• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی لیڈی ڈاکٹر کیخلاف تفتیش میں اصلی ڈاکٹرز کی عدم دلچسپی

جعلی لیڈی ڈاکٹر کیخلاف تفتیش میں اصلی ڈاکٹرز کی عدم دلچسپی

جناح اسپتال کراچی سےگرفتار جعلی لیڈی ڈاکٹر کے خلاف تفتیش میں اصلی ڈاکٹرز کی عدم دلچسپی ،سرکاری ڈاکٹروں سے قربت کے شواہد مل گئے، اصلی ڈاکٹر اس کو ’ڈاکٹر صاحب‘ لکھتے تھے۔

کراچی کے جناح اسپتال کے گائنی وارڈ سے گرفتار جعلی لیڈی ڈاکٹر عائشہ دو سال سے سوشل میڈیا پر ’کلینک‘ چلا رہی تھی، ملزمہ کے موبائل فون فرانزک سے ایک معروف گائناکالوجسٹ سمیت کئی سرکاری ڈاکٹرز سے گہرا تعلق ثابت ہوا ہے۔

پولیس کے طلب کرنے کے باوجود جناح اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر سمیت 3 ملازمین بیان دینے کیلئے نہیں آئے۔ وومن تھانے کی ایس آئی او لیڈی سب انسپکٹر شمع افروز اسپتال کے گائنی وارڈ سے گرفتار جعلی لیڈی ڈاکٹر کی گرفتاری کے مقدمے کی تفتیش کر رہی ہیں۔

تفتیشی افسر کے مطابق انہیں ملزمہ سے باقاعدہ تفتیش کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ عدالت کی جانب سے پولیس ریمانڈ نہ ملنے کی وجہ سے ملزمہ عائشہ کو کرمنل ریکارڈ آفس میں رجسٹرڈ کرانے کے بعد جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزمہ سے 3موبائل فون برآمد ہوئے تھے جن میں سے ایک فون کارآمد نہیں۔ ملزمہ کے 2 موبائل فون کا فرانزک ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ جس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملزمہ کا علی نامی ایک ڈاکٹر سے سال 2016 سے رابطہ تھا۔

موبائل فون ریکارڈ کے مطابق ملزمہ عائشہ جناح اسپتال کی معروف گائناکالوجسٹ سے بھی مبینہ طور پر ایک سال سے رابطے میں تھی۔ پولیس کے مطابق ملزمہ نے نہ صرف ابتدائی تفتیش بلکہ ریمانڈ کیلئے پیشی کے دوران عدالت کے سامنے بھی اعتراف کیا کہ وہ ڈاکٹر ثمرین کی اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق اصلی اور سرکاری ڈاکٹرز واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے رابطوں میں جعلساز خاتون کو ’ڈاکٹر صاحب‘ لکھ کر مخاطب کرتے تھے۔ علی نامی مبینہ ڈاکٹر سے ملزمہ عائشہ کا سال 2016 سے میسجز کا ریکارڈ ملا ہے۔

موبائل فونز کے ریکارڈ کے مطابق یہ جعلساز خاتون بیشتر ڈاکٹرز کو میسج کرکے مختلف بیماریاں یا علامتیں لکھ کر بھیجتی تھی جس کے جواب میں ڈاکٹرز اسے نسخہ میسیج کردیتے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق لکھی گئی دوائیاں وہ اپنے مختلف مریضوں کو ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کے ذریعے فارورڈ کر دیتی تھی۔

پولیس کے مطابق ڈاکٹر ثمرین نے مبینہ طور پر اس جعلساز کو اپنی اسسٹنٹ کیوں رکھا ہوا تھا؟ یہ جاننے کیلئے ڈاکٹر کو جمعرات کی صبح 11بجے وومن پولیس سٹیشن طلب کیا تھا۔ گائنی وارڈ نمبر ایک میں جعلساز ڈاکٹر کی موجودگی کی اطلاع دینے والی اسٹاف گلشن اور سیکورٹی اہلکار ریاض کو بھی جمعرات کی دوپہر بیان دینے کیلئے پولیس نے بلوایا تھا مگر کوئی نہیں آیا۔

تفتیشی افسر کے مطابق مذکورہ افراد کو دوبارہ طلبی کا نوٹس بھیجا جائے گا۔ پولیس کے مطابق اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ ملزمہ کے بیان کے مطابق وہ ایک سال سے گائنی وارڈ آتی جاتی رہی تو سیکورٹی خاموش کیوں تھی اور یہ کہ گرفتاری کے روز ہی پولیس کو کیوں اطلاع دی گئی۔

پولیس کے مطابق معاملہ محض میٹرک پاس کسی جعلی لیڈی ڈاکٹر کا نہیں بلکہ جناح اسپتال جیسے بڑے سرکاری ادارے کے گائنی وارڈ میں طویل عرصے

سے دھوکہ بازی کا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے اس امر کا سراغ لگایا جانا ضروری ہے کہ یہ خاتون ایک سال سے وہاں کیا کیا کرتی رہی اور یہ کہ اس طرح کے اور کتنے لوگ وہاں جعلسازی کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ اسپتال اسٹاف کی کیا ملی بھگت ہے۔

اس سلسلے میں ملزمہ کو جیل سے پولیس ریمانڈ پر لینے کیلئے پولیس کی کوشش جاری ہے۔

تازہ ترین