• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اور اومان کی بندر گاہوں میں بھارت کی بڑھتی دل چسپی

ایران اور اومان کی بندر گاہوں میں بھارت کی بڑھتی دل چسپی

محمد مہدی

 ہمارے خطے میں بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ ان عزائم میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے بحیرہ ہند، بحیرہ عرب ، خلیجِ فارس اور خلیجِ عدن میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار اور عمانی بندگاہ دقم اس کے مرکزی اہداف ہے۔ان دونوں بند ر گا ہوں پر قابو پانے کے بعد اس کے لیے بہت ممکن ہو گا کہ وہ گوادر اور گوادر کے ذریعے بڑھتے ہوئے پاکستانی اور چینی اثر و نفوذ کا مقابلہ کر سکے۔وہ ان دونوں ممالک کی سر گرمیوں پرگہری نظررکھے ہوئے ہے۔

دقم کے بارے میں بھارت اورسلطنت اومان کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دست خط ہونا اس ضمن میں تازہ ترین بھارتی سرگرمی بلکہ کام یابی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ اس سے قبل اومان اور بھارت کے درمیان د فا عی نو عیت کے تعلقات نہیں تھے۔

بھارت چین سے مسابقت اور ان عرب ریاستوں میں کسی ممکنہ چینی اثر ونفوذ کو روکنے کی غرض سے ان ر یا ستو ں سےکچھ عرصے سے تیزی سے اپنے تعلقات بڑھارہا ہے ۔ متحدہ عرب امارات میں بھارتی اثر کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اومان کو بھارت نے خاص طور پر اس لئے ہدف بنایا ہوا ہے کہ وہاں امریکا ، برطانیہ اور چین بھی اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے یا قائم کرنے کی غرض سے مصر و ف عمل ہیں۔اومان میں ایک حکمت عملی کے تحت بھارتی کمیونٹی کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔

ایران اور اومان کی بندر گاہوں میں بھارت کی بڑھتی دل چسپی

یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اومان مغربی ایشیا میں بھارت کا سب سے پرانا دفاعی شراکت دار ہے اور دفاع کے مختلف شعبوں میں وہ بھارت سے تعاون کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ بحری اور فضائی مشقیں بار بار ہو چکی ہیں۔ اومان نے بھارتی بحریہ کو دقم کی بندرگاہ کے راستے اس امر کی اجازت دی ہے کہ اس کے بحری جہاز وہاںلنگر انداز ہو سکتے ہیں اور وہاں سے سمندرکی حفاظت کے نام پر خلیج عدن میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔

بھارت دقم کی بندرگاہ پر اپنا حتمی حق قائم کرنے کے ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی صرف ایم او یوپر د ست خط ہوئے ہیں۔ لیکن اگر بھارت ان معاملات کو حتمی حد تک لے گیا تو وہ بین الاقوامی تجارت کی مشرقی و مغربی سمندری راہ داری پر نظر رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس طرح وہ یہاں سے بالخصوص چین اور پاکستان کی بحری سر گرمیوں پر نظر رکھ سکے گا۔یوں بھارت دفاعی نوعیت کے مفادات حاصل کرنے کے ساتھ مغربی ایشیامیں کا ر و با ر ی معاملات بھی آگےبڑھانے میں کام یاب ہو جائے گا، کیوں کہ دقم سے تجارتی مقاصد کے لیے ریلوے نیٹ ور ک کو منسلک کیا جارہا ہے جو اسے خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے جوڑ دے گا۔یہ مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے بھارت نے نیشنل ڈیفنس کالج آف اومان اور انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز سے معاہدے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اومان کی دقم اور ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ کے درمیان روابط کو بھی اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا رہا ہے۔ایران اور اومان کے تعلقات بہت بہتر ہیں اور اگر بھارت اپنی کوشش میں کام یاب ہو گیا تووہ دقم اور چاہ بہار میں موجود رہ کر چین سے مسابقت کی حالت میں آ جائے گا۔

چاہ بہار ایران کے صوبے سیستان میں واقع ہے اور یہ ایران کی قدیم تاریخ کے زمانے سے تجارتی بندرگاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ 1973 میں اسے جدید طرز پر تعمیر کرنے کاباقاعدہ منصوبہ بناکر کام شروع کیا گیا۔ لیکن مختلف وجوہات(جن میں انقلاب کے بعدکے ا قتصا دی حالات اہم ترین عنصر ہیں) کی بناء پر ایران تاحال اس کی مکمل تعمیر نہیں کر سکا ہے۔ یہ بحیرہ ہند تک رسائی رکھنے والی واحد ایرانی بندرگاہ ہے۔اس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ امریکی ریاست فلوریڈا کی بندرگاہ میامی کی مانند طول پر واقع ہے اور اس کے موسمی حالات بھی بالکل ویسے ہی ہیں۔ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز اس کی تجارتی شہ رگیں ہیں۔ عراق ، ایران جنگ کے دوران ایران نے چاہ بہار سے زاہدان ، کرمان ریلوے ٹریک کا بہت بڑا منصوبہ مکمل کرلیاتھا۔ بھارت کے لیےاس بند ر گاہ تک رسائی کا مطلب یہ ہے کہ وہ افغانستان ، وسطی ایشیا ، روس اور اس سے آگے تک تجارتی راستہ بنالے گا۔ ایران چاہ بہارکی بندرگاہ اس لیے تعمیر کر رہا ہے کہ یہ کیسپین ریجن کے ممالک کے لیے عرب کی بندرگاہوں تک پہنچنے کا مختصر راستہ ہے۔ یہی فائدہ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر سے پاکستان کو بھی حاصل ہو گا۔اس وقت پاکستان اور ایران میں مسابقت وسطی ایشیائی خِطّے میں پہنچنے کے لیے ہے۔ لیکن بھارت صرف تجارتی مفاد کے لیےچاہ بہا ر تک نہیں پہنچنا چاہتا بلکہ اگر اس کی بحریہ بھی وہاں تک پہنچ گئی تو ایسی صورت میں اس کے لیے یہ باآسانی ممکن ہو گا کہ وہ چین اور پاکستان کی بحیرہ ہند اور خلیج میں بحری سر گر میوں پر نظر رکھ سکے۔

بھارت افغانستان اور ایران نے 2003میں ایک معاہدہ کیا تھا ۔ اس سہ فریقی معاہدے کی رو سے چاہ بہار کو افغانستان کے سرحدی شہر دیلارام سے ملانا تھا۔ بھارت افغانستان میں دیلارام سے زرتاج کو ،جو افغانستان کے صوبے نمروز کا دارالحکومت ہے،ملانے کی غرض سے ہائی وے 2009 ہی میں تعمیر کر چکا ہے۔ اس طرح اس کا فغانستان کے راستے وسطی ایشیاتک رسائی کا منصوبہ کم و بیش مکمل ہوا چاہتا ہے۔ لیکن چاہ بہار سے 72 کلو میٹر دور گوادر کے منصوبے کی تیزی سے تعمیر بھارت کے لیے پر یشانی کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ گوادر آبنائے ہر مز کے پاس ہے اوروہ چین کو بحیرہ ہند میں آنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح چین کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ امریکا اوربھارت کی خلیجِ فارس اور بحیرہ عرب میں سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔دوسری جانب اس بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ دنیا کی توانائی کی تجارت پر نظر رکھ سکے۔ بھارت کی بحریہ کے سابق سر براہ سریش مہتہ نے کہا تھا کہ دنیا کی تو ا نا ئی کی تجارت کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستان گوادر کو استعمال کر سکتا ہے ۔گوادر میں چین کی دل چسپی کا ایک سبب یہ بھی ہے اس وقت اسے خلیج سے تیل کے ٹینکر 6000 ناٹیکل میل اور افریقا سے 10000 ناٹیکل میل سے منگوانے پڑتے ہیں لیکن گوادر کی بندرگاہ کی وجہ سے یہ خلیج سےیہ فاصلہ 680 ناٹیکل میل اور افریقا (انگولا) سے 3000 ناٹیکل میل رہ جائے گا۔ اس مقصد سے چین گوادر سے کاشغر تک 1500 کلو میٹرز طویل پائپ لائن بچھارہاہےجو قر ا قرم ہائی وے کے ساتھ موجود ہو گی۔ چین کی خواہش ہے کہ خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں عسکری حوالے سے اور تجا ر تی فوائد کی غرض سے جلد از جلد گوادر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لے۔اس کے مقابلے میں بھارت چاہ بہار اور دقم کو استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ ابھی یہ معاملہ نسبتاً ا بتد ائی مراحل میں ہے، اگر پاکستان بروقت متحرک ہوجائے تو اس کے بد اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی سفیراومان میں عرصہ دراز سے اپنی اسناد سفارت تک پیش نہیں کر سکےہیں۔

تازہ ترین