• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روس کا سفارتی بحران

کچھ عرصے سے جاری روس کے سفارتی بحران نے اب سنگین صورت اختیار کر لی ہے اورتاحال سو سے زاید روسی سفارتی اہل کاروں کو دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے ان کی سرزمین چھوڑدینے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔اس بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانیہ میں ایک سابق روسی جاسوس کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس کے بعدسے نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں روس کے سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا جاچکاہے ۔سب سے ز یا دہ غیر معمولی ردعمل امریکا نے دکھایا ہے جس نے ساٹھ روسی سفارتی اہل کاروں کو امریکا بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اب تک بیس سے زیادہ ممالک روس کے سفارتی عملے کو ملک سے نکل جانے کے احکامات جاری کر چکے ہیں ۔ کوئی ربع صدی پہلے سرد جنگ کے خاتمے کے بعدسے اب تک یہ روسی سفارتی اہل کاروںکےخلاف یہ سب سے بڑی کارروائی ہے۔

امریکا نے جن ساٹھ سفارتی اہل کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان میں سے اڑتالیس واشنگٹن میں قائم روسی سفارت خانے کے اہل کار ہیں اورباقی نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں مختلف عہد و ں پر فائز ہیں۔

اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب چند ہفتے قبل بر طانیہ میں سیلسبری کے شہر میں سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کا الزام برطانیہ نے روس پر لگایا تھا اور اس کے تیس سفارتی عملے کو برطانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے جواب میں روس نے بھی اتنی ہی تعداد میں برطانوی سفارتی عملے کو روس سے نکل جانے کا حکم دیاتھا۔ 

اب اس فہرست میں دیگر ممالک بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں اور روسی سفارتی عملہ دھڑا دھڑ ملک بدرکیا جارہا ہے۔تاہم امریکا کی جانب سے ساٹھ روسی سفارتی اہل کا روں کا نکالا جانا بہت بڑا قدم ہے جس کے بہت دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکا چین سے بھی تجارتی جنگ کے درپے ہے۔

امریکا اور روس کے حالیہ تعلقات پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ 2016میں امریکا میں ہونے والے صد ا ر تی انتخاب سے قبل روس نے کھل کر ٹرمپ کی حما یت کی تھی اورہلیری کلنٹن کو ہرانے کے لیے امریکا میں جو ای میلز استعمال کی گئیں وہ مبینہ طور پر روس ہی نے ہیک کرکے جا ری کی تھیں۔جس پر امریکا کے جاسوسی کے اداروں نے ہلیری کے خلاف تحقیقات شروع کر دی تھیں جس سے ان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتھا۔

ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ٹرمپ مخالف لابی نے یہ الزامات لگانے شروع کر دیے تھے کہ ان کی جیت میں روس کی مدد شامل رہی ہے۔ پھر خود ٹرمپ بھی پوٹن کی حمایت میں بیا نا ت دیتے اور انہیںزبردست ،طاقت ور اور بہترین رہ نما قرار دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا اور روس کے تعلقات اب بہتر ہو جائیں گے۔مگر امریکی انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔لہذا اس نے روس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا اور مختلف محاذوں پر روس کوپس پا کرنے کی بھی تیاری کی۔

روس کے خلاف امریکا کی اس سخت کارروائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹرمپ کو خود اپنے ملک میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ایک تو گن کنٹرول کے بارے میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور مطالبہ کیاجا رہا ہے کہ امریکا میں عام شہریوں کے اسلحہ خریدنے پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ 

پھر ٹرمپ کی چین کے ساتھ سفارتی جنگ نے بھی خراب صورت اختیار کر لی ہے۔ ٹرمپ چینی مصنوعات پر پابندی لگا کر اپنی صنعتوں کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔

یہاں ایک سوال یہ ہے کہ خود برطانیہ صرف ایک رو سی ڈبل ایجنٹ کو مبینہ طور پر زہر دیے جانے کا الزام روس پر لگا کر دو درجن کے قریب روسی سفارتی اہل کاروں کو ملک بدر کرنے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے،حالاں کہ ابھی یہ ثابت نہیں ہواہے کہ یہ قدم روس نے اٹھایا تھا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزامے چوں کہ خود ٹرمپ کی طرح مختلف بحرانوںکا شکار ہیں اس لیے وہ بھی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کر رہی ہیں۔برطانیہ میں کسی جاسوس کو ز ہر دیا جانا کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا۔ 

اس طرح کے بے شمار واقعات ماضی میں ہو چکے ہیںجن میں الزامات کی فہرست میں اسرائیل بہت اوپر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی میں تین سو سے زیادہ ایسے وا قعات ہوئے جن میں کسی ملک نے دوسرے میں کا ر ر و ائی کرکے اپنے مخالفین کو نشانہ بنایا۔معروف جریدے دی اکنامسٹ کی حالیہ اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ صرف اسرائیل نے دنیا بھر میں ڈھائی ہزار سے زیادہ ایسی کارروائیاں کیںجن میں مختلف مما لک میں مقیم اسرائیل کے مخالفوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں بڑی تعداد فلسطینیوں کی تھی۔ مگر کسی مغربی ملک نے اسرائیل کے خلاف سفارتی کارروائی نہیں کی۔

برطانیہ کے بعد روسی سفارتی عملے کی سب سے بڑی تعداد یوکرین سے نکالی گئی،جہاں سے تیرہ روسی اہل کار بے دخل کیےگئے۔یوکرین، جوکبھی روسی سلطنت کا حصہ تھااور سوویت یونین کے زمانے میں بھی روس کے بہت قریب تھا، اب اچانک مغربی ممالک کے زیر اثر روس کے خلاف تن کر کھڑا ہو گیا ہے۔

چند سال قبل تک یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے کہ روس اور یوکرین میں باقاعدہ جنگ چھڑ جائے گی۔روس نے یوکرین پر حملہ کر کے جب کر یمیا کے علاقوں پر قبضہ کیا تو اس کا یوکرین میں شدید رد عمل ہوا تھا اوریوکرین کے عوام روس کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے تھے۔ ایسے میں روس نے یوکرین کو گیس کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی جس سے وہاں روس مخالف جذبات اور بھڑک گئے تھے۔

یوکرین روس کے مغربی پڑوس میں واقع ملک ہے جس کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔اس ملک کی اقتصادی حالت یورپ کے لحاظ سے خاصی خراب ہے اور وہاںبڑی تعداد میں عوام غربت کی زندگی بسر کر ر ہے ہیں۔

یوکرین اس کوشش میں ہے کہ وہ یورپی ممالک کے قریب ہو کر یورپی یونین میں شامل ہو جائے، مگر خود یو کرین میں جمہوریت کی کمی اور بڑے پیمانےپر بد عنو ا نیو ںکے باعث یورپی یونین ابھی یوکرین کو یونین میں شا مل کرنے کو تیار نہیں ہے۔

حالیہ اقدام سے یوکرین نے بر طا نیہ اور دیگر یورپی ممالک کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ روس کے خلاف مغرب کے ساتھ کھڑا ہے اور اب اسے اس کا صلہ ملنا چاہیے۔یعنی اسےبھاری مالی امداد دی جانی چاہیے۔

تازہ ترین