• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ چھ سالہ مدت کے لئے سینیٹ کے نصف اراکین کے انتخابات ہوں یا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات، ملک میں ہر طرف سے انہونی کے ہونی کر دئیے جانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے تذکرے ہورہے ہیں۔ عوام کے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی میں بکنے والوں میں سے کون کتنے میں بکا اس پر انتہائی باخبر شخص بھی محض قیاس آرائیاں ہی کرسکتا ہے کیونکہ نہ تو بکنے والا بتائے گا کہ اس نے اپنا ووٹ کتنے میں بیچا اور رقم کس ذریعے سے وصول کی نہ ہی خریدار بتائے گا کہ اس طرح ملنے والا ہر ووٹ اسے کتنے میں پڑا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے حاضر جواب اور بذلہ سنج سیکٹری اطلاعات، سینیٹر (ر) حافظ حسین احمد کا یہ تبصرہ ان انتخابات کے متعدد پہلوؤں کا فصاحت کے ساتھ احاطہ کررہا ہے کہ سینیٹ کے ووٹوں میں نوٹوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات تک میں دھاندلی اور پیسہ چلنے کے الزامات سامنے آتے ہیں۔ یہ تو پھر سینیٹ انتخابات تھے۔ ان انتخابات کے نتائج پر قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کے لئےقانون سازی کے اختیارات میں اضافے کا انحصار تھا۔ پاناما لیکس کے بعد پاکستان میں ہونے والے عدالتی فیصلوں سے سخت ناراض مسلم لیگ (ن) کے لئے قانون سازی کے اختیارات میں اضافہ کیا معانی رکھتا ہے اور اس کے بعد ملک کے آئین میں کس طرح کی ترمیمات کی کوششیں ہوں گی، یہ بات نہ اہلِ نظر سے پوشیدہ تھی، نہ اہلِ سیاست سے۔ ایسے حالات میں رضا ربّانی اور دیگر سینئر پارلیمنٹیرین کی موجودگی میں قرعہ ٔ فال بلوچستان کے ایک جواں عمر نومنتخب سینیٹر کے نام نکل آیا۔ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں شکست پر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بھٹو شہید کے حوالے دئیے جارہے ہیں۔ یہ واویلے بھی خوب ہیں۔ میاں نواز شریف کی ساری سیاست ہی بھٹو کی وارث بینظیر بھٹو کی شدید مخالفت کے ذریعے پروان چڑھی ہے۔ کیا 12اکتوبر 1999ء سے پہلے مسلم لیگ (ن) ذولفقار علی بھٹو کی سیاسی فکر کو کوئی اہمیت دیتی تھی اور کیا ان کی پھانسی کو شہادت تسلیم کرتی تھی؟ سینیٹ کے انتخابات میں جس حکمت عملی سے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے معرکہ سر کرلیا اگر مسلم لیگ (ن) کا بس چلتا تو وہ بھی ایسی ہی حکمت علی سے فائدہ اٹھانے کی کیا کوشش نہ کرتی؟ پاکستان کی سیاست میں معاملہ اصول اور اخلاق کا نہیں ہے۔ یہاں تو چلن یہ ہے کہ جو جیت گیا اس پر دھاندلی کا الزام اور جو ہار گیا وہ اصول اور اخلاق کے میدان میں خود کو فاتح قرار دیتا ہے۔
پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اوردیگر کے حمایت یافتہ سینیٹر صادق سنجرانی اور سینیٹر مانڈوی والا ایک آئینی اور جمہوری عمل کے ذریعے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اس جیت کے پس پردہ عوامل جو بھی ہوں یہ جیت ہر لحاظ سے قانونی ہے۔ جہاں تک ووٹوں کی خرید و فروخت کی بات ہے یہ معاملہ قانونی سے زیادہ اخلاقی ہے۔ اخلاقیات مدتیں گزریں ہمارے معاشرے میں کتاب، وعظ و نصیحت تک ہی محدود ہے۔ عملی زندگی میں اخلاق کے اعلیٰ اصولوں کا اثر اور عمل کم ہی نظر آتا ہے۔
آئین ایک جمہوری ملک کی نہایت محترم اور اہم ترین دستاویز ہوتا ہے۔ یہ محض چند صفحات پر مشتمل ایک عام سی کتاب نہیں ہے۔ یاد رہے کہ طویل ترین عرصہ تک اور تا حیات حکمرانی کرنے والے جنرل محمد ضیاء الحق آئین کی عظمت اور اس کی ناگزیریت کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ انہوں نے 73ء کے آئین کو محض چند صفحات کی ایک کتاب قرار دیتے ہوئے کھلے عام اسے غیر اہم قرار دیا تھا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ، وفاقی و صوبائی سینیٹ سمیت کئی سیاسی و حکومتی اداروں کی تشکیل، قانون سازی اور دیگر کئی ریاستی معاملات آئین کے تابع رہ کر سرانجام دئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں ریاستی معاملات میں آئین کی بالادستی تسلیم لیکن ملک کے آئین اور سماج کے دستور میں بہرحال فرق ہے۔ معاشرے کا دستور تو زندگی کے عام معاملات میں اس کی اخلاقیات ہیں۔ ملکی آئین اور سماجی دستور کے نفوز کامعاملہ ہو تو یہاں بالادستی خودبخود سماج کے دستور کو مل جاتی ہے۔ قانون ایک شخص کو مجرم قرار دیتا ہے، معاشرہ سزا کے باوجود اس شخص کو ہیرو قرار دے دیتا ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون کی بنیاد انگریز حکمرانوں کا بنایا ہوا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ہے۔ 1947سے پہلے یعنی انگریز دور سے لے کر آج تک قتل، اقدام قتل اور دیگر سنگین جرائم میں قانون کے تحت سزا پانے والے بعض افراد کو معاشرے نے مجرم نہیں بلکہ اپنا ہیرو قرار دیا۔ وہ لوگ جنہیں عدالت سے بریت کا پروانہ (Clean Chit) ملا ان میں سے کئی کو معاشرہ بے قصور سمجھنے پر آمادہ نہیں۔ ایسی کئی بریتوں کے بارے میں عام لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گواہوں میں اتنی ہمت کہاں کہ عینی شاہد ہونے کے باوجود طاقتوروں کے خلاف گواہی دے سکیں، اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور طبقے کا کوئی فرد قانون کے دائرے میں آ بھی جائے تو دولت، یا اثر و رسوخ کی بدولت اس کے مقدمے کی تفتیش ناقص رہ جاتی ہے۔ برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ سماجی روایات کے سامنے کئی جگہ قانون بے بس اور غیر موثر نظر آتا ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ جھوٹ، بے ضابطگی، رشوت، ملاوٹ، کم تولنا جیسی برائیوں کو ہمارے ہاں ناگزیر سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔ اس معاشرے میں عزت کا معیار دولت ہے۔ بس دولت ہونی چاہئے۔ اکثر لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ دولت حلال ذرائع سے آئی ہے یا حرام ذرائع سے۔ سیاسی معاملات اور معمولات بھی معاشرے میں رائج کئی منفی روایات سے منسلک ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک ان کا اقتدار میں ہونا یا اقتدار میں رہنا اہم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی اصول یا اخلاق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی رائے کی صحیح عکاسی نہیں ہوپارہی۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ کئی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ زیادہ تھے لیکن اسمبلی میں ان کی نشستیں کم تھیں۔ کہیں دو یا زیادہ مدمقابل امیدواروں میں سے سب سے زیادہ لیکن مجموعی ووٹوں میں اقلیتی ووٹ حاصل کرنے والا اسمبلی کا رکن بن گیا۔ اسمبلیوں میں عوام کی رائے کی عکاسی کے لئے اس نظام کو متناسب نمائندگی کے نظام سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک انتخابی عمل میں ضروری اصطلاحات نہیں کی جائیں گی۔ اسمبلیوں میں عوام کی رائے کی درست عکاسی کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر ہر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں میں شخصی آمریت کے بجائے عادلانہ اور منصفانہ جمہوری لیڈر شپ کو مواقع نہیں دئیے جائیں گے تو نہ اعلیٰ اخلاقی اصول پروان چڑھ پائیں گے اور نہ ہی کسی سطح پر ووٹوں کی خرید وفروخت ختم ہوسکے گی۔
پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر کرشنا کماری کوہلی
پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے تھر سے تعلق رکھنے والی اور ہندؤوں میں بھی نچلی ذات سمجھی جانے والی دلت قو م سے تعلق رکھنے والی لڑکی کرشنا کماری کوہلی، پاکستان پیپلز پار ٹی کی طرف سے سینیٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ فیصلہ پاکستان میں رہنے والی سب اقلیتی برادریوں اور عالمی برادری کے لئے بھائی چارے اور رواداری کا پیغام ہے۔ کرشنا کماری کوہلی کو ایوانِ بالا میں قوم کی نمائندگی بہت مبارک ہو۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین