پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پانی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اسے درست استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔
واٹر ڈے کا آغاز
اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کیمطابق دنیا میں اس وقت سات ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050 تک بڑھ کرنوارب ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کی صورت حال
اقوامِ متحدہ کے ا عدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔ حالیہ رپورٹس میں تو پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہونے والے سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں نا صرف شامل کیا گیا بلکہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ساتھ دوسرا نمبر دیا گیا جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اورسنہ 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائیگا۔
خوراک کا دارومدار بھی پانی پر ہی ہوتاہے اس لیے پانی کیمزید ذخائر بنانیکی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ 1976 کے بعد سے پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔
پاکستان اور غیر معیاری پینے کا پانی
پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی ملتا ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد پانی ہسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں پانی کے حوالے سے مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان میں 85فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
صاف پانی نہ ہونے اور نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پاکستان میں ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوںسے جاں بحق ہوتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جولائی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے
پاک بھارت آبی مذاکرات
آبی تنازع پر پاکستان نے بھارت سے مذاکرات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے‘ بھارت نے مایارپن بجلی منصوبہ کے ڈیزائن میں تبدیلی کی یقین دہانی کرادی جبکہ لوئر کلنانی اور پکل دل کے منصوبوں کا بھی دوبارہ مشاہدہ کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اسلام آباد میں ہونے والے انڈس واٹر کمشنرز کے دوروزہ اجلاس میں بھارتی واٹر کمشنر پی کے سکسینا نے بھارتی وفد کی قیادت کی جبکہ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ مرزا نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
مذاکرات کے دوسرے روز پاکستانی موقف کے سامنے بھارتی خاموش ہوگئے، پاکستان کی جانب سے مایار ڈیم پر اعتراضات اٹھائے گئے، پاکستان نے بتایا کہ ایک سو بیس میگاواٹ کے مایار ڈیم کا ڈیزائن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی مؤقف پر بھارت نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی درخواست پر ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کیا جائے گا۔
انڈس واٹر ٹریٹی کمشنر نے بتایا کہ لوئر کلنائی اور پاکل دل پن بجلی منصوبوں پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی، اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت سے آرٹیکل اڑتالیس کے تحت بگلیہار اور سلار کا ڈیٹا بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے 2012 میں 120میگاوٹ کے مایار پن بجلی منصوبہ کا ڈیزائن پاکستان کو دیا تھا۔
سندھ میں پانی کی قلت
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں آئندہ ہفتے میں پانی کا بحران شدت اختیار کرجائے گا۔ کوٹری بیراج جو کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے چھ اضلاع کو پانی فراہم کرتا ہے‘وہاں پانی کا بہائو محض ایک ہزار کیوسک فٹ رہ جائے گا جو کہ سن 2005 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔
پانی کے استعمال کرنے کے طریقے
پاکستان کی وزارت بجلی و پانی و توانائی اس وقت پانی کو ذخیرہ کرنے اور کم سے کم استعمال کے جدید طریقوں کو متعارف و اپنایا جائے۔ جس میں ہینڈ پمپ اور چھڑکائو کے جدید طریقے جس میں کم سے کم پانی استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ گھروں میں غیر ضروری زائع ہونے والا پانی کم سے کم کیا جائے اور گاڑیاں دھونے کی بجائے ڈرائی کلین کی جائیں جس سے گاڑی ایک تو زنگ نہیں پکڑے گی اور دوسرا اس کا رنگ نہیں اُڑے گا۔
اس طرح کے کئی اور طریقوں پر بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل سے مقبول ہونے والی ڈرپ واٹر سسٹم کو بھی پاکستان میں متعارف کروائے جانے کا سوچا جارہا ہے اور نہری نظام کو بھی پختہ کیا جارہا ہے تاکہ پانی نہ رسے۔