• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی کوریا مذاکرات پر راضی، دنیا حیران

ظفر محی الدین

عالمی تزویراتی محور کے ساتھ بیش تر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، مثلاً اچانک شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کو مذاکرات کی دعوت جس پر ایک زمانہ حیرت زدہ ہے۔ امریکاکے نائب صدرما ئیک پنس نے کہا ہےکہ شمالی کوریا کی طرف سے صدر ٹرمپ کو مذاکرات کی دعوت دینے کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی شمالی کوریا کو تنہا کرنے کی حکمت عملی کام یاب رہی ہے،امریکانے صفر رعائتیں دی ہیں اور اس وقت یہ دبائو واضح ہے جو اس وقت تک رہے گا جب تک شما لی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کا صفایا نہیں ہوجاتا۔

کہا جاتا ہے کہ اس کارنامے کا سہرا جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان کے سر ہے۔ان کے بارے میں رائے دی جاتی ہے کہ وہ سیاسی طورپربہت ز یرک اور تجر بے کار ہیں یا پھر ایسے رہنما ہیں جو اپنے ملک کو دائو پر لگا سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ وہ بہت شاطر کھلاڑی ہیں یا پھر ایک پیادہ ہیں۔بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے ایک سال سے زاید عرصے سے جاری تندوتیزبیانات اور جوہری تجربے ، پھر اچانک مذاکرات کی دعوت اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات روکنے کے عزم کا اظہار، ممکن ہے کہ کوئی زبرد ست سفارتی چال ثابت ہو۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ جنوبی کوریا نے دعوت نامہ اپنے سینئر سفارت کاروں کے ذریعے وائٹ ہائوس بھجوایا ہے، اس میں جو کچھ درج ہے کیا وہ واقعی شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کی طرف سے ہے؟ اوراگر یہ حقیقت ہے تویہ دعوت نامہ شمالی کوریا نے بہ راہ راست امریکا کو کیوں نہیں دیا، وغیرہ۔جو بھی سہی، مگر وائٹ ہائوس میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے مذاکرات کی دعوت قبول کرنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ ایکس ٹیلرسن کواعتماد میں نہیں لیا۔ یہ شکوہ صدر ٹرمپ کے مشیروں کو بھی ہے۔ تاہم وائٹ ہائوس کی انتظامیہ اس وقت سر جو ڑ کر بیٹھی ہوئی ہے کہ اس حیرت انگیز واقعے کا کس طرح تجزیہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات اٹھائےجارہے ہیں۔بعض سفارت کاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات کی جگہ کا تعین غور طلب اور اہم مسئلہ ہے۔ جنوبی کوریا کے مبصرین کا خیال ہے کہ جنوبی کوریا میں ’’پیس ہائوس بلڈنگ‘‘ کانفرنس کے لیے موزوں جگہ ہے جوشمالی اور جنوبی کوریا کا غیرفوجی علاقہ ہے اوراس جگہ مذ ا کرات کا امکان زیادہ ہے۔

 اطلاعات کے مطابق اعلیٰ امریکی عہدے داران تین باتوں پر غور کررہے ہیں، جگہ کون سی ہوگی، وفد میں کون کون شریک ہوگا اور مذاکرات کا ایجنڈا کس طرح ترتیب دیا جائے گا۔ لیکن یہ مذاکرات تب ہی ممکن ہوں گےجب شمالی کوریا بہ راہ راست و ا شنگٹن سے رابطہ کرے۔

شمالی کوریا مذاکرات پر راضی، دنیا حیران

مذاکرات کے ضمن میں امریکی ذرایع ابلاغ کی یہ ر ا ئے سامنے آئی ہے کہ شمالی کوریا پہلے اقتصادی پابندی ختم یا نرم کرنے پر زور دے گا کیوں کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے شدید دبائو کی وجہ ہی سے میز پر آنے پر آمادہ ہوا ہے۔مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا نے بہت غور و فکر کے بعد مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے تاکہ وہ اس سے ہمہ جہت فائدے حاصل کرسکے۔ مثلاً شمالی کوریا کے صدر غالباً یہ چاہتے ہیں کہ امریکاسے بہ راہ راست مذاکرات کے ذریعے اقتصادی پابندیاں نرم یا کم کروالی جا ئیں ، ا مد ا د حاصل کرنے اور امریکا کو جنوبی کوریا سے دُور کرنے کی کوشش کی جائے اور جنوبی کوریا سے امریکی فوجی اڈے ختم کرنے پر اصرار کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیاروں اور جوہری پروگرام کو خزانے کی تلوار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ 

اس کے جواب میںصدر ٹرمپ کا رویہ کیا ہوگا،امریکی سفارت کار میز پر کس طرح ردعمل دکھاتے ہیں اور لین دین میں کیا طے کرسکتے ہیں؟یہ سب کچھ ابھی محض سوا لا ت،مفروضات اور تصورات ہیں۔ دوسری طرف حقائق کافی تلخ ہیں۔ ممکن ہے کہ پہلے رائونڈ میں صدر ٹرمپ اٹھ کر چلے جائیں کیوں کہ سابق امریکی صدور، بش اور کلنٹن نے شمالی کوریا کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کرکےجو تجربہ حاصل کیا تھا اس کا وہ کئی جگہ ذکر کرچکے ہیں ۔ 

اس لیے کہا جاتا ہےکہ سابق صدر باراک اوباما بھی شمالی کوریا سے مذاکرات کرنے کے بجائے بیانات ہی پر اکتفا کرتے رہے۔ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے بارے میں بیش ترسفارت کاروں کی رائے یہ ہے کہ وہ بہت ذہین ہیں۔ انہیں سیاست کرنے اور سیاسی معاملات سے نمٹنے کا تجربہ اور فکر ان کے دادا، پردادا اور والد کی طرف سے ورثے میں ملا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنمائوں سے مذاکرات کی میز پر جیتنا خاصا مشکل کام ہے اور ان کے مذاکرات کا انداز اور اطوار ہی مقابل کو نروس کردیتے ہیں۔

 ایسے میں صدر ٹرمپ کے بعض مشیروں کو اندیشہ ہے کہ صدر کم جونگ ان صدر ٹر مپ کے ساتھ نفسیاتی اور اعصابی حربے استعمال کرسکتے ہیں تاکہ ٹرمپ جوش میں آجائیں۔مگرکہا جاتاہےکہ صدر ٹرمپ بھی اس میدان کے پرانے کھلاڑی اور کاروباری شخص ہیں اور وہ بھی بہت سے پینترے بدل سکتے ہیں۔

دونوں صدر کے درمیان مئی کے مہینے میںمذاکرات ہونےکا امکان ہے۔ شمالی کوریا کا جوہری ہتھیاروں سے ہاتھ اٹھانے کا عندیہ دینا درست بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ چین ایشیائی ممالک پر اپنا اثر بڑھانا چاہتا ہے۔ چین کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ امریکاکو مشرقی بحرالکاہل تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔

 اس لیے امکان ہے کہ شاید شما لی کوریا اور امریکامیں معاہدہ کراکے امریکی فوجی اڈے ختم کرائے جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس پورے خطے میں صرف جاپان ایسا ملک نظر آتا ہے جس کے ساتھ امریکا کے بیش تر دفاعی معاہدے اور فوجی اڈے قائم رہ سکتے ہیں۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے جاپان کے وزیراعظم شنزو آبےسے تین منٹ تک بات چیت کی ہے اور شمالی کوریا سے مذاکرات کے ایجنڈے پر بات چیت کرنے کے لیے آئندہ ماہ امریکا آنے کی دعوت دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔یہ حقیقت ہے۔ اگر دنیا کی معلوم تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس میں ہونی اور ان ہونی واقعات کی بھرمار ملتی ہے۔ 

اب بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ ایک طرف چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چنگ شوان نے بیان میں کہا کہ چین کو اس خبر پر خوشی ہے کہ شمالی کوریا نے امریکا کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اورامید ہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

 ادہر وائٹ ہاوس کے ترجمان نے ایک انٹرویو میں مذ ا کر ا ت کی پیش کش کو مثبت خبر قرار دیا، مگر یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ختم کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔

اس حوالے سے بیجنگ یونیورسٹی کے سیاسیات کے ایک استاد نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ شمالی کوریا کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ مشرق بعید اور بحرالکاہل کے خطے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مگر چین کے بڑھتے ہوئے اثراور خطے میں امریکا کی موجودگی کی صورت میں اس کے لیے ایسا کرنا مشکل تھا۔ 

گزشتہ برس چین نے سلامتی کونسل میں امریکا کی پیش کردہ اس قرارداد پر دست خط کردیے تھے جس میں شمالی کوریا پر مزید سخت پابندیاں عاید کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس پر شمالی کوریا نے بہت برا منایا اور دبے لہجے میں چین سے احتجاج بھی کیا تھا۔حالاں کہ چین نے حتی الامکان شمالی کوریا کی مدد کی اور عالمی فورم پر اسے مزید پابندیوں سے بچاتا رہا۔ 

گزشتہ ہفتے امریکا نے سلامتی کونسل میں شمالی کوریا پرعالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر تیس بحری جہازوں، ستائیس جہازراں کمپنیز اور ایک تائیوانی تاجر کو بلیک لسٹ کرنے کی قرارداد پیش کی تھی جسے چین نے مداخلت کرکے التوا میں ڈلوادیا ہے۔ امریکا کا اعتراض یہ تھا کہ شمالی کوریا کو کوئلہ اور تیل فروخت کیا جارہا ہے۔

چین کی بعض اہم سیاسی شخصیات کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ایک طرف وہ امریکاکے دبائو میںہے تو دوسری طرف اس کا سیاسی اوراقتصادی پھیلائو جاری ہے۔ ان حا لات میں اس کی خطے میں زیادہ اہمیت نہیں ہے چناں چہ عین ممکن ہے کہ شمالی کوریا اس خطے میں اپنا کردار بڑ ھا نے کے لیے امریکا سے خفیہ معاہدہ کرلے۔ اس سے یقیناً شمالی کوریا کو بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ 

چین کے بعض حلقے اس ضمن میںرائے زنی کررہے ہیں، مگر ا کثر یت کا خیال ہے کہ اگر شمالی کوریا اپنے مفادات کی خاطر امریکا سے معاہدہ کر بھی لیتا ہے تو اس سے چین کو کوئی خطرہ یا نقصان نہیں، کیوں کہ چین کی عسکری اوراقتصادی طا قت کے سامنے شمالی کوریا کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

دوسری طرف صدر ٹرمپ نے حال ہی میں اسٹیل پر پچیس اور ایلومینیم پر دس فی صد محصول عاید کرکے بہت سے ممالک کو پریشان کردیا ہے۔ چین اور آسڑیلیا نے اس بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کردیا ہے اور ڈبلیو ٹی او نے امریکاپر تنقید کرتے ہوئے محصول واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر صدر ٹرمپ اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔ 

تاہم آسڑیلیا کو کچھ رعایت دینے کا وعدہ کیاگیا ہے۔ اس طرح صدر ٹرمپ نے ٹریڈوار کا دروازہ بھی کھول دیا ہے جس پر چین زیادہ ناراضی کا اظہار کررہا ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا، یورپی یونین، برازیل اور بھارت نے بھی امریکی محصول کی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔

ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل نے امریکا کی ’’تحفظاتی تجارت‘‘ پر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اس طرح کے اقدام کرکے عالمی تجارت کا توازن متاثر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی عا لمی ا قتصادیات کے خلاف رائے اپنی جگہ ،مگر آزاد تجارت اور معیشت کا اولین رہنما امریکا ہی رہا ہے جس کے اصرار پر ڈبلیو ٹی او اور گلوبل اکنامی کے سلسلے کو فروغ ملا۔ 

انہوں خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اس نوعیت کے خیالات اور تحفظاتی تجارت کا سلسلہ دراز ہوا تو دنیا1930کے عشرے جیسے بحران سے دوچار ہوسکتی ہے۔مگر صدر ٹرمپ اور ان کی ا نتظامیہ اس وقت شمالی کوریا کی مذاکرات کی دعوت پر غور و خوض میں مصروف ہے۔

تازہ ترین