالم، امام الانبیاء، سید المرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے بڑا عظیم الشان اجتماع ہورہا ہے۔آج یہاں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع ہوکر سرکارِ دوجہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت کا ثبوت دیں گے۔ یہاں جمع ہونے والے فدایانِ ختم نبوت میں ہر نسل، ہر قوم، ہر مسلک، ہر جماعت، ہر زبان کے لوگ ہیں، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا رشتہ ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے ،جہاں ہر تفریق، ہر فرق، ہر امتیاز مٹ جاتا ہے۔ صرف ایک امتیاز، ایک شناخت، ایک پہچان باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔
ویسے بھی ختم نبوت کا عقیدہ دین کا بنیادی اور اساسی عقیدہ ہے، اس کا تحفظ کسی ایک فرد، ایک جماعت کا کام نہیں ،بلکہ یہ پوری اُمت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔یہ ایک ایسا بنیادی عقیدہ ہے جو اُمت کی وحدت کا ضامن ہے، یہ عقیدہ ہی اُمت مسلمہ کے منتشر شیرازے کو یکجا کردیتا ہے۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا اسٹیج اور پلیٹ فارم اُمت میں اتحاد کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس اسٹیج پر ہر مسلک کے علماء، مشائخ، ہر مذہبی جماعت کے زعماء اور ہر سیاسی جماعت کے قائدین یکجا اور یک آواز نظر آتے ہیں۔
کانفرنس میں اس اتحاد کا مظاہرہ ہوگا،ختم نبوت کے پروانے اپنی اپنی شناخت ختم کرکے ایک اُمتی کی حیثیت سے یہاں جمع ہوں گے، ملک بھر سے قافلوں کی صورت میں خصوصاً پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے قافلے در قافلے ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کرکے آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا ثبوت دیں گے۔
بادشاہی مسجد کے در ودیوار اور اس کے بلند مینار پہلی مرتبہ یہ نظارہ نہیں دیکھیں گے، بلکہ اس سے پہلے بھی وہ بارہا عشق ومحبت کے یہ مظاہر اور مناظر دیکھ چکے ہیں۔ بادشاہی مسجد کے مینار گواہ ہیں۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی صدا لگائی گئی تواس پر لبیک کہتے ہوئے ختم نبوت کے پروانے ہر جگہ سے کھنچے چلے آئے۔2009ء میں بھی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس یہاں منعقد ہوچکی ہے جس میں ہر مسلک اور ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔
اس سے پہلے یکم ستمبر 1974 کو بھی اسی بادشاہی مسجد میں عظیم الشان اجتماع ہو چکا ہے اور اس کا اسٹیج کس طرح مختلف پھولوں سے سجا ہوا ایک خوش نماگل دستے کا منظر پیش کر رہا تھا، ذرا سوچیے کہ اس اسٹیج پر محد ث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ ، حضرت مفتی محمودؒ ، ولی کامل مولانا عبدالہادی دین پوریؒ ،حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستیؒ ، حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ ، صاحبزادہ غلام معین الدینؒ گولڑہ شریف ، مولانا شاہ احمد نورانی ؒ، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ ، مولانا تاج محمودؒ ، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، علامہ سید محمود احمد رضوی ، علامہ احسان ظہیر ، مولانا عبدالقادر ورپڑی، مولانا مظفر علی شمسی، مولانا عبید اللہ انور ، مولانا عبد الستار نیازی، پیر صاحب پگاراشریف ، مولانا ابوذر عطاء المنعم شاہ بخاری ، چودھری ظہور الٰہی،علامہ مصطفیٰ احمد زہری، گلزار احمد مظاہری ، مولانا غلام علی اوکاڑوی ، مفتی مختار احمد جیسے مختلف الخیال لیکن علم وعمل کے جبال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے لیے یک جان تھے، ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
کیونکہ اس امت میں جتنے فتنے پیدا ہوئے ،ان سب میں بڑا یہی فتنہ تھا، اس نے ایک نئی نبوت کا ڈھونگ رچا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالا ، مرزا غلام احمد نے دو بعثتوں کا نظریہ ایجاد کیا کہ ایک بار تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھٹی صدی عیسوی میںمکہ میں مبعوث ہوئے دوسری مرتبہ(نعوذباللہ) آپ مرزا غلام احمد کی صورت میں قادیان میں مبعوث ہوئے، یوں مرزا غلام احمد(العیاذ باللہ ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر جا بیٹھا، جو، جو صفات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن کریم میں بیان ہوئیں، ان سب کو اپنے اوپر چسپاں کر لیا۔
مرزا غلام احمد نے قرآن کریم کی بے شمار آیات میں تحریف کر ڈالی، اسلامی عقائد کا مذاق اُڑایا، انبیائےکرام علیہم السلام کی توہین کی، انہیں فحش گالیاں دیں ، پوری امت مسلمہ کو کافر اور گمراہ قرار دیا،جہاد کو منسوخ قرار دے کر کہا کہ اب جہاد کرنا حرام ہے۔
بعض لوگ اسے بھی دیگر فرقوں کی طرح ایک اسلامی فرقہ سمجھ کر اس فتنے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید ان کی نظر سے ان کا لٹریچر نہیں گزرا،ورنہ وہ کبھی اس سوچ کے حامل نہ ہوتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ متوازی اُمت اور ایک مستقل دین کی داعی ہے، یہاں نبی کے مقابلے میں نبی کو کھڑا کیا گیا، بلکہ اسے دوسرے انبیاء سے حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل قرار دیا۔ شعائر کے مقابلے میں شعائر، مقامات مقدسہ کے مقابلہ میں مقامات مقدسہ، کتاب کے مقابلے میں کتاب، افراد کے مقابلے میں افراد ہر چیز کا بدل انہوں نے مہیا کیا، چنانچہ نبی کے مقابلے میں نبی اور اس جھوٹے نبی کے ماننے والوں کو صحابہ کا درجہ دیا گیا، اس کی بیویوں کو امہات المؤمنین کہا گیا، مکہ اور مدینہ کے مقابلے میں قادیان کو ارض حرم اور مکۃ المسیح قرار دیا۔حج کے مقابلے میں قادیان حاضری کو حج سے زیادہ ثواب قرار دیا، قرآن کریم کے مقابلے میں ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو پیش کیا، غرضیکہ ایک ایک چیز میں اختلاف نہیں، بلکہ مقابلہ کیا۔
جس طرح آج یہ مسجد، اس کے در ودیوار اور اس کے مینار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں کا رُوح پرور اجتماع دیکھیں گے، اسی طرح آج سے ایک سو سترہ سال قبل بھی ایسے ہی ایمان افروز اجتماع کا نظارہ کرچکے ہیں۔
۲۷ ؍ اگست ۱۹۰۰ء کو اسی مسجد میں ایک عظیم اجتماع ہوا۔ آٹھ ہزار سے زائد افراد اس میں شریک ہوئے اور پیر طریقت حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ شریف اور ان کے ساتھ بیسیوں علمائے کرام ، مشائخ عظام اور صوفیان کرام اس جلسے میں جلوہ افروز تھے۔ اس کی پوری روئیداد اور آنکھوں دیکھا حال مولانا عبدالرحمن مونگیری نے مرتب کیا جو ’’حق نما‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔احتساب قادیانیت جلد ۳۸ کی زینت بنا ۔ روئیداد تو بہت تفصیلی ہے ،اس کے کچھ اقتباسات اور اس کا خلاصہ ذکر کرتا ہوں ، ان شاء اللہ اس سے ایمان میں تازگی پیدا ہوگی۔ مولانا سید عبدالرحمن مونگیری لکھتے ہیں:’’ ۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء کو مرزا غلام احمد قادیانی ایک مقدمہ فوجداری میں زیر دفعہ ۱۰۷، ضابطہ فوجداری بعدالت صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداس پور بحیثیت ملزم تھا۔ اخیر تاریخ فیصلہ پر اس کو ایک مفصل اقرار نامہ بوجہ بریت لکھنا پڑا جس کی پہلی تین شرطیں حسب ذیل تھیں:
۱… وہ ایسی پیش گوئی شائع کرنے سے پرہیز کرے گا جس کے یہ معنی خیال کیے جاسکیں کہ کسی شخص کو (مسلمان ، ہندو، عیسائی وغیرہ) ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتابِ الٰہی ہوگا۔
۲… وہ خدا کے پاس ایسی اپیل (دعا) کرنے سے اجتناب کرے گا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ موردِ عتاب الٰہی یا یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
۳… کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہے گا۔ جس کا منشاء ایسا ہو یا ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا موردِ عتاب الٰہی ہوگا۔
اس اقرار نامہ کے تحریر کردینے کے بعد چند روز تک اقرار نامہ مذکور پرمرزا غلام احمد خاموش رہا۔ مگر اس کے پیروی کرنے اور بربنا اس کی خاموشی اختیار کرنے میں جب آمدنی اور چندےپر ایک معتد بہ اثر پڑا اور الہامی یاقوتیوں کی تیاری میں فرق آیا اور پرانے رفیق منشی الٰہی بخش ملہم، منشی عبدالحق اکاؤنٹنٹ، حافظ محمد یوسف ضلع دار نہر، ڈپٹی فتح علی شاہ اور دیگر اچھے اچھے پیرو پھر گئے تو مرزا غلام احمد کو ضرورت نفس نے مجبور کیا کہ پھر وہی پرانی طرز اختیار کرلی۔ تب اشتہار ، منارۃ المسیح ، معراج یوسفی، معیار الاخیار، نکالے، مگر اس سے بھی مطلب بر آری نہ ہوئی تو سوچ کر حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ سجادہ نشین گولڑہ شریف اور دیگر ۸۶ معزز علمائے کرام و صوفیائے عظام کو بالخصوص اور باقی تمام علماء و صوفیائے پنجاب ہند کو بالعموم مباحثے کے لیے مقام لاہور بمقابلہ خود دعوت دی‘‘۔
مرزا غلام احمد نے ۱۲ صفحات پر مشتمل ایک خط کے ذریعے مقابلے کی دعوت دی ۔ ان ۱۲؍ صفحات میں لا یعنی خرافات اور حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کی شان میں گستاخی زیادہ تھی، کام کی بات کم تھی اور یہی مرزا کا طریقہ رہا ۔ اس خط میں اپنے مشہور الہامات کے ذریعے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پیر صاحب میرے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ اس مباحثے میں ناکام ہوں گے ، بلکہ لاہور تک پہنچ ہی نہیں پائیں گے۔
مرزا کا طریقہ واردات رہا ہے کہ اس طرح کا زور دار دعویٰ کرتے ہیں ،پھر اسے مشتہر کرتے اور سب جگہ پھیلاتے ہیں، عام آدمی اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔مرزا صاحب کا خیال تھا کہ پیر صاحب صوفی آدمی ہیں، ایک گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والے آدمی ہیں، بحث مباحثے سے گریز کرتے ہیں،وہ کہاں بحث کے لیے آئیں گے۔
پیر مہر علی شاہ صاحب وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے حرمین کا سفر کیا اور وہیں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تھا، جب اپنے ٹھہرنے کے ارادے کا اظہار اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمہ اللہ کے سامنے کیا تو ان کے شیخ نے فرمایاکہ تم واپس جاؤ! ہندوستان میں عن قریب ایک فتنہ پیدا ہونے والا ہے ، آپ وہاں موجود رہیں گے تو یہ فتنہ زیادہ پر پرزے نہیں نکال سکے گا ، گویا کہ آپ کو حرمین سے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے بھیجا گیا تھا۔
مرزا صاحب نے پیر صاحب کومؤرخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو بذریعہ رجسٹری مباحثہ و مقابلے کی دعوت دی اور تاریخ طے کرنے کا اختیار بھی پیر صاحب کو دیا تھا کہ وہ جو تاریخ مقرر کریں، اس تاریخ پر لاہور میں آکرتحریری و تقریری مقابلہ کریں۔ پیر صاحب نے ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء کی تاریخ مقرر کی اور اسے لاہور آنے کی دعوت دی اور ۲۵؍ جولائی ۱۹۰۰ء کو بذریعہ رجسٹری جوابی خط لکھا۔ اس کے جواب میں مرزا نے ایسی خاموشی اختیار کی جیسے اس نے کچھ لکھا ہی نہ ہو۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے اپنے جوابی خط کو مشتہر بھی کردیا اور مزید تاکید کے لیے حافظ محمد الدین مالک مطبع مصطفائی کو بھی حکم فرمایا ہماری طرف سے مرزا غلام احمد کی تمام شرائط کی منظوری کا اعلان کردو۔ انہوں نے ۲۴؍ اگست ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا اور اس میں لکھا:
آج بروز جمعہ ۴ بجے شام کو ٹرین میں بوجہ ہمدردی اسلام پیر صاحبؒ مرزاقادیانی کی تمام شرائط منظور کرکے لاہور تشریف فرما ہوں گے اور محمدن ہال انجمن اسلامیہ واقع موچی دروازہ لاہور میں بغرض انتظار مرزا قیام فرمائیں گے۔ چنانچہ وہ اسی شام کی گاڑی میں مع دو تین سو علماء و مشائخ وغیرہ ہمراہیاں تشریف فرمائے لاہور ہوئے۔
حضرت ممدوح کی زیارت و استقبال کے لیے اس شوق اور ولولے سے لوگ گئے کہ اسٹیشن لاہور اور بادامی باغ پر شانہ سے شانہ چھلتا تھا۔ شوقِ دیدار سے لوگ دوڑتے اور ایک دوسرے پر گرتے چلے جاتے تھے۔ حضرت ممدوح اسٹیشن سے باہر ایک باغ میں چند منٹ تک استراحت کرکے محمدن ہال موچی دروازہ میں مقیم ہوئے۔ لاہور کے علمائے کرام جو آپ کی تشریف آوری کے منتظر تھے۔ آپ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ نیز اور بھی علماء و مشائخ و معززین اسلام اضلاع، پشاور، پنڈی، جہلم ، سیالکوٹ، ملتان ، ڈیرہ جات، شاہ پور، گجرات ، گوجرانوالہ، امرتسر وغیرہ مقامات سے بغرض شمولیت مجلس مناظرہ مصارف کثیرہ خرچ کرکےپہنچے۔
مرزا غلام احمد کے لاہوری پیرئوں نے مرزا کے نام خطوط ٹیلی گرام اور ضروری قاصد روانہ کیے،بلکہ بعض گرم جوش چیلے نہایت مضطرب حالت میں قادیان پہنچے اور ہر چند اپنے پیر و مرشد مرزا قادیانی کو لاہور لانے کے لیے منت سماجت کی،پائوں پڑے، مگر مرزا قادیانی کی دلی کمزوری نے ان کو اپنے پیروئوں کی درخواست منظور کرنے کی طرف مائل نہ کیا اور وہ اپنے بیت الفکر ہی میں داخل دفتر رہا۔
حقیقت میں یہ خود مرزا غلام احمد کے اپنے قول کے مطابق ایک ایسی عظمت و جلال کا کھلا کھلا نشان تھا۔ جس نے مرزا قادیانی کی جھوٹی اور بیجا شیخی کو کچل ڈالا اور آپ کے حواس کی وہ گت ہوئی کہ مقابلہ و مباحثہ لاہور تودرکنار آپ کو سوائے اپنے ’’بیت الفکر‘‘ کے تمام دنیا و ما فیہا کی خبر نہ رہی اور ’’ان کے دلوں میں رعب ڈالا ان کے کفر کی وجہ سے ‘‘کا مضمون دوبارہ دنیا کے صفحے پر معرض ظہور میں آیا۔ برخلاف اس کے حضور پر نور حضرت پیر صاحب ممدوحؒ کے دست مبارک پر خداوند نے وہ نشان ظاہر کردیا جس کا ’’ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مؤمنین کی مدد کریں گے‘‘ میں وعدہ دیا گیا‘‘۔
مولانا عبد الرحمن مونگیریؒ مزید لکھتے ہیں:’’پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ مورخہ ۲۴؍ تاریخ سے ۲۹؍ اگست ۱۹۰۰ء برابر لاہور میں مقیم رہ کر مرزا قادیانی کی آمد کے منتظر رہے اور ہر وقت صبح ۷؍ بجے سے بارہ بجے دو پہر تک ونیز ۵؍ بجے سے ۷؍ بجے شام تک مجلس عامہ میں جس میں عموماً معززین اسلام و علمائے کرام صدہا موجود ہوتے تھے۔ مرزا قادیانی کے عقائد کی تردید فرماتے رہے۔ مگر مرزا قادیانی لاہور نہ آئے۔ مؤرخہ ۲۴؍ اگست سے ۲۶؍ اگست کی شام تک انتظار کرکے جملہ سرکردہ گان اہل اسلام کی رائے سے تجویز ہوا کہ صبح مورخہ ۲۷؍ اگست ۱۹۰۰ء کو مسجد شاہی واقع لاہور میں ایک عام جلسہ منعقد کیا جائے اور اس میں جو کارروائی من اولہ الیٰ آخرہ دربارہ مباحثہ و مناظرہ مولانا المکرم حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ و دیگر علمائے عظام و صوفیائے کرام اور مرزا قادیانی کے مابین ہوئے ہیں۔ ضبط تحریر میں لاکر پڑھی اور عوام الناس کو سنائی جائے اور آئندہ مرزائی حرکات کے متعلق مناسب تدابیر سوچی جائیں، نیز جو صاحبان دور دراز مقامات سے تشریف لائے ہیں ،ان کا شکریہ بھی ادا کیا جائے۔‘‘
بوجودیکہ یہ تدبیر نہایت تنگ وقت پر سوچی گئی تھی اور رات کے آٹھ نو بجے ایک معمولی منادی کے ذریعے شہر میں اطلاع دی گئی تھی، تاہم تقریباً آٹھ دس ہزار آدمی بادشاہی مسجد میں جمع ہوگئے۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ و دیگر مشائخ کرام و علمائے عظام ساڑھے چھ بجے صبح تشریف لائے اور جلسے کی کارروائی شروع ہوئی۔
اس جلسے سے مولانا محمد علی نے خطاب کیا اور مرزا کے عقائد کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ ابو الفیض مولانا محمد حسن نے جلسے کے انعقاد کی غرض و غایت بیان کی اور مرزا نے جو مباحثے کی دعوت دی تھی۔ اس بارے میں آگا کیا۔ پیر صاحب کی تشریف آوری اور ان کے جواب کو تفصیل سے بیان کیا اور مرزا کے دلائل اور اس کے دعووں کو رد کیا۔اس جلسے میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا حافظ جماعت علی شاہ، مولوی مفتی عبد اللہ ٹونکی مولوی احمد الدین نے بھی خطاب کیا‘‘۔
بادشاہی مسجد کے مینار گواہ ہیں کہ باطل کو کبھی بھی حق کے سامنے آنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی اور اگر باطل آیا بھی تو وہ حق کے سامنے ٹھہر نہ سکا، جبکہ حق اپنی جگہ پر ڈٹا رہا۔
آج بھی ان شاء اللہ حق کا بول بالا ہوگا، حق غالب آئے گا، باطل مٹ جائے گا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثار ہمیشہ آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے برسرِ پیکار رہیں گے۔پاکستان کے مسلمانوں، خصوصاً پنجاب اور خاص طور پر لاہور کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس تاریخی تحفظ ختم نبوت کانفرنس کو کامیاب بنائیں۔
اس کانفرنس سے مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا عزیز الرحمن جالندھری،مولانا اللہ وسایا ، مولانا فضل الرحیم اشرفی ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر علمائے کرام و زعما خطاب فرمائیں گے۔
نبوت و رسالت کا ماہِ تمام
رسولِ اکرم ﷺ کی پیغمبرانہ خصوصیات میں سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت آپﷺ کا امام الانبیاء، سیّد المرسلین اور خاتم النّبییّن ہونا ہے، آپﷺ کی دعوت، آپﷺ کی شریعت، آپﷺ کا پیغام اور دینِ اسلام آفاقی اور عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ آپﷺ بنی نوع آدم اور پورے عالم انس و جنّ کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور آخری نبی بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ آپﷺ پر دینِ مُبین کی تکمیل کر دی گئی۔ پوری انسانیت آپﷺ کی امّت اور آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے ہادی و رہبر اور بشیر و نذیر بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔اس ابدی حقیقت کی وضاحت مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں بہ تمام و کمال کر دی گئی۔ ارشادِ ربّانی ہے:’’ اور ہم نے آپﷺ کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔(سُورۂ سبا؍ آیت 28)
آپﷺ کی نبوّت و رسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے:’’کہہ دیجیے، اے لوگو، میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ آیت 158)
قصرِنبوت کی آخری اینٹ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اوردیگرنبیوں کی مثال ایسے ہے کہ کسی نے ایک مکان خوب صورت اور پورا کامل بنایا، مگر(اس میں) ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی جو اس گھر میں جا کر دیکھتا تو کہتا کہ یہ مکان کس قدر خوب صورت ہے، مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو (سن لو) اس اینٹ کی جگہ میں ہوں، مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔(بخاری ومسلم )
نبی محترم ﷺکے متعدد نام
حضرت حاتم بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بلاشبہ میرے متعدد نام ہیں ۔میں محمد ( تعریف و توصیف کیا گیا )ہوں۔میں احمد (سب سے زیادہ اللہ کی حمد و ستائش کرنے والا)ہوں ۔ میں ماحی ہوںکہ اللہ تعالیٰ میرے سبب کفر مٹاتا ہے ۔میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا ۔ میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری ومسلم )
تیس دجال
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بےشک ،میری امت میں تیس دجال کذاب (جھوٹے) ہوں گے، ان میںسے ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔(مسلم،مسند احمد،ابوداؤد،ابنِ ماجہ )
فرشتوں کے سردار کا اعلان
سیدناسلمانِ فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام نے بارگاہ مصطفیٰﷺ میں عرض کی ۔ حضور کا رب فرماتا ہے بے شک، میں نے آپﷺ پر سلسلہ نبوت کو ختم کیا اور کوئی ایسا نہ بنایا جو میرے نزدیک آپ سے زیادہ عزت والا ہو ۔ آپ کا نام میں نے اپنے نام کے ساتھ ملایا کہ کہیں میرا ذکر نہ ہو، جب تک میرے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر نہ ہو ۔ میںنے دنیا اور اہلِ دنیا کو اس لئے بنایا ہے کہ تمہاری عزت اور میری بارگاہ میں تمہارجو مرتبہ ہے ان پر ظاہر کروں اور اگر آپ نہ ہوتے تومیں زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے، اسے نہ بناتا۔(مختصر تاریخِ دمشق)
شانہ آدم علیہ السلام کی تحریر
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام کے دونوں کاندھوں کے درمیان قلمِ قدرت سے لکھا تھا ،محمد رسول اللہ خاتم النبیین یعنی محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں (اور )سب سے آخری نبی ہیں ۔(مختصر تاریخِ دمشق)
لوحِ محفوظ کی خوش نما تحریر
سیدناعبداللہ بن عمرؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال قبل مخلوق کی تقدیریں لکھیں ،جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا، من جملہ ان تحریروں کے لوحِ محفوظ میں لکھا تھا:بےشک، محمدﷺ خاتم النبیین ہیں۔(صحیح مسلم )