• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ زبانیں ... کامیابی کے زیادہ مواقع

لیاقت علی جتوئی

انسان کااللہ تعالی کی تخلیق کردہ کائنات اور اس میں موجود چیزوں کو دیکھنے کا ویژن اتنا ہی محدود یا وسیع ہوتا ہے، جتنا وہ دیکھ، پرکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ ہم جس ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں، جس طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن حالات سے گزرتے ہیں اور جیسی افتاد طبع لے کر اس دنیا میں آتے ہیں، یہ تمام اور ان جیسے دیگر بہت سے عوامل ہماری شخصیت کا ایک مخصوص سانچہ بنا دیتے ہیں۔ اس وسیع کائنات میں ہمارا وہ سانچہ کسی بہت ہی چھوٹے سے کوزے کی طرح ہوتا ہے۔

 آفاقی سچائیوں کا ایک طویل کوہ ہمالیہ ہے جس کی کسی چھوٹی سی وادی کے ایک مختصر سے حصے میں ہم تمام عمر گھومتے رہتے ہیں۔ 

  • جنوبی افریقا کے سابق صدر نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ’’اگرکسی شخص سے آپ اس زبان میں بات کریں گے، جو وہ سمجھ سکتا ہے تو وہ بات اس کے دماغ میںجگہ بنالے گی۔ تاہم اگر اس سے آپ اس کی اپنی زبان میں بات کریں گے تو وہ اس کے دل میں اتر جائے گی‘‘۔

انسان کی اس عقلی و طبعی تحدید پر قابو پانے کا ایک رستہ قدرت نے زبان کی شکل میں فراہم کیا ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے، جس کی بدولت ہم اپنے حصے کی سچائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے پر قادر ہو گئے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ اپنے اپنے خول میں مقید ہم انسانوں کوقدرت نے موبائل فون عطا کر دیے ہیں تاکہ سب ایک دوسرے سے بات کرکے اور مل کرسچائی کی ایک بڑی تصویرتشکیل دے سکیں۔

زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے، جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یادداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یادداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔

 بلاشبہ، زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے، اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔

 قومیتی شناخت او ر بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے، چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نا صرف لسانی، رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیںبلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم،رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔

مادری زبان

جنوبی افریقا کے سابق صدر نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ’’اگرکسی شخص سے آپ اس زبان میں بات کریں گے، جو وہ سمجھ سکتا ہے تو وہ بات اس کے دماغ میںجگہ بنالے گی۔ تاہم اگر اس سے آپ اس کی اپنی زبان میں بات کریں گے تو وہ اس کے دل میں اتر جائے گی‘‘۔

آج کے دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاچکاہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک فطری تعلق پیدا کر تے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔

مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے،زبان کی آبیاری ہوتی ہے،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے، جس سے اس زبان پر صحت بخش اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پذیر رہا ہے، چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے یا خطے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے متعارف ہوتے ہیں،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔

گلوبل ولیج اور زبانیں

اشاعتی صنعت کی ترقی کی بدولت پچھلی کئی صدیوں کا تمام علم ہمارے پاس محفوظ ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے ساتھ علم کی شیئرنگ کا اگلا دورشروع ہو ا ، جس کے اثرات سے کوئی تہذیب محفوظ نہ رہ سکی۔ انٹرنیٹ کی بدولت تمام تہذیبیں تیزی سے آپس میں جڑ رہی ہیں۔علم کا تبادلہ ایک نئے اور ان دیکھے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اب ہم گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا سے جڑچکے ہیں۔ 

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور نیوز ایجنسیوں کی بدولت، دنیا کے کسی بھی کونے والے واقعے سے ہم چند ہی سیکنڈ میں باخبر ہوجاتے ہیں۔ زبانوں کا علم رکھنے والے ماہرین کی بدولت انگریزی، چینی، عربی، پرتگالی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، فارسی، ترک، نیز کسی بھی زبان میں سامنے آنے والی خبر ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے فوری طور پر انگریزی، اردو اور ہماری مادری زبان میں ہمارے گھروں تک پہنچ جاتی ہے۔

  • پرتگال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کارلوس ڈو امرال فریرے کے پاس ہے، جو 115زبانیں جانتے ہیں۔ وہ ساٹھ زبانوں کی شاعری کو پرتگالی زبان میں ترجمہ کرکے کتابی شکل میں شائع کرچکے ہیں۔ اس کارنامے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوچکا ہے۔

عالمی سطح پر تقریباً 6,900زبانیں بولی جاتی ہیں، تاہم صرف 100زبانیں ایسی ہیںجو تحریری شکل میں استعمال ہوتی ہیں۔ مخصوص زبانیں بولنے والوں کا تناسب بھی انتہائی غیر متوازن ہے۔

 ایک طرف چینی زبان بولنے والے ہیں، جو ایک ارب سے زائد ہیں، تو دوسری جان ساڑھے چھ ہزار سے زائد ایسی زبانیں ہیں، جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے کم ہے۔ دوسرے نمبر پر ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے، جن کی تعداد چالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ مادری زبان بولنے والوں میں انگریزی کا نمبر تیسرا آتا ہے، تاہم دنیا بھر میں پچاس کروڑ سے زائد افراد انگریزی کو سیکنڈ لینگویج کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

زبانوں کا علم

ایک شخص، مادری زبان کے علاوہ، زندگی میں زیادہ سے زیادہ کتنی زبانیں سیکھ اور بول سکتا ہے؟ یقیناً یہ کوئی سائنسی یا ریاضی کا سوال نہیں، جس کا کوئی مخصوص جواب موجود ہے۔ تاہم دنیا کی سب سے زیادہ زبانیں سیکھنے اور بولنے کا ریکارڈ پرتگال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کارلوس ڈو امرال فریرے کے پاس ہے، جو 115زبانیں جانتے ہیں۔

 وہ ساٹھ زبانوں کی شاعری کو پرتگالی زبان میں ترجمہ کرکے کتابی شکل میں شائع کرچکے ہیں۔ اس کارنامے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوچکا ہے۔

وہ پاکستانی طالب علم، جو امریکا، یورپ اور دیگر ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں یا تعلیم کے لیے جانے کی خواہش رکھتے ہیں، انھیں بھی ان ملکوں کی زبان میں مہارت حاصل کرنا ضرور ہے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر کئی ملکوں میں تعلیم کے حصول یا کاروبار کی غرض سے جانے والے طالب علموں اور افراد کو انگریزی زبان کا ماہر ہونا ضروری ہے۔

 اس سلسلے میں IELTSکا امتحان لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کینیڈا جانے کے خواہش مند افراد کو فرانسیسی زبان آنے کی صورت میں اضافی نمبرز دیے جاتے ہیں۔ عالمی معیشت اور خصوصاً پاکستان میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کے باعث چینی زبان اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان میں کئی ادارے اب چینی زبان سکھانے کی تعلیم دے رہے ہیں۔

 آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ سی پیک کے تحت سرمایہ کاری اور کاروبار کے مواقع کی تلاش میں پاکستان آنے والے متعدد چینی اتنی معیاری اردو بولتے ہیں کہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے، جبکہ کئی چینی باشندوں کو ایسی پاکستانیوں کی تلاش رہتی ہے جو پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے علاوہ چینی زبان بول سکتے ہوں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کے جدید دور میں زبانیں نا صرف رابطے اور ایک دوسرے کو جاننے کا ذریعہ ہیں، بلکہ ہمارا کیریئر اور مستقبل بھی وابستہ ہے۔

زبانیں کیسے سیکھیں؟

کیا کوئی بھی زبان سیکھنے کا مخصوص فارمولا ہے، جس پر عمل کرکے 100%نتائج حاصل کیے جاسکیں؟

نہیں، ایسا کوئی فارمولا نہیں۔ تاہم کچھ رہنما اصول ہیں، جن پر عمل کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

-1 بولنا سیکھیں: جب آپ کوئی زبان سیکھنا شروع کریں، تو وہ زبان بولنے والے افراد سے آپ بات چیت کرناشروع کردیں۔ محدود الفاظ اور جملوں سے شروع کریں اور اس میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جائیں۔

-2 سنیں اور پڑھیں: آپ اس زبان کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور سنیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ بتدریج آپ مشکل ترین الفاظ سمجھنا اور پڑھنا شروع کردیں گے۔

-3ترجمہ کریں: آپ اس زبان کے الفاظ اور جملوں کو اپنی مادری زبان میں ترجمہ کریں اور اسی طرح اپنی مادری زبان کو اس زبان میں ترجمہ کریں۔

تازہ ترین