مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
(امیر مرکزیہ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت )
اللہ نے جب سے بنی نوع آدم کو پیدا فرمایا ہے ، اسی وقت سے اس کی مادی اور روحانی ضروریات کا بھی انتظام فرمادیاہے ، اسی لیے اسے رب العالمین کہتے ہیں۔انسان کی مادی اور جسمانی ضرورت کے لیے کھانے ، پینے کی اشیاء اور ان کے حصول کے اسباب مہیا فرمائے اور اس کی روحانی ضرورت کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔اس سلسلۂ ہدایت کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کی انتہاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور آخری نبی کی صفت سے پکارا جاتا ہے ،جب ہدایت کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو ہر دور اور ہر شہر اور ہر بستی میں انبیاء اور رسول آتے رہے ، بلکہ بعض اوقات بیک وقت ایک شہر میں ایک سے زائد انبیائے کرام علیہم السلام موجود رہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والا(اللہ کا پیغام سنانے والا نبی) نہ گزرا ہو‘‘۔(سورۂ فاطر:۲۴)
ہدایت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور بڑے بڑے اولوالعزم پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے، جن میں سے بعض کا ذکر قرآن کریم میں وارد ہوا ہے، جیسے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔
آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس ہدایت کی تکمیل فرما کر اس کے آخری ہدایت ہونے کا اعلان فرمادیا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے تمہارے لیے پسند کیا اسلام کوبطورِ دین‘‘۔ (سورۃ المائدہ:۳)
اس آخری ہدایت کو اسلام سے تعبیر فرما کر اس کا بھی اعلان کردیا کہ اب قیامت تک اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، اور یہ کہ انسانی نجات کے لیے صرف یہی ایک راستہ متعین ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو اس کا وہ دین ہر گز مقبول نہ ہوگا اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔(سورۂ آل عمران:۸۵)
قرآن کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عمومیت کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے ، چناں چہ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:’’ اور اے محمدﷺ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بناکر بھیجا اور اس بات پر اللہ کی گواہی کافی ہے ‘‘۔
اور سورۂ سبا میں فرمایا:’’اور اے پیغمبر! ہم نے آپﷺ کو تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘۔(سورۂ سبا:۸۲) سورۂ احزاب میں آپﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا اعلان اس طرح فرمایا:’’ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،(یعنی نسب کے اعتبار سے) مگر ہاں وہ اللہ کے رسول اور آخر النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کی مصلحت کو خوب جانتا ہے‘‘۔(سورۂ احزاب:۴۰)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت کی گواہی گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی دی ،عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:’’ اور میں ایک ایسے رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے اوران کا نام احمد ہوگا‘‘۔ (سورۂ الصف:۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنے مبارک اقوال سے اپنی رسالت کی عمومیت اور ختم نبوت کو مختلف انداز میں امت کے سامنے واضح فرمایا ، آپ نے اپنی رسالت کی عمومیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :’’مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھے سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں: ۱۔ میری نصرت فرمائی گئی ہے رعب کے ذریعے جو کہ ایک مہینے کی مسافت سے دشمن پر پڑتا جاتا ہے ۔ ۲۔ میرے لیے زمین کو مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، لہٰذا میری امت کا کوئی شخص بھی ہو، جب نماز کا وقت آجائے تو اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے۔ ۳۔ اور میرے لیے مالِ غنیمت حلال کردیا گیا ہے جب کہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ ۴۔ اور مجھے شفاعت کبریٰ عطا کی گئی ہے ۔ ۵۔ اور مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔(صحیح البخاری، کتاب التیمم:۱؍۱۱۲، نمبر:۳۳۵)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے ، میرے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور نہ نبی‘‘۔(جامع الترمذی، أبواب الرؤیا :۲؍۵۰۰، نمبر:۲۲۳۲)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت کی تکمیل اور ختم نبوت کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے ایک ایسی حسی مثال بیان فرمائی جس کے سننے کے بعد ایک معمولی سمجھ رکھنے والے مسلمان کو بھی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا، آپ نے فرمایا:’’ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے نہایت حسین و جمیل محل تیا رکیا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، لوگ اس کے گرد چکر لگاتے اور اس (کی خوبی تعمیر) پر تعجب کرتے اور لوگ بطور تعجب کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہ لگا دی گئی کہ (محل بہمہ وجوہ کامل و مکمل ہوجاتا) فرمایا: پس میں (قصر نبوت کی) وہی (آخری) اینٹ ہوں اور خاتم النبیین ہوں کہ (میری آمد) سے انبیائے کرام کی تعداد پوری ہوگئی‘‘۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین:۱؍۲۶۷، نمبر:۳۵۳۴)
بہرحال! امتِ اسلامیہ کا یوم اوّل سے آج تک اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا اورآپ کی لائی ہوئی ہدایت ’’دینِ اسلام‘‘ آخری ہدایت ہے اور اسی پر انسانیت کی کامیابی کا مدار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب بھی کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا امت نے اسے جھوٹا قرار دیا اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ جیسے مسیلمہ کذاب او راسود عنسی وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری امت اسلامیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے عقیدے پر قائم رہنے اور اس کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔
ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد اپنی تاسیس کے روزِ اوّل سے تاحال مسلسل جاری ہے ۔ انہی کوششوں کا تسلسل لاہور میں بادشاہی مسجد میں ہونے والی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ منعقد ہورہی ہے،جس میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے علماء، مشائخ اور اکابرینِ ملت ختم نبوت کی اہمیت اور اس سلسلے میں بزرگانِ دین اور امت کی قربانیوں خصوصاً جماعت کی شبانہ روز محنت پر روشنی ڈالیں گے۔ امت محمدیہ خصوصاً مسلمانانِ پاکستان کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کریں اور اس کانفرنس کو کامیاب فرمائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں۔