کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی بروقت فراہمی اب بھی ایک خواب ہی ہے ،لوگ سمجھ رہے ہیں حکومت کچھ کرے یا نہ کرے چیف جسٹس آف پاکستان ان کے شہر کے مسائل حل کرادیں گے،ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں لوگوں کو انصاف تو ملا مگر وہ اپنا فیصلہ سننے کے لئے دنیا میں نہیں رہے تھے،جو انصاف تاخیر سے ملے وہ انصاف کب ہوا، انصاف کی فوری فراہمی ہر شہری کا حق ہے، اس پروگرام کے پلیٹ فارم سے ہم نے متعدد بار ایسے ایشوز اٹھائے ہیں جس میں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا تھا، عدالتو ں سے نہیں مل رہا تھا، معاملات آڑے آرہے تھے اور اس کے بعد نوٹسز ہوئے اور معاملات حل ہوئے، ہم نے اس معاملہ پر ایک تفصیلی تحقیق کی کہ نیچے کی عدالتوں میں لوگوں کو کیا کیا مسائل ہوتے ہیں، کس طریقے سے ان مسائل کا تدارک ہوسکتا ہے اور اس تفصیلی ریسرچ اور مختلف شہروں کی عدالتوں میں لوگوں سے اور مختلف بار کونسلوں کے وکلاء سے بات کرنے کے بعد ہم ساری صورتحال آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں کہ کس حد تک لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات ہیں اور انہیں کس طریقے سے بہتر کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار عوامی مسائل کے حل کیلئے بڑے متحرک نظرا ٓرہے ہیں، گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے مختلف عوامی مسائل پر نوٹسز لیے گئے، انہوں نے اسپتالوں کا دورہ کیا، لوگوں سے ان کے مسائل براہ راست سنے، عوامی شکایات پر توجہ دی، شہریوں کے مسائل اور شکایت پرا نتظامیہ کی بازپرس بھی کی، کیا شہریوں کو پانی مل رہا ہے اگر مل رہا ہے تو صاف پانی کیوں نہیں مل رہا، کھانے پینے کی اشیاء خالص دستیاب ہیں یا ملاوٹ شدہ ہیں، اسپتال میں علاج کی سہولیات ہیں یا نہیں، جہاں جہاں کوتاہیاں ہیں کبھی میڈیا کی خبر، کبھی عوام کی شکایات پر چیف جسٹس آف پاکستان ان اداروں کی پکڑ کرتے ہیں، خبر لیتے ہیں اور خبر گیری کیلئے خود بھی پہنچ جاتے ہیں، عوامی مسائل کے حل کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار متحرک نظر آرہے ہیں،لوگ سمجھ رہے ہیں حکومت کچھ کرے یا نہ کرے چیف جسٹس آف پاکستان ان کے شہر کے مسائل حل کرادیں گے، چیف جسٹس سرکاری اسپتالوں میں انتظامیہ کی خبر لیں گے تو وہاں کا نظام بہتر ہوجائے گا، کوئی چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا مسئلہ ہو ان کی آواز اگر چیف جسٹس تک پہنچے گی تو وہ ضرور نوٹس لیں گے، متعلقہ اداروں کی انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا، جواب دینا پڑے گا بس کسی طرح میڈیا پر ان کا پیغام چلا جائے، وہ سن لیں تو سمجھو کام بن گیا، ایک طرف جہاں عوام کی بڑھتی ہوئی امیدیں ہیں وہیں انصاف کے منتظر لوگوں کی ایک بڑی تعداد چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ چاہتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف کیسوں میں الجھے ہیں، کچہریوں کے چکر لگاتے ہیں اور ہر پیشی پر کسی فیصلے کی امید لے کر آتے ہیں اور ایک نئی تاریخ لے کر انہیں واپس جانا پڑتا ہے، سٹی کورٹ ہویا ہائیکورٹ ہو ہر جگہ لوگوں کا ہجوم لگا ہے، مختلف لوگوں کی مختلف کہانیاں ہیں مختلف کیسز ہیں لیکن ان کی شکایتیں ایک جیسی ہیں کہ وہ پیشی پر آتے ہیں لیکن کبھی مدعی نہیں آتا، کبھی گواہ نہیں آتے، کبھی جج نہیں آتے اور انہیں ہر پیشی پر نئی تاریخ مل جاتی ہے، انتظار بڑھتا جاتا ہے، مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں مگر مقدمہ کا فیصلہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے، جب ہماری نمائندہ شاہین عتیق نے کراچی سٹی کورٹ کا رخ کیا تو وہاں ایسی مائیں ملیں جن کا یہ کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے جرم کیا ہے تو سزا دیدو لیکن کیس تو آگے بڑھے، کوئی تو سنے، کوئی فیصلہ تو ہو، جرم ثابت ہوگا تو سزا ملے گی، سزا کاٹ کر بیٹا باہر تو نکلے گا، اگر جرم ثابت نہیں ہوتا تو بری ہوجائے گا لیکن یہاں نہ سزا سناتے ہیں نہ رہا کرتے ہیں، آخر کب تک بے یقینی میں زندگی گزاریں، ان قیدیوں کی ماؤں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخوا ست کی ہے انہیں پیغام دیا ہے کہ ان کا کیس سنا جائے، تاخیر کی وجہ پر نوٹس لیا جائے، کوئی سالوں سے سزا کاٹ رہا ہے، عدالت کے چکر لگارہا ہے، اس کا کیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا، کسی کو شکوہ ہے کہ عدالت میں اسے سنا ہی نہیں جاتا، کسی کو شکوہ ہے کہ اگر سن لیا جائے تو سالہا سال پیشیاں بھگتتے رہتے ہیں، کراچی میں ماتحت عدالتوں میں جب ہم نے لوگوں کو پریشان حال دیکھا، ان کے مسائل سنے تو ہم نے سوچا دیگر شہروں کا حال بھی جانتے ہیں وہاں کیا صورتحال ہے، کیا وہاں بھی لوگوں کی وہی شکایات ہیں جو کراچی میں سننے کو ملی تو پتا چلا یہ حالت زار صرف کراچی کی عدالتوں تک محدود نہیں کوئٹہ اور پشاور میں بھی ہے، حالانکہ یہ کراچی جتنے بڑے شہر نہیں ہیں لیکن یہاں کی ماتحت عدالتوں کے مسائل کراچی کی عدالتوں سے کم نہیں ہیں، کراچی کا وہی حال ہے، کوئٹہ اور پشاور کا یہی حال ہے، کوئٹہ ،پشاور اور کراچی کے بعد ہم نے سوچا پنجاب کی ماتحت عدالتوں کی صورتحال جانتے ہیں، کیونکہ پنجاب بڑا صوبہ ہے، اس صوبے کی کارکردگی کی بہتر ہونے کی بات کی جاتی ہے شاید پنجاب کی عدالتوں کی صورتحال دوسرے صوبوں سے بہتر ہو اس لئے ہم نے لاہور اور ملتان کی عدالتوں کا رخ کیا لیکن صورتحال وہاں بھی کچھ مختلف دیکھنے کو نہیں ملی، پنجاب کے بڑے شہروں کی عدالتوں میں بھی ہم نے لوگوں کو پریشان اور مسائل میں گھرا دیکھا تو ہم نے پنجاب کا ہی ایک شہر جو دارا لخلافہ اسلام آباد سے جڑا ہوا ہے اور وہ راولپنڈی ہے، ہم نے راولپنڈی کا رخ کیا تو لوگوں سے معلوم ہوا کہ راولپنڈی کی ماتحت عدالت میں بھی وہی حال ہے جو باقی عدالتوں میں ہے، ہر جگہ ایک شکایت ہی مشترکہ تھی، انصاف کیلئے کچہریوں کے چکر لگانے والوں کا یہی کہنا ہے کہ تاریخ پر تاریخ دیدی جاتی ہے اور سالوں انتظار کرتے گزر جاتے ہیں کہ کوئی وہ تاریخ بھی آئے جب فیصلہ سنایا جائے، کیس میں پھنسے لوگ اپنی زندگی کا بہترین وقت کچہریوں میں ضائع کردیتے ہیں، پورا کا پورا خاندان رُل جاتا ہے، ان کے لئے وقت ٹھہرتا نہیں بلکہ انہیں مزید پیچھے دھکیل دیتا ہے، کوئی جیل میں اذیت بھگتا ہے اور اس کا خاندان جیل کے باہر وہی اذیت بھگتتا ہے، کوئی پراپرٹی کے کیس میں الجھ گیا تو ایسا الجھتا ہے کہ جمع پونجی کیس کے اخراجات اٹھانے میں خرچ ہوجاتی ہے، ان کی اذیتوں کا ازالہ کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ ان کا کیس سنا جائے، فیصلہ بروقت ہو، لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کے جنوری 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 18لاکھ 69ہزار 886 کیسز زیرالتوا ہیں، اس وقت سپریم کورٹ میں 38ہزار 539 کیسز زیرالتواء ہیں جبکہ تمام ہائیکورٹس میں زیرالتوا کیسوں کی تعداد 2لاکھ 93ہزار 947 ہے، لاہور ہائیکورٹ میں ایک لاکھ 47ہزار 542 کیسز زیرالتواء ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں 93ہزار 335 کیسز،پشاور ہائیکورٹ میں 30ہزار 764کیسز، بلوچستان ہائیکورٹ میں 6ہزار 30کیسز جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 16ہزار 278کیسز فیصلوں کے منتظر ہیں، اسی طرح صوبوں کی ضلعی عدالتوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو پنجاب کی عدالتوں میں زیرالتوا کیسوں کی تعداد 11لاکھ 84ہزار 551 ہے، سندھ میں 97ہزار 673، خیبرپختونخوا میں 2لاکھ 4ہزار 30 اور بلوچستان کی ضلعی عدالتوں میں 12ہزار 826 کیسز زیرالتواء ہیں، اسلام آباد میں زیرالتوا کیسوں کی تعداد 37ہزار 753 ہے، گزشتہ سال نومبر میں گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں جب عوام سے پوچھا گیا کہ کس ملکی ادارے پرا نہیں سب سے زیادہ اعتماد ہے تو گیلپ کے مطابق 82فیصد افراد نے افواج پاکستان، 62فیصد نے مذہبی اسکالرز، 57فیصد نے تعلیمی اداروں پر اور 53فیصد نے عدالتوں پر اعتماد ظاہر کیا، پلس کنسلٹنٹ کے مطابق 72فیصد افراد افواج پاکستان پر، 56فیصد مذہبی رہنماؤں پر، 42 فیصد نے پولیس پر، 37فیصد نے میڈیا پر اور محض 34فیصد لوگوں نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا، عدلیہ پر عوام کم اعتماد کرتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ماتحت عدالتوں کی کارکردگی ہے جہاں بڑی تعداد میں کیسز زیرالتواء ہیں، ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ انصاف کی تلاش کرنے والا جب زندہ نہیں رہتا پھر اسے انصاف ملتا ہے یا پھر وہ عمر کا بیشتر حصہ انصاف کے انتظار میں گزار چکا ہوتا ہے، ماضی کی مثالوں پر نظر ڈالیں تو ایسے مقدمات کی طویل فہرست ہے، اس کی حالیہ مثال چنیوٹ کی رانی بی بی کی ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق رانی بی بی پر 1998ء میں اپنے شوہر کے قتل کا الزام لگایا گیا، رانی بی بی کے مطابق اس سے اپیل کی درخواست کے لئے 400روپے مانگے گئے لیکن اس کا غریب خاندان 400روپے کا بندوبست نہ کرسکا جس پر رانی بی بی کے 19سال سلاخوں کے پیچھے گزر گئے، 19سال بعد لاہور ہائیکورٹ نے انہیں ناکافی ثبوت اور ناقص شواہد کی بنیاد پر باعزت بری کردیا، دوسری مثال 77سالہ خواجہ عبدالسمیع کی ہے جنہیں اسلام آباد میں اپنے پلاٹ کا قبضہ چھڑانے کے لئے 33سال کی قانونی جنگ لڑنا پڑی اور گزشتہ سال دسمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا، 25نومبر 2016ء کو ایک ایسا کیس سامنے آیا جس میں ملزم مظہر فاروق کو چوبیس سال بعد انصاف ملا، ملزم مظہر فاروق کو 1992ء میں قصور میں ایک شخص کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو موت کا حکم سنایا، ہائیکورٹ نے سزا برقرار رکھی، سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملزم کے خلاف ناکافی شواہد، میڈیکل رپورٹس اور گواہان کے بیانات میں تضاد پر ملزم کی رہائی کا حکم دیدیا، ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں لوگوں کو انصاف تو ملا مگر وہ اپنا فیصلہ سننے کے لئے دنیا میں نہیں رہے تھے، چھ اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ نے قتل کیس میں ماتحت عدالتوں سے سزا پانے والے دو ملزمان غلام قادر اور غلام سرور کو باعزت بری کردیا، بعد میں پتا چلا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جن ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بہاولپور میں 13اکتوبر 2015ء میں پھانسی دی جاچکی ہے، دوسری مثال اسلام آباد کے قریب ڈھوک حیدر علی سہالہ کے رہائشی ملزم مظہر حسین کی ہے، مظہر حسین پر 1997ء میں قتل کا الزام لگا، 19سال بعد سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی اور چھ اکتوبر 2016ء کو سماعت ہوئی، سماعت کے دوران قتل کے ملزم مظہر حسین پر جرم ثابت نہ ہوسکا اور اسے بری کردیا گیا لیکن فیصلے سے ڈھائی سال پہلے ملزم اس دنیا سے جاچکا تھا، ملک کی عدالتوں میں زیرالتوا کیسوں اور وجوہات پر چیف جسٹس آف پاکستان بھی بات کرچکے ہیں، سولہ دسمبر کو موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیرالتوا مقدمات کی ایک بڑی وجہ باصلاحیت ججوں کا نہ ہونا ہے، مختلف کیسوں میں پھنسے سیکڑوں لوگ ہر روز عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، فیصلے کے انتظار میں خوار ہوتے ہیں، سالوں کیس چلتا ہے، انصاف ملا یا نہیں یہ ایک علیحدہ بات ہے فیصلہ ہی ہوکر نہیں دیتا، تاخیرتاخیر تاخیر، ہر روز ایک امید لے کر آتے ہیں اور تاریخ لے کر واپس چلے جاتے ہیں اور وہ تاریخ ہوتی ہے تاخیر کی تاریخ۔ مدت بعد فیصلہ آ بھی گیا اور جرم ثابت ہوبھی گیا تو پتا چلا کہ جرم کی جو سزا بنتی ہے اس سے زیادہ سزا کاٹ چکے ہیں یا عرصے بعد فیصلہ آیا اور بے گناہ قرار پایا تو زندگی کے ان قیمتی سالوں کا کیا جو جیل میں گزر گئے، کسی کو موت کے قریب اور کسی کو مرنے کے بعد انصاف ملا، کسی کی جائیداد پر قبضہ ہوگیا، سالہا سال عدالتوں کے چکر لگا کر بال سفید ہوگئے، کوئی دنیا میں ہی نہیں بچا اور اس کے بچے پھر اس کیس کو لڑتے رہے، نہ وہ مدعی رہا نہ وہ وکیل رہا نہ وہ جج رہے بس کیس چلتا رہا، زمانے بعد فیصلہ آجائے انصا ف مل بھی جائے تو یہ کیسا انصاف ہوا، جو انصاف تاخیر سے ملے وہ انصاف کب ہوا، دنیا کی کون سی تاریخ میں ہوا، دنیا کے کون سے خطے میں ہوا، حالانکہ ماضی میں پاکستان کی عدلیہ کی آزادی کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی گئی ہیں، آزاد عدلیہ کیلئے وکلاء جج صاحبان کی جانب سے تحریکیں چلائی گئی ہیں، شہریوں نے اس تحریک کا ساتھ بھی دیا تھا، اس کے بعد یہ امید کی جانی چاہئے تھی کہ اب انہیں انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی، انتظار نہیں کرنا پڑے گا لیکن ان کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا، انصاف کا حصول اب بھی مشکل ہے، زیرالتوا کیسوں کا ابھی بھی انبار لگا ہوا ہے، اس اہم موضوع پر ہم نے سینئر وکلاء سے بات کی، عوام کو بروقت انصاف فراہم کرنے کے لئے مسائل کا حل کتنا ضروری ہے ہم نے یہ سوال اہم ماہرین قانون سے بھی پوچھے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ انصاف کی بروقت فراہمی اب بھی ایک خواب ہی ہے، ہم کسی مفروضے پر بات نہیں کررہے، عدالتوں کے باہر جو دیکھا جو سنا وہی پیش کیا ہے، عدالتوں میں مختلف کیسوں میں آئے عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان کیلئے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ آپ کی توجہ کے منتظر ہیں، بروقت کارروائی نہیں ہوتی ان کی سنوائی نہیں ہوتی لیکن آپ سے بڑی امید ہے کہ آپ ان کی آواز ضرور سنیں گے، نچلی عدالتوں میں معاملات بہتر ہوں گے، ہم نے مختلف شہروں میں عدالتوں میں عوام کو درپیش مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی۔کراچی سے ہماری نمائندہ شاہین عتیق، لاہور سے صفدر علی، راولپنڈی سے ارشاد قریشی، پشاور سے نادیہ صبوحی، کوئٹہ سے سلمان اشرف اور ملتان سے عمران چوہدری نے لوگوں سے بات کی، اس پوری رپورٹ پر ان سب نے بہت زیادہ محنت کی اور عوام کے مسائل کو اجاگرکیا، امید کرتے ہیں عوام کو انصاف ملے، وقت پر ملے اور مسائل بہتر ہوں۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر حیدر امام رضوی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا جیوڈیشل سسٹم بڑا فرسودہ سسٹم لے کر چل رہا ہے، یہ بات واضح طورپر نظر آتی ہے کہ غریب آدمی کیلئے یہاں انصاف حاصل کیلئے ایک انتہائی مشکل اور دشوار گزار طریقہ کار ہے، میرے نزدیک ایک بے گناہ شخص پھانسی پر چڑھ جاتا ہے اور بیس سال بعد سپریم کورٹ میں جب وہ مقدمہ چل رہا تھا اور سپریم کورٹ اسے بری کرتی ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص پہلے ہی پھانسی پر چڑھ چکا ہے، ہمارے عدالتی نظام کی اس سے زیادہ بڑی خامی کیا ہوسکتی ہے، انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا یہ فرسودہ نظام ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو بہت زیادہ اقدامات کرنا ہوں گے، عدلیہ کو اصلاحات کرنا پڑیں گی اور ان اصلاحات کو لائے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا، آپ بالکل ازخود نوٹس لیں، آپ بالکل دودھ، آٹے، پانی پر ایکشن لیں اور اسپتالوں کے وزٹ کریں لیکن اس کے ساتھ جو کام عدلیہ کا ہے وہ بھی کیا جائے، عدلیہ کا کام ہے کہ عدالتی نظام کو بہتر کیا جائے، عدالتی نظام صرف اصلاحات لاکر ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ سے لے کر ڈسٹرکٹ کورٹس تک لاکھوں کی تعداد میں مقدمات ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، ہمارے ہاں عدالتیں پالیسیاں آتی رہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا، اس کی بنیادی وجہ ہے کہ کسی نے اس پر کبھی بھی کام کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی، میں کراچی بار ایسوسی ایشن اور وکلاء کی طرف سے کہتا ہوں کہ بار ایسوسی ایشن ہر طریقے سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہے اگر باقاعدہ اصلاحات لائی جائیں، باقاعدہ قانون میں ترمیم کی جائے، میں سمجھتا ہوں کہ اسپیڈی جسٹس بھی اسی وقت نظر آئے گا، عدلیہ اگر سیاسی مقدمات اور ازخود نوٹس کی سماعتوں میں الجھی رہے گی، ہم 2009ء یہ ایسی پروسیڈنگز دیکھ رہے ہیں لیکن اس میں عوام کی فلاح و بہبود کاعمل نظر نہیں آتا ہے، جو غریب اس پیچیدہ نظام کے متاثر ہیں ان کو ریلیف دیا جائے، یہ ریلیف اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب پوری توجہ عدالتی نظام کو بہتر کرنے پر لگائی جائے گی۔ سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن عارف چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں مقدمہ بازی ایسی چیز بن گئی ہے جس کا لوگ کوئی فائدہ نہیں سمجھتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی اتنی زیادہ بھرمار ہے اور ایسا سسٹم ہے کہ آپ جب کسی چیز کا نتیجہ نکلنا چاہتے ہیں تو وہ نکلتا نظر نہیں آتا ہے، ابھی تک کسی نے یہ غور نہیں کیا کہ یہ نظام کتنا پرانا ہے، سول پروسیجر کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ کو بہت عرصے سے ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے، اتنی حکومتیں آئیں لیکن ان کی ترجیحات بالکل مختلف رہی ہیں، کسی حکومت نے اس معاملہ پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، گڈگورننس میں اگر کوئی حکومت دلچسپی لے تو اسے سب سے پہلے نظام عدل پر توجہ دینی چاہئے، عدلیہ کے معیار کو بہتر بنانے اور بیک لاگ کو ختم کرنے کے لئے جہاں عدلیہ کا کردار ہے وہاں پارلیمنٹ اور حکومت کا اس سے کہیں زیادہ کردار ہے، حکومت اور پارلیمنٹ کو اسے اپنی پہلی ترجیح کے طورپر لینا چاہئے، سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3کی وجہ سے اور بعض معاملات کی سنگینی کے اعتبار اور اہمیت کی وجہ سے جو کام کررہی ہے وہ بہت درست سمت میں جارہا ہے لیکن نیچے باقی عدالتیں بھی تو ہیں جن کے ذمہ کچھ ایسے مقدمات نہیں ہیں اور ہیومن رائٹس سے متعلق ایشو نہیں ہیں، وہاں مجھے اس طرح کی کمٹمنٹ نظر نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ فوجداری نظام کو دیکھ لیں وہاں اگر عدالت نے کیس کا فیصلہ کرنا ہے تو اس کیلئے پراسیکیوشن کا مکمل تعاون چاہئے، حیران کن طور پر اسلام آباد میں کوئی پراسیکیوشن برانچ نہیں ہے، باقی صوبوں میں اگر پراسیکیوشن برانچز ہیں تو وہ برائے نام ہیں، نظام عدل پر لوگوں کا اعتبار قائم کرنے کے لئے سارے اسٹیک ہولڈرز کواکٹھا کرنا ہوگا، پاکستان میں لوگوں کا نظام عدل سے اعتماد اٹھ گیا تو اس کے بعد انارکی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ بیرسٹر حسان نیازی نے کہا کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں ایک عوام کو انصاف ملنے میں تاخیر ہے، غریب عدالت انصاف ملنے کی امید میں جاتا ہے لیکن وکیلوں یا عدلیہ کی تاریخ لینے سے کیسوں میں تاخیر ہوتی جاتی ہے، اس کی بنیادی طور پر ذمہ داری عدلیہ اور بار پر عائد ہوتی ہے، یہاں پانچ کیسز پانچ مختلف ججوں کے سامنے لگے ہوتے ہیں اور اتفاق ہوتا ہے کہ پانچوں جج چھٹی پر گئے ہوتے ہیں، خدیجہ صدیقی کیس میں ایسی ایسی حرکتیں ہوتی تھیں۔