محمّد بشیر جمعہ
پُرکشش شخصیت کے لیے گفتگو کا سلیقہ بہت ضروری ہے۔ ایسی گفتگو، جس سے آپ نہ صرف دوسروں کو متاثر کرسکیں، بلکہ لوگوں کے التفات اور توجّہ کا مرکزبھی بن جائیں۔ اکثر لوگ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ آپ نہ صرف ان کی باتوں میں شریک ہوں، بلکہ ان ہی کے مطلب کی باتیں بھی کریں۔ جب کہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو دوسروں سے باتیں کرنے کو ترستے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان سے بات کرے، خواہ وہ کسی بھی موضوع سے متعلق ہو۔ ماہرین نے فنِ گفتگو کے حوالے سے ایک تھیوری پیش کی ہے، جسے اگر اپنالیا جائے، تو بہت سی دقّتیں ختم ہوسکتی ہیں۔ تھیوری کے مطابق، ’’گفتگو کا مقصد باہمی الفت و ہم دردی اور آپس میں میل جول پیدا کرنا ہونا چاہیے۔‘‘ اب اگر لوگ اس تھیوری کے تحت ایک دوسرے سے بات چیت کریں، تو گفتگو میں کبھی رنجش اور ناخوش گواری پیدا نہیں ہوسکتی۔
ایک مشہور امریکی مدبّر، ایلس جے میکلانا ہان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں کبھی دوسروں کی باتوں کی نفی یا کاٹ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ان کی باتوں ہی پر اپنی گفتگو کی عمارت کھڑی کرنی چاہیے۔‘‘ذیل میں فنِ گفتگو سے متعلق چند اہم، ضروری باتیں اور تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جو آپ کی گفتگو میں نکھار پیدا کرکے آپ کونہ صرف توجّہ کامرکز بنادیں گی، بلکہ آپ کے گھر کے ماحول کی بہتری و نکھارمیں بھی بہت ممدومعاون ثابت ہوں گی۔
1۔ آپ جب بھی کہیںنئے لوگوں کی گفتگو میں شامل ہوں، تو فوراً کوئی نئی بات نہ چھیڑیں، بلکہ ان لوگوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لائیں۔ فوراً کوئی نئی بات چھیڑنے سے لوگوں کی گفتگو میں بے جا مداخلت ہوتی ہے اور کوئی بھی یہ بات پسند نہیں کرتا۔
2۔ اگر کسی محفل میں بہت سے افراد ہوں، تو سب سے مخاطب ہوکر بات کریں، صرف ایک شخص کی جانب متوجّہ نہ ہوں۔ اپنے چہرے اور نظروں کا رُخ بھی سب کی طرف پھیرتے رہیں۔
3۔ گفتگو میں گرم جوشی سے ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن کبھی بھی سب پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کریں۔ دوسروں کو بھی باتیں کرنے کا موقع دیں۔
4۔ گفتگو کے وقت کوئی اختلافی مسئلہ یا کوئی ایسی بات ہرگز نہ چھیڑیں، جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ کسی کے کاروبار یا پیشے پر تنقید نہ کریں، کیوں کہ اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔
5۔ گفتگو کرتے وقت کسی دوسرے شخص کے نجی مسائل چھیڑنے سے اجتناب برتیں۔
6۔کھری کھری باتیں کہنے اور خود کو بولڈ ثابت کرنے سے اجتناب کریں۔ بعض لوگوں کو یہ فخر ہوتا ہے کہ وہ کھری بات کرتے ہیں، لیکن ان کی کھری باتوں سے اکثرلوگوں کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں۔
7۔ کبھی کبھی بچّوں کو بھی اپنی بات چیت میں شامل کریں۔ بعض افراد بچّوں کو مطلق منہ لگانا پسند نہیں کرتے، حالاں کہ وہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے بات کرنےکے لیے بے قرار رہتے ہیں۔
8۔ لوگوں کے متعلق گفتگو کرنا بُرا نہیں ۔اگر غور کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ ہم سب ایک دوسرے کے حالات جان کر ہی تجربات اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ ڈراموں، قصّے کہانیوں ، داستانوں، آپ بیتیوں، ناولزا ورافسانوں میں بھی دوسروں کی زندگی کے حالات ہی دل چسپ انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔
9۔ دوسروں کے مشاغل پربات چیت سےبہت سی نئی معلومات حاصل ہو سکتی ہیںاور لو گ اپنے دل چسپ مشاغل کے بارے میں بات کرتے وقت بڑی خوشی بھی محسوس کرتے ہیں ۔
10۔ اگراپنی گفتگو میں ہلکا سا مزاح بھی شامل کرلیں، تو اس سے خشک اور غیر دل چسپ موضوعات بھی کسی قدرپُر لطف بن سکتے ہیں۔
11۔ دوسروں سے اپنی پریشانیوں اور مصائب ہی کا رونا مت روتے رہیں، ایسی باتیں صرف بہت قریبی دوستوں سے شیئر کریں۔
12۔ گفتگو کے دوران حسبِ ضرورت اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ ؐ بھی ہے کہ ’’اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
13۔ دورانِ گفتگو اگر کوئی ہنسی کا پہلو آجائے، تو پہلے ہنس لیں یا پھر بات کریں، دونوں کام ایک ساتھ نہ کریں۔
14۔ گفتگو کے دوران اپنے چہرےکے اُتار چڑھاؤ کا خاص خیال رکھیں۔
15۔ ہمیشہ صاف اور واضح آواز میں بات کریں۔تاہم، زیادہ اونچی آواز میں بولنے سے گریز کریں۔
16۔ لب ولہجے اوراندازِ تکلّم کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
17۔ بات چیت کرتے ہوئےاگر دانت صاف، چہرہ دھلا ہوا، بال سنورے ہوئے اور کپڑے صاف ستھرے ہوں، تو اس سے کثیر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
18۔ جس فرد سے گفتگو کی جارہی ہے، اگر وہ اپنا سرکھجانا شروع کردے یاپھر گھڑی یا ہاتھ کی کلائی کی طرف نظریں لے جائے، تویہ اس بات کی نشانی ہے کہ اب وہ بات ختم کردینی چاہیے۔
19۔ طویل گفتگو کے لیے پہلے سے وقت طے کرلیں۔
20۔ لوگوں کے متعلق شکایات ہوں، تو تحریر کرلیں۔ اور پھر سوچیں کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے، تو کیا انہیں بھی آپ سے ایسی ہی شکایات ہوتیں۔
21۔ ذہن میں آنے والی تجاویز کا فوراً اظہار نہ کریں۔
22۔ ہمیشہ اچھی رائے، عمدہ روش اور میانہ روی اختیارکریں۔
23۔ اپنی بات منوانے کے لیے، اپنے ہم جنس کے بائیں کاندھے پر ہاتھ رکھیں اور پھر گفتگو کریں، جب کہ مخالف جنس سے ہمیشہ ایک فاصلے پر رہ کر بات کریں۔
24۔ گفتگو کے دوران کسی تکیہ کلام کا استعمال ہرگزنہ کریں، بلکہ اس عادت سے جس قدر جلد چھٹکارا پالیں، تو بہتر ہے کہ اس کے باعث عموماً گفتگو مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔
25۔ گفتگو کو کہانی اور واقعاتی انداز میں پیش مت کریں۔ ایک ہی جملے میں کہنے والی بات کو طویل کرکے سامع کے دس پندرہ منٹ ضایع نہ کریں۔
26۔ اپنی گفتگو سے مقصد ضرور حاصل کیجیے۔
27۔ گفتگو میں تسلسل رکھیں۔ بعض افراد گفتگو کے دوران کافی حدتک سیّاحت کروادیتے ہیں۔ اس عادت سے احتراز کریں۔
28۔ معلوماتِ عامہ اور کامن سینس ضرور ہونی چاہیے۔
29۔ دوسرے کی بات کبھی کاٹیں نہیں۔ بہترین گفتگو کرنے والے کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ پہلے دوسرے کی بات بہ غور سُنتا ہے اور پھر ذہانت سےاس کا جواب دیتا ہے۔
30۔اپنے ہمیشہ غصّے پر قابو رکھیے۔ایسی صورت میں بیٹھ جائیں یا خاموش ہو جائیں۔
31۔ اخبارات کا مطالعہ ،عام ماحول میں گفتگو اور تبصرے کے لیے اچھا مواد فراہم کرتا ہے۔
32۔ افراد سے گفتگو میںہمیشہ اپنا یا اپنے اہلِ خانہ ہی کا دفاع مت کریں۔
33۔ گفتگو میں مخاطب کے ذہن، تہذیب اور علم کا لحاظ ضرور رکھیں۔
34۔ فضول اور بے موقع باتوں سے پرہیز کیجیے۔
35۔ اچھی بات کہیے، یا پھرچُپ رہیں۔
36۔ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔
37۔ آپ کےبیٹھنے اوراٹھ کر چلے جانے میں بھی ایک وقار ہونا چاہیے۔
38۔ بھلائی کی مدافعت احسن طور پر کریں۔
39۔ اگر لوگ گفتگو کے دوران یا کسی اور موقعے پر آپ کے ساتھ احسان کریں، تو ان کا شکریہ ادا کریں۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ’’جو لوگوں کا شُکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شُکر ادا نہیں کر سکتا۔‘‘
40۔ کسی کے ساتھ بازاری انداز میں لڑائی جھگڑا مت کریں، اگر چہ آپ حق ہی پرکیوں نہ ہوں۔
41۔ کثرت سے’’السلّام علیکم‘‘ کہیے۔اس سے عزت اور نیکیوں میں اضافہ ہوتاہے۔
42۔ خودپسندی اور اپنے اوصاف زیادہ بیان کرنے سے گریز کریں۔
43۔ لوگوں کے منہ پر ان کی تعریف نہ کریں۔
44۔ کسی کے ساتھ بد سلوکی نہ کریں۔ ہمیشہ شریفانہ اخلاق اختیار کریں۔
45۔ جب کسی ایسے شخص کو دیکھیں، جس پر آپ کو کسی بھی لحاظ سے فضیلت حاصل ہے، تو اللہ کی بہت تعریف کریں۔
46۔ کسی چیز کو دیکھ کر یا سُن کر بدفالی نہ کریں۔
47۔ کوئی ہم جنس مصافحہ کرے، تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پہلے نہ کھینچیں، یہاں تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ ہٹائے۔
48۔ جب کوئی شخص متوجّہ ہو کر بات کرے، تو اس سے مُنہ نہ پھیریں۔
49 ۔دَوِر جدید کی ایجادات کا بَھرپور استعمال سیکھیں اوران سے سہولت حاصل کرکے انہیں دعوتِ دین کا ذریعہ بنائیں۔
50۔ اپنے لیے یہ دُعائیں ضرور کریں’’اَللَّھُمَّ اَحْسَنْتَ خَلْقِی فَاَحْسنْ خُلُقِی ( اے اللہ! تو نے مجھے اچھےانداز سےپیدا کیا ا،ب تو میرے اخلاق بھی اچھے کردے)۔ اور ’’اَللَّھُمَّ اَغنِنِی بِالْعِلْمِ وَ زَیِّنِیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْویٰ وَ حَمِّلْنی بِالْعَافِیَہ (اے اللہ! تو مجھے علم کی دولت سے غنی کردے اور زینت دے مجھ کو بُردباری کے ساتھ، اور مجھے عزت دے تقویٰ کے ذریعے اور سجا دے مجھ کو صحت سے)۔