• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں …سردار احمد قادری
ہم ’’ایمسٹرڈم‘‘ کے ائر پورٹ سے مسلسل سمندر پر پرواز کرتے ہوئے سات گھنٹوں بعد نیو یارک پہنچے۔ نیو یارک کے جان ایف کینیڈی ائر پورٹ سے اترتے ہی دو تجربے ہوئے اور دونوں ہی اچھے نہ تھے۔ ائر پورٹ کی عمارت سے باہر نکلا تو ٹیکسیوں کی لمبی قطار نظر آئی، میرے حصے میں جو ٹیکسی آئی یعنی قطار میں انتظار کے بعد میری باری پر جو ٹیکسی میرے لیے ہوسکتی تھی اسے ایک ’’اپنا‘‘ ڈرائیور یعنی پاکستانی ڈرائیور چلا رہا تھا، دیکھ کر جی خوش ہوا کہ چلو اس سے اپنی زبان میں باتیں بھی ہوں گی اور ہم باتوں باتوں میں منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے، ٹیکسی میں بیٹھتے ہی جب میں نے بتایا کہ میں نے ’’بروک لین‘‘ کے علاقے میں جانا ہے تو اس نے برا سا منہ بنالیا اور بڑبڑانے لگا، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ چلتے کیوں نہیں؟ اس نے کہا، میں تو ’’مین ہیٹن‘‘ کی سواری کے انتظار تھا اور آپ تو قریب کی سواری ہیں۔ مہربانی کرکے اتر جائیں اور کسی اور ٹیکسی میں بیٹھ جائیں، آپ کی مہربانی ہوگی، میں اتر گیا، چاہتا تو اس کی شکایت ائر پورٹ والوں کوکر سکتا تھا لیکن نہیں کی۔ اس ٹیکسی ڈرائیور نے جوانی کے دنوں کے پاکستان کے رکشہ والوں کی یاد تازہ کردی۔ اختر شیرانی نے کہا تھا۔ ’’او دیس سے آنے والا بتا کس حال میں ہیں یاران وطن‘‘، اور وہاں نیو یارک میں صورتحال کچھ یوں تھی، او دیس سے آنے والے دیکھ کس حال میں یاران وطن۔ بہرحال میں نے ٹیکسی ایک گورے رنگ والے ڈرائیور کی لی، یہ ایک دھیمے مزاج کا ڈرائیور تھا، اس نے ٹیکسی سے اترکر سب سے پہلے میرا اٹیچی کیس لے کر اسے کار کے پچھلے حصے میں رکھا پھر دروازہ کھول کر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور جب خود بیٹھ گیا تو ادب سے پوچھا۔ ’’کہاں جانا ہے؟‘‘ معلوم ہوا کہ ہم جو دن رات مشرقی اقدار اور روایات کا ذکر کرتے ہیں وہ صرف کتابوں کے خزینوں میں دفن ہیں، ورنہ سرزمین اور بیرون وطن ہم نے اپنے آپ کو نہیں بدلا۔ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
ٹیکسی ذرا دیر چلی تو میں نے دیکھا کہ میرا ڈرائیور بار بار شیشے کی طرف دیکھ رہا ہے اور کچھ بول رہا ہے۔ پھر اس نے ٹیکسی کی رفتار ذرا تیز کردی۔ اچانک اس نے اپنی لین سے گاڑی ساتھ والی لین پر موڑ دی، یعنی وہ جس قطار میں جارہا تھا اس سے ہٹ کر ساتھ والی قطار میں آگیا، پھر زناٹے سے ایک گاڑی ہمارے برابر آئی۔ یہ گاڑی اس ٹیکسی کے پیچھے پیچھے آرہی تھی اور اس کو راستہ چھوڑنے کے اشارے دے رہی تھی۔ اب ہمارے قریب آکر اس ڈرائیور نے جو غصے میں تھا اپنی گاڑی کی کھڑکی کو کھولا اور پھر ایک پستول سے ہماری طرف پہلے ہوائی فائرنگ کی اور پھر ٹیکسی کی طرف پستول کا رخ کرکے گالیاں دینے لگا، میں نے سر نیچے جھکالیا، ٹیکسی ڈرائیور گالیوں کا جواب گالیوں سے دینے لگا اور پھر ساتھ والی گاڑی تیز رفتاری سے آگے کی طرف بڑھ گئی، میں نے سر اٹھا کر اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھا، وہ فتح مندی کے احساس سے مسکرا رہا تھا کہ اس نے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا، میں نے گھبراہٹ میں پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟ اس نے فائرنگ کیوں کی؟‘‘ اس نے حیران کن نظروں سے مجھے دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں نیو یارک میں نووارد ہوں پہلی مرتبہ آیا ہوں۔ گویا وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا۔ ’’نواں آیاں ایں سونہڑیاں؟‘‘ پھر اس نے بتایا۔ ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، نیو یارک میں یہ معمول کی بات ہے۔ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے‘‘، میں نے پوچھا ’’لیکن بات کیا تھی؟ کیوں وہ غصے میں تھا اور گولیاں چلا رہا تھا۔‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ وہ تیزی میں تھا اور چاہتا تھا کہ میں اس کے راستے سے ہٹ جائوں اور اسے آگے جانے دوں، میں نے اپنی لین میں ڈرائیورنگ جاری رکھی۔ لہٰذا وہ غصے میں آگیا اور ہوائی فائرنگ کرکے مجھے ڈرانے کی کوشش کررہا تھا۔ ڈرائیور کی اس وضاحت سے میں حیران ہوا، کیا یہ کوشش تھی، یہ تو سیدھا سا اقدام قتل تھا لیکن وہ اس کو ڈرانے کی کوشش کررہا تھا۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوجاتی تو کیا میں اس سفر کی روئیداد لکھنے اور قارئین کو بتانے کیلئے موجود ہوتا؟ پھر اچانک پی ٹی وی کے انگریزی پروگراموں میں دیکھے جانے والے وہ تمام مناظر نظروں کے سامنے آگئے لیکن وہ تو ڈراموں کے مناظر تھے یہاں نیو یارک میں آمد کے پہلے ہی روز ڈرامے کو حقیقت کے انداز میں دیکھ لیا تو یوں نیویارک پہنچنے کے بعد یہ دو ایسے تجربے ہوئے کہ جو اچھے نہیں تھے لیکن چشم کشا تھے۔ آنکھیں کھولنے والے تھے، ان واقعات سے معلوم ہوا کہ نیو یارک دھن، دولت اور دھونس کی حکمرانی والا شہر ہے۔ لہٰذا اس شہر میں ہر اک قدم سنبھل سنبھل کر چلنا ہوگا۔ ’’بروک لین‘‘ کا علاقہ دیکھا تو ایسے لگا کہ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ سبزی، گوشت کی دکانیں، مٹھائی بنانے والے، سموسے اور پکوڑے تلنے والے، حجامت بنانے والے، کپڑے بیچنے والے، جوتے دکھانے والے (غلط مطلب نہ لیجیے گا کہ آج کل جوتے دکھانے سے ذہن سیاست دانوں کی طرف چلا جاتا ہے) میرا مطلب ہے کہ جوتوں کی دکانیں، آٹا، دالیں، اچار اور مصالحہ جات فروخت کرنے والے حج اور عمرہ پر لے جانے والے سب اپنے لوگ تھے اور خریداری کرنے والے اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے دکانوں میں جھانکنے والے اور کونے پر کھڑے ہوکر گپ شپ لگانے والے بھی اپنے ہی تھے بس یوں سمجھیے کہ نیو یارک میں ایک چھوٹا سا پاکستان تھا جسے امریکہ میں پیوند کاری سے جوڑ دیا گیا تھا جس فلیٹ کے سامنے ٹیکسی جاکر رکی، اس کے چوتھے فلور پر میرا ہونے والا میزبان چوہدری بنارس رہتا تھا جسے چوہدری محمد افضال کے ذریعے سے بلجیم سے فون کیا تھا اور اسے بتایا کہ نیویارک میں دو، تین ہفتوں کے لیے رہائش کا انتظام کردیں، بنارس کا دل بنارس شہر کی طرح وسیع و عریض تھا۔ اس نے کہا کہ کہیں اور کیوں؟ آپ ہمارے پاس رہیں گے اور ہمارے مہمان ہوں گے لہٰذا ہم چوہدری بنارس کے تین ہفتوں کیلئے مہمان ہوگئے۔ پہلے دو ہفتے مسلسل مہمان اور آخری آٹھ دس دن کیلئے وقفے وقفے کے مہمان، وہ یوں کہ آخری ہفتہ عشرہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں کے سفر میں گزرا لیکن کچھ یوں کہ ’’میں جہاں بھی گیا، لوٹا تو ترے پاس آیا۔‘‘ بنارس اور اس کے دو تین سا تھی یعنی اس کے فلیٹ میں رہنے والے محنت کش تھے۔ خون پسینے کی کمائی سے رزق حلال کما رہے تھے۔ وہ صبح سویرے نکل جاتے اور شام گئے واپس آتے۔ پہلے روز تو میں نے آرام کیا اور پھر جیسے ہی نیو یارک سے ذرا روشناس اور شناسا ہوا تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر نکل کھڑا ہوا۔ دل نے کہا۔ ’’اب باندھ کمر کیا دیکھتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔‘‘
نیو یارک اور امریکہ آنے کا مقصد سیرو تفریح نہیں تھی، مسجد العابدین برسلز کے لیے عطیات جمع کرنا تھا لیکن میں انفرادی طور پر کسی سے عطیات کی اپیل کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا تھا۔ لہٰذا چاہتا تھا کہ اجتماعی تقریب کی صورت حال پیدا ہوجائے تو کسی طرح کمیونٹی کو اس مسجد کے لیے عطیات کی شدید ضرورت سے آگاہ کیا جائے۔ بلجیم میں پاکستانی کمیونٹی اپنی بساط کے مطابق تعاون کررہی ہے۔ یورپ سے بھی لوگوں نے عطیات دئیے ہیں لیکن عمارت کی قیمت اور اس کے تعمیراتی اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس کے لیے امریکہ کے اہل دل سے تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میں کمیونٹی کو یہ پیغام دیناچاہتا تھا اور اس کے لیے کسی اجتماع کے انعقاد کی صورت گری نظر نہیں آرہی تھی۔ پھر ایک دن میں کسی کے بتانے پر ’’کشمیر ریسٹورنٹ‘‘ چلا گیا۔ وہاں جانا میرے مقصد کے لیے ’’سفر وسیلہ ظفر‘‘ بن گیا۔
تازہ ترین