• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسا کہ پچھلے کالموں میں عرض کرچکا ہوں میں گندی سیاست اور گندی زبانوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا۔ آئیے دوسری باتوں پر بات کرتے ہیں۔
ابصار احمد صاحب نے جمال الدین افغانی پر یہ مضمون بھیجا ہے۔ مارچ 1897 یوم وفات ، داعی اتحادِ امّت جناب سید جمال الدین افغانی ؒ ۔ جدید دنیائے اسلام میں اتحادِ عالمِ اسلام کے عظیم داعی جنہیں علامہ اقبال ؒ نے بھی اپنے اشعار میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے 1838 کو ایران و افغانستان کے سرحدی علاقے اسعد آباد میں پیدا ہوئے اسی لئے کوئی انہیں ایرانی تو کوئی افغانی کہتا ہے لیکن عالمِ اسلام کا یہ داعی ممالک کی قید و بند سے آزاد ایک بلند فکر پرواز شخص تھا جس کی فکر نے انیسویں صدی میں پورے عالم اسلام کو بیداری اور مغربی تہذیب کی یلغار کے خلاف متحد ہونے کا راستہ سجھایا۔ بجا طور اُن کو برصغیر میں اسلام کے سیاسی احیاء کی تحریک کا سرخیل کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے پان اسلامزم کا تصور پیش کیا جو درحقیقت اسلامی روح کا جدید ’’ورژن‘‘ تھا اس کیلئے انہوں نے ایران، مصر، ترکی ، فرانس، جرمنی وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں حالاتِ حاضرہ کیساتھ ساتھ فکر و فہم کا جائزہ بھی لیا۔ 1857 کی جنگ آزادی کا سال جمال الدین افغانی نے دہلی میں گزارا کچھ عرصہ یا دو ماہ دہلی میں گزارے اسی سال حج کیلئے بیت اللہ تشریف لے گئے بعد میں افغانستان آبائی وطن چلے آئے اور وہاں کے بادشاہ دوست محمد خان کے مشیر خاص بن گئے اور اسکے بعد اگلے حکمراںمحمد اعظم کے بھی مشیر رہے۔ انہوں نے افغانی حکمراںدوست محمد خان کو برطانیہ کی نسبت روس سے تعلقات قائم کرنے کا مشورہ دیا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت ان کے خلاف ہوگئی اور ان کو روسی جاسوس قرار دیا۔ 1868 ء میں کابل شیر علی خان کے قبضے میں چلا گیا جس کے بعد سید جمال الدین کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ 1871 میں وہ مصر چلے آئے اور سیاسی اصلاح اور اتحاد امت کا نظریہ عام کرنا شروع کردیا۔ یہاں اُن کا قیام آٹھ سال رہا۔ قاہرہ علم و تہذیب کا ایک درخشاں باب تھا انہوں نے اس جگہ کھل کر اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی اور نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان ہی نوجوانوں میں ایک نمایاں نام مفتی محمد عبدہ کا ہے۔ انگریزوں نے اُن کے افکار اور دعوتی کام سے خوفزدہ ہو کر پہلے افغانستان سے نکلوایا تھا اب قاہرہ میں آپ کا قیام بھی انگریز کیلئے خطرے سے خالی نہ تھا۔ چنانچہ 1879 میں حاکم مصر پر دبائو ڈال کر مصر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے استنبول، لندن، پیرس، ماسکو، سینٹ پیٹربرگ اور میونخ وغیرہ کا سفر کیا۔1883 ء میں انہوں نے پیرس میں ’عروۃ الوثقیٰ‘ کے نام سے ایک عربی اخبار جاری کیا جو اُن کی بنیادی فکر وحدت اسلامی کا ترجمان تھا۔ یہ رسالہ نو دس ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا اور اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا۔
سید جمال الدین افغانی کی دعوت چار نکات سے سمجھی جاسکتی ہے (1) اسلامی ممالک پر مغربی تسلط و غلبے پر اعلانیہ تنقید اور مزاہمت کی ترغیب (2) مسلمان ممالک کے باہمی اتحاد و اتفاق کی تحریک (3) مسلمانوں میں جدید مغربی سائنسی علوم کے حصول کی رغبت پیدا کرنا (4) ایک ایسے ادارے کے قیام کی کوشش جو اسلام کو ایک مضبوط طاقت بنادے۔ جمال الدین افغانی اپنے دور کے تمام حکمرانوں کو مغرب کا نمائندہ قرار دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی جدوجہد بھی مغرب کے پیروکار مقامی مسلمان حکمرانوں کو ہٹانے اور ان کی جگہ محب دین و وطن مسلمان امراء کو حکومت دلوانے کیلئے تھی تاہم افغانی صاحب بہرحال انسان تھے اسی لئے خلیفہ اسلام سلطان عبدالحمید کے خلاف اُن کی رائے درست نہیں کیونکہ خلیفہ دراصل صیہونی طاقتوں کو سمجھ گئے تھے اسی لئے مصر کی جامعہ الازہر کے کچھ نادانوں، سادہ لوح عالموں اور کچھ ’’فتویٰ فروشوں‘‘ نے سلطان کے خلاف بھی فتاویٰ دئیے تھے! ایسا ہی کچھ اُن دنوں سوڈان میں سید مہدی سوڈانی ؒ کے ساتھ بھی ہوریا تھا بلکہ جو بھی داعیٔ دین بنتا یا استعمار کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنستا وہ فتووں اور مسلک پرستوں کی نذر ہوجاتا! ایسا ہی کچھ پھر جمال الدین افغانی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مصر اور ترکی میں فکرِ اسلامی کی لہر دوڑانے والی اس شخصیت کے خلاف کچھ نہ مل سکا تو صیہونی طاقتوں نے کچھ لوگ بنا کر اسلامی شخصیات کو بدنام کرنا شروع کیا جس کی زد میں افغانی صاحب بھی آگئے۔ انہیں فری میسن بتا دیا گیا بلکہ کچھ دستاویز بھی مہیا کی گئیں۔ اب اگر جمال الدین افغانی صاحب کو فری میسن تنظیم کا رکن مان لیا جائے تو وہ بجائے اتحادِ امت اور اصلاحِ امت کے انتشار کی بات کرتے، ارضِ فلسطین کے معاملے میں بھی ان کا سخت موقف تھا جس کا اظہار وہ اپنے اخبار کے ادارئیے میں کرتے رہے۔ یہ بھی صیہونیت کی سازش ہے کہ جب کوئی اسلام کا خیرخواہ بن کر ملتِ اسلامیہ میں مقبول ہوجائے تو اس پر اسی قسم کے الزامات لگوادو یا کردار کشی کروائو اور ’’شواہد‘‘ بنوانا کون سا مشکل کام ہے! بہرحال جمال الدین افغانی ؒنے ساری زندگی ملّت اسلامیہ کی خدمت کرتے ہوئے اسلامبول المعروف استنبول میں وفات پائی لیکن بعد میں افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے ان کے جسد خاکی کو افغانستان منگوا کر کابل میں تدفین کی۔ آج مصر و شام میں اخوان المسلمون ہو یا ترکی میں ملّی عدالت پارٹی تجدیدِ احیائے دین کیلئے سب نے فکرِ اسلامی کی توسط سے جمال الدین افغانی ؒ سے ضرور روشنی لی ہے۔ عادات، اخلاق اور طرزِ عمل آپ کے شجرہ نسب کی پول کھول دیتا ہے۔ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب کیلئے حاضر ہوا۔ قابلیت پوچھی گئی، کہا، سیاسی ہوں (عربی میں سیاسی، افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں)۔ بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی اسے خاص ’’گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج‘‘ بنا لیا جو حال ہی میں فوت ہوچکا تھا۔ چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے سےمتعلق دریافت کیا، اس نے کہا ’’نسلی نہیں ہے‘‘۔ بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے سانیں کو بلا کر دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے۔ بادشاہ نے اس شخص کو بلا کر پوچھاتم کو کیسے بتا چلا کہ یہ اصلی نہیں ہے؟ اس نے کہا جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کرکے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا کر کھاتا ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا اس کے گھر اناج، گھی، بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بطور انعام بھجوایا، اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس سے بیگم کے بارے میں رائے مانگی، اس نے کہا ’’طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے‘‘، بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بھیجا معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہوگئی تھی چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کیلئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنا لیا۔ بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، ’’ تم کو کیسے علم ہوا‘‘، اس نے کہا، اسکا ’’خادموں کیساتھ سلوک ‘‘ جاہلوں سے بدتر ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا، بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں، ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کردیا۔ کچھ وقت گزرا، مصاحب کو بلایا، اپنے بارے میںدریافت کیا، مصاحب نے کہا، جان کی امان ، بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا ’’نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے‘‘۔ بادشاہ کو تائو آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا، سیدھا والدہ کے محل پہنچا، ’’والدہ نے کہا یہ سچ ہے تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا۔‘ ‘ بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا تجھے کیسے علم ہوا؟ اس نے کہا، بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ہیرے موتی، جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں لیکن آپ بھیڑ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں، یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں، کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہوسکتا ہے، عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ (عادات، اخلاق اور طرز عمل۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں۔)
ایک چھوٹی سی نصیحت : زندگی جب خوشی دے تو سمجھ لو کہ آپ کے اَچھے اعمال کا صلہ مل رہا ہے اور زندگی جب تکلیف دے تو سمجھ لو کہ اچھے، نیک کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین