• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذکر اُس پری وش کا

یوسف ثانی

 اشرف مخلوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک کو انسان کہتےہیں اور دوسری کو عورت۔ عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن پر شاعر حضرات غزل کہتے ہیں اور جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ دوسری قسم بیوی کہلاتی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی معصومیت اُس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ساری خوبیاں اُس وقت ہوا ہو جاتی ہیں، جب وہ زَن سے رَن، میرا مطلب ہے بیوی بن جاتی ہے۔

 بیوی کو بیگم بھی کہتے ہیں۔ شنید ہے کہ سنہرے دور میں یہ بے غم کہلاتی تھی، کیونکہ ان کا کام شوہروں کو ہر غم سے بے غم کرنا ہوتا تھا۔ دور اور کام تبدیل ہوتے ہی نام بھی تبدیل ہو کر بیگم رہ گیا۔

اعلٰی ثانوی جماعت کے ایک استاد نے طلباء سے پوچھا کہ بیویاں زیادہ تر کس کے کام آتی ہیں؟ ایک شریر طالبعلم نے فوراً جواب دیا "سر لطیفوں کے۔" دُنیا میں اب تک جتنے بھی لطیفے تخلیق کئے گئے ہیں، اُن میں بھاری اکثریت کا تعلق بیویوں ہی سے ہے۔ بیوی کو ہندی زبان میں استری بھی کہتے ہیں۔ 

ایک صاحب کی کپڑے پریس کرنے والی استری خراب ہو گئی تو وہ اپنے پڑوسی سکھ سے استری ادھار مانگنے پہنچ گیا جو مزاج کے ذرا تیز تھے۔ سردار جی جب دروازے پر آئے تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولے، "سردار جی وُہ ذرا آپ کی استری ۔۔۔ ۔ سردار جی نے اُسے گھورتے ہوئے باآواز بلند کہا، "کیا ہوا میری استری کو؟" سردار جی کی بلند آواز سُن کر اُن کی دھرم پتنی بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ سردار جی غصے سے اپنی بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، یہ رہی میری استری۔۔۔ پڑوسی نے جلدی سے کہا نہیں سردار جی وُہ کپڑوں والی استری۔۔۔ سردار جی چلائے "تو کیا تمہیں اس کے کپڑے نظر نہیں آ رہے؟" پڑوسی مزید گھبراہٹ میں بولا، سردار جی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ وہ وہ والی استری جو کرنٹ مارتی ہے۔ سردار جی نےایک زور دار قہقہہ بلند کیا اور بولے، پُتر ذرا ہتھ لا کے تے ویکھ۔تعلیم بالغاں کی ایک کلاس میں ایک استاد نے ایک شادی شدہ شاگرد سے پوچھا، بیوی اور ٹی وی میں کیا فرق ہے؟

شاگرد نے جواب دیا، "ہیں تو یہ دونوں بڑے مزے کی چیز لیکن ٹی وی میں ایک اضافی خوبی بھی ہے، وہ یہ کہ آپ جب چاہیں، اُس کی بولتی (ہوئی آواز) بند بھی کر سکتے ہیں۔"

دُنیا بھر کے مَردوں (مُردوں نہیں) کی معلومات بیویوں کے بارے میں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے بارے میں کم سے کم اور دوسروں کی بیویوں کے بارے میں بیش یعنی زیادہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ بیویاں غیر شوہروں کو مرغوب اور شوہروں کو غیر مرغوب ہوتی ہیں۔ بیویوں کے بارے میں ایک محقق نے اپنی تحقیق شائع کرنے سے انکار کر دیا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا، میں اپنی تحقیق اُس وقت شائع کرواؤں گا ،جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہو گا اور کتاب شائع ہوتے ہی میں اپنا دوسرا پاؤں بھی قبر میں ڈال لوں گا۔ 

بیویوں کے بارے میں زیادہ تر تفصیلات کنواروں نے لکھی ہیں،کیونکہ شادی کے بعد وہ بیوی کو پیارے ہو چُکے ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں منہ کھولنے کے قابل نہیں رہتے۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے بیویوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے ، وہ سب کے سب ان کے کنوار پنے (گنوار پنے نہیں) کی تحریریں ہیں۔بیوی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل اور بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل تر ہے۔

 بیویاں غریبوں کے لئے باعثِ رحمت اور خوشحال لوگوں کے لئے باعثِ زحمت ہوتی ہیں۔ جب ایک غریب جوان باورچی، دھوبی، چوکیدار، ملازم وغیرہ کی تنخواہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تو شادی کر کے ان سب کی جگہ چند ہزار روپے تاحیات تنخواہ پر ایک بیوی کو گھر میں لے آتا ہے۔ اگر کسی شوہر یا بیوی کے جذبات تاحیات تنخواہ کی اصطلاح سے مجروع ہوتے ہیں تو وہ اس کی جگہ’ حق مہر‘ پڑھ لے۔

اُردو کا ایک محاورہ ہے اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی، گمان غالب ہے کہ اس محاورے کا موجد کنوارہ ہی مرا ہو گا، اگر وہ شوہر بن چُکا ہوتا تو وہ اس محاورے کا اَپ ڈیٹ کئے بغیر نہیں مرتا۔ ایسا ہی انگریزی کا ایک مقولہ ہے No Life Without Wife یہاں Without سے پہلے With Or بھی ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ اپنے اور بیوی دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ جس نگاہ کو کوئی عورت اچھی لگ رہی ہوتی ہے، بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ اُس کی بیوی نہیں ہوتی، جبکہ اُسی محفل میں وہ عورت اپنے شوہر کو ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی، کیونکہ اُس کے شوہر کو دیگر خواتین اچھی لگ رہی ہوتی ہیں۔

 بیک وقت اچھی لگنے اور اچھی نہ لگنے کا اعجاز صرف ایک بیوی ہی کو حاصل ہے۔ دُنیا کی کوئی اور ہستی یا تو اچھی ہوتی ہے یا بُری (دونوں ہر گز نہیں) جیسے دُنیا کی سب سے اچھی ہستی ماں ہوتی ہے ۔ آپ کی ماں اگرچہ آپ کے باپ کی بیوی ہی ہوتی ہے لیکن جب تک آپ اپنی ماں کی عظمت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں وہ بیچاری اُس وقت تک صرف اور صرف ماں بن چُکی ہوتی ہے۔ پھر ماں کی عظمت کی ایک وجہ اُس کی لازوال مامتا بھی ہے۔ بیوی کے پاس لازوال مامتا نہیں ہوتی اور جو کُچھ ہوتا ہے، وہ سب زوال پذیر ہوتا ہے۔میرا ایک دوست "ج" اپنی اہلیہ کو نااہلیہ کہہ کر پکارتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اہلیہ تو تُم اُس وقت کہلاتیں جب میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا۔ 

اور اگر میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا تو کم از کم تُم میری اہلیہ نہ ہوتیں۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ اگر آپ کے فادر غریب ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، یہ سراسر آپ کی قسمت کا قصور ہے لیکن اگر آپ کے فادر ان لاء بھی غریب ہیں تو یہ سراسر آپ کا قصور ہے،جس کی سزا آپ کی اہلیہ، میرا مطلب ہے کہ نااہلیہ کو ضرور ملنی چاہیے، اگرچہ اُسے ایک سزا پہلے ہی ملی ہوئی ہے لیکن کم از کم آپ اُس سزا کا تصور نہیں کر سکتے،بھلا کوئی اپنا تصور خود کیسے کر سکتا ہے؟

دُنیا کا بیشتر مزاحیہ ادب بیوی کے گرد، اور رومانوی ادب غیر بیوی کے گرد گھومتا ہے،حتیٰ کہ مزاحیہ شاعری بھی بیوی ہی پر کہی جاتی ہے، جبکہ غیر بیوی پر شاعر جو کچھ کہتا ہے، اُسے غزل کہتے ہیں۔

میری بیوی قبر میں لیٹی ہے کس ہنگام سے

میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے

​اپنی زندہ بیوی پر یہ شعر سید ضمیر جعفری مرحوم نے کہا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فوجی میجر بھی تھے۔ میں بھی بیویات پر یہ تحریر اُس وقت لکھ رہا ہوں جبکہ میں اپنی ذاتی بیوی سے سیکڑوں میل دُور ہوں۔ اوور دُور دُور تک اُس کے قریب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ شاید یہ اُس سے دُوری کا فیض ہے، ورنہ ،من آنم کہ من دانم۔ مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ع

ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات​

زوجہ سے لڑنے کے فوائد

آج تک آپ نے بیوی سے جھگڑے کے نقصانات پڑھے ہوںگے آج آپ کو فوائد سے متعارف کراتے ہیں۔

جب تک بیوی سے جھگڑا رہتا ہے اس دوران بیوی پیسے نہیں مانگتی ۔

* جھگڑے کے دوران بات چیت بند ہوتی ہے، جس سے روز روز کی کچ کچ کم ہوتی ہے اور شوہر بلا وجہ کشیدگی سے بچا رہتا ہے ۔

* جو کام آپ کر سکتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ بیوی کر دیتی ہے، لڑائی کے بعد وہ چھوٹے موٹے کامثلاََخود اٹھ کر پانی پینا، اپنے کپڑے خود نکالنا، چائے بنانا وغیرہ خود کر کے شوہر کام کرنے کا عادی ہو جاتا ہے ۔

*جھگڑے کے دوران کام کے وقت آپ کو بیوی کی فالتو کالز نہیں آتیں، جس سے آپ اپنے کام پر بھر پورتوجہ مرکوز کر سکتے ہیں ۔

*سب سے زیادہ شوہروں کو کام کے بعد جلدی گھر آنے کے لئے گھر سے بار بار فون آتے ہیں مگر ایک بار جھگڑا ہونے کے بعد آپ کچھ دن تک اس فکر سے دور رہ سکتے ہیں ۔

* یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جو چیز نہیں ہوتی اس کی قیمت کا احساس تب ہی ہوتا ہے، جھگڑے کے دوران

بیوی کوشوہر کی قدر کا احساس ہوتا ہے ۔

* آپس میں جھگڑے سے محبت بڑھتی ہے، کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے ایک بار بارش ہو جائے تو موسم سہانا ہو جاتا ہے ۔

(فریاد ازیر)

تازہ ترین