• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب میں تنقید نگاری کا کردار

سلمان صدیقی

ادب میں لفظ تنقید اپنے عام فہم مطلب ’’نکتہ چینی‘‘ کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ یہاں اس لفظ سے مراد کسی تخلیقی پیش کش کے اسرار و رموز، خوبیوں، خامیوں اوراس کے بین السطور خیالات کی تفہیم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ادبی معیار کا تعین کرنا بھی شامل ہیں۔ تنقید لکھنا بجائے خود ایک تخلیقی وصف ہے کہ نہیں اس معاملے پر اختلافی اور اثباتی دونوں آراء ہوسکتی ہیں، مگر اس رائے سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اعلیٰ درجے کی تنقید، ادب کی تفہیم و ترویج اور ارتقا کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف یہ وصف انتہائی دیانت داری اور غیر جانبداری کی صفت کے بغیر بھی لایعنی ہے۔

 ان اوصاف کے ساتھ اس منصب کی پاسداری کے لیے ادب پروری کے سچے جذبے کی بھی ضرورت ہے۔ ادب پروری کی پہلی سطح اسے پڑھنا، دوسری سطح زندگی کے مطالعے، مشاہدے اور تجربات سے متاثر ہو کر کچھ تخلیق کرنا اور تیسری اور اعلیٰ ترین سطح تخلیقات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی پیش کردہ تخلیقات پر تحقیق کرنا، ان کی تہہ داریوں کو کھولنا، ان کے پوشیدہ محاسن کو نمایاں کر کے سب کے سامنے پیش کرنا اور اس طرح ان کے ابلاغ میں معاونت کرنا شامل ہیں۔ 

ادب پروری کی اس اعلیٰ ترین سطح کے حامل‘ادب کی آفاقی اہمیت کا ادراک رکھنے والے ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کردار کے لیے بے لوث کمٹمنٹ درکار ہے۔ 

دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب ایسی کمٹمنٹ کے حامل تخلیقی تنقید نگاروں کے بغیر نہ تو اپنے آپ کو موثر طور پر فروغ دے سکا، نہ اپنے کمال کو بین الاقوامی اہمیت کا حامل بناسکا۔ غالباً یہی بنیادی کمی ہے کہ اردو ادب اپنے سیکڑوں سال کے ادبی ورثے کے باوجود عالمی ادبی منظر نامے میں آج بھی ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں پوری طرح کام یاب نہیں ہے۔

ادب میں تنقید کے کردار پر بات کرتے ہوئے اس کی تاریخ کا مختصر ذکر کرنابھی ضروری ہے۔ ادب کی تاریخ کا تنقیدی ڈھانچہ بنیادی طور پر فلسفے کی آمیزش سے تشکیل پانے والے عالمی افکار اور نظریات سے عبارت ہے۔ یہ افکار انسانی شعور کی ارتقاء کے ساتھ تبدیل ہو کر مختلف نام اور شکلیں اختیار کرتے اور ادب کی تفہیم پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

 روشن خیالی، وجودیت، فردیت، تشکیل، ردِتشکیل، ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، مابعد جدیدیت وغیرہ۔ یہ تمام افکار و نظریات عالمی سطح پر متعارف ہوئے، موضوع بحث رہے، ان کے فوائد ونقصانات متعین کرنے کی کوشش کی گئی اور ان سے بہت سے ذیلی نظریات بھی قائم ہوئے۔ ان علمی اور فکری کاوشوں کے پسِ پشت جو ذہین و فہیم شخصیات تھیں، اُن کی قوموں نے ان کی اُن پیشکشوں کے ذریعے اپنی قوموں کے تہذیبی سماجی، ثقافتی اور ادبی ڈھانچے کے لیے جو توانائی حاصل کی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، علم کی لامحدودیت دن بہ دن وسیع ہو رہی ہے۔ دنیا کے دوسرے تمام علوم کی طرح تنقید کے عالمی شعور کابھی ادراک رکھنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ 

دنیا سمٹ کر کمپیوٹر کی اسکرین پر آگئی ہے۔ اس لئے اس کی ہر تہذیب، ہر ثقافت ہمارے لیے متعلقہ ہے۔ اس حوالے سے دنیا میں متعارف ہونے والا کوئی بھی تنقیدی تصور ہمارے لیے غیراہم نہیں ہے، اس ضمن میں کسی ترقی یافتہ زبان کے طاقتور محرکات کی نشاندہی کرنا اور اس کے مفید تنقیدی نظریات سے اپنی زبان کے لیے تازہ انسانی اور فکری اوصاف وضع کرنا، ادب کے نقادوں کی ذمے داری میں شامل ہے۔

ادب کا ارتقاء صرف تخلیقی سطح پر نثری یا شاعرانہ تحقیقات پیش کردینے سے ممکن نہیں ہے، بلکہ جس طرح کسی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار عالمی سطح پر سائنس، تجارت اور صنعت وغیرہ میں وقوع پذیر ہونے والی تازہ اصلاحات، تشکیلات اور ایجادات سے توانائی حاصل کرنے میں مضمر ہے، اسی طرح کسی زبان اور اس کے ادب کی تعمیر و ترقی کی رفتار بھی عالمی ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، اُن کے فکری محرکات اور مباحث کے مثبت اثرات کی آگاہی سے بڑھائی جا سکتی ہے۔

 زندہ زبانیں اپنی ثقافتی اور تہذیبی روایتوں سے تشکیل پانے والے نظریات کے ساتھ ہم عصر ترقی یافتہ زبانوں میں مروج ادبی نظریات کے مثبت اثرات کو بھی اسی طرح اپنے اندر جذب کرتی ہیں، جس طرح وہ مختلف زبانوں کے نامانوس الفاظ کو اس خوبی سے اپنے ہاں رائج کرتی ہیں کہ وہ اسی زبان کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ ارتقاء کے لیے ہمیں علوم کے ساتھ ساتھ فنون میں بھی تجربات کرنے ہوں گے۔ ادب میں عموماً اور اس کے تنقیدی ڈھانچے میں خصوصاً تمام علوم ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح منسلک ہیں۔ ادب کی زندہ تنقید اسے رہنمائی فراہم کرتی ہے اور ادب تمام علوم کا سرخیل ہونے کے حوالے سے معاشرے اور سماج کے عصری تقاضوں کے مطابق ان کا لائحہ عمل متعین کرتاہے۔ 

عمل کے لیے لائحہ عمل ضروری ہے اور پریکٹیکل سے پہلے تھیوری کا علم ناگزیر ہے۔ کسی مستحکم تھیوری کے حصول کے لئے بہت سی تجرباتی تھیوریز کا منظر عام پر آنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اس ضمن میں نہ صرف پیش قدمی کی ضرورت ہے، بلکہ ہمیں اردو ادب کے پلیٹ فارم سے بین الاقوامی تنقیدی رویوں اور رجحانات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے تنقید کے منجمد پیمانے توڑ کر اپنی تازہ کاری اور نوپسندی کاثبوت دیتے ہوئے، اس شعبے میں سنجیدہ نوعیت کے ایسے نئے سوالات بھی اٹھانے ہوں گے، جو عالمی تنقیدی رویوں کے پس منظر میں تاریخی حقائق اور مستقبل میں ادب کے تنقیدی ڈھانچے کے لئے فکری خصائص سمیٹے ہوئے ہوں۔

واضح رہے کہ معاشرہ عالمی سطح پر مادیت کے چنگل میں ہے۔ اقتصادی معاملات تہذیبی، اخلاقی اور نظریاتی اقدار کو نگل رہے ہیں۔ اس حیوانی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ادب ہی واحد ہتھیار ہے، جو اپنی پشت پر موجود طاقت ور تنقیدی رویوں کے ساتھ انسانی اور اخلاقی اقدار کا پرچم بلند رکھ سکتاہے۔ 

عالمی صداقتوں اور آفاقی سچائیوں کو روشن رکھنے کے لئے تنقید کے نئے پیمانے وضع کر کے ادب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اس مادی عفریت کے مقابل صف آرا کرنا ناگزیر ہے۔ ادب کے تازہ تنقیدی رویوں سے آگاہی اور عصری مسائل کے تحت ان کی فکری تنظیمِ نو اس سلسلے میں پہلا قدم ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی تنقیدی رویوں سے آگاہی فراہم کرنے والی رئوف نیازی کی کتاب ’’مابعدِجدیدیت‘‘ کی پیشکش اس جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

تازہ ترین