• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خارجہ تعلقات میں بہتری کی ہماری کوشش

یوم پاکستان پر منعقد ہ پریڈ میں متحدہ عرب امارات کی فوج کے دستے کی شرکت نے یہ واضح کر دیاہے کہ متحد ہ عرب امارات میں بھی یہ تصور موجود ہے کہ پاکستان سے ناخوش گوار تعلقات کا تاثر قائم رہنا ان کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ 

اس لیے ایسے علامتی اقدامات ضرورکرنے چاہییں جن سے یہ محسوس ہو کہ تعلقات بہتری کی جانب گا م زن ہیں۔ یہ معاملہ صرف متحدہ عرب امارات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عرب دنیا کے کئی ممالک کےساتھ پا کستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ 

اس نئے دورکے آغاز کی وجوہات میںجہاں عرب ممالک میں مو جود مختلف سیاسی لہریں ہیں وہیں پاکستان کی خا ر جہ حکمت عملی میں نئی سمت کا واضح تعین بھی ایک اہم عنصر ہے ۔

یہ نکتہ سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان اور ایران کے تعلقا ت کی تاریخ پر نظر ڈالنا ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعد سے انقلابِ ایران تک پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت گہرے رہے۔ مگر انقلاب کے بعد تعلقات اس نہج پر بر قرار نہ رہ سکے۔ 

اس کی بڑی واضح وجہ یہ تھی کہ انقلاب سے قبل ایران کی خارجہ پالیسی کا بھی واضح جھکائو امریکاکی جانب تھا۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی امریکاکو بنیا دی اہمیت حاصل تھی۔ مگر انقلاب کے بعد ایران کے تعلقات امریکا سے خراب ہو گئے اور عالمی تناظرمیں پا کستان اور ایران ایک کشتی میں سوار نہیں رہے۔چناں چہ دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت پر اثر پڑا۔ بالکل اسی طرح اب عرب ممالک اورپاکستان کےدرمیان تعلقا ت کی نوعیت میں فرق نظر آ رہا ہے۔ سی پیک کے بعد پا کستان کی ترجیحات میں تبدیلی آگئی ہے، مگر عرب دنیا و ہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ 

لہٰذا معاملات کو دیکھنے کے لیے چشمے تبدیل ہو گئے ہیں۔ پھر پاکستان کو ایک اور مصیبت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پہلے تو کشیدگی صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تھی اورپاکستان اپنے تعلقا ت میں دونوں ممالک کے لیے توازن قائم رکھنے کی کو شش کر رہا تھا، مگر اب سعودی عرب کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ بلکہ قطر کے معاملے میں تو حالات بہ راہ راست کشیدگی تک پہنچ گئے۔

پاکستان کے لیے مشکل یہ ہے کہ اس کے تعلقات خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک سے ہیں اور وہ کسی ایک ملک کی وجہ سے دوسروںسے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا۔ مگر عرب ممالک میں کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے وہاں محاذ آرائی کی کیفیت جلد ختم ہونے کا بہ ظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ علاقائی مفادات، عربوں میں اپنی قومیت پر مبنی سوچ ، عرب بہار سے اٹھتی سیاسی لہریں، عرب رہنمائوں کی قیادت اور بالا دستی کے ضمن میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں وہ و جو ہات ہیں جن کے سبب وہاں غیر یقینی کی کیفیت بہ دستور مو جود ہے۔ اور پاکستان کی ان معاملات سے لا تعلقی ا نہیںایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ 

متحدہ عرب امارات سے تو بدمزگی اس قت سے ہے جب پاکستان نے ایکسپو 2020کے انعقاد کے لیے اپنا ووٹ عرب امارات کے بجائے ترکی کے حق میں استعمال کیاتھا۔ ترکی سے بھی پا کستان کےدیرینہ تعلقات ہیں ،اسی وجہ سے پاکستان نےدومیںسے ایک دوست کا انتخاب کیا۔ مگردوسرا دو ست ناراض ہو گیا۔ یہ ناراضی اس وقت بہت بڑھ گئی جب پاکستان نے یمن کی جنگ میں کودنے سے انکار کر دیا۔

پاکستان اب تک افغانستان کے عوام کی سرخ خطر ے کے خلاف مدد کرنے کی قیمت چکا رہا ہے۔ لہذا پا کستان کے لیےیہ ممکن نہیں تھا کہ وہ یمن کی آگ میں اپنے آپ کو جھلسا لے۔ لیکن ہماری مجبوریوں کو سمجھا نہیں گیااور متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر کی جانب سے پا کستا ن کےبارے میںغیر ذمے دارانہ بیان سامنے آ گیا۔ معاملہ صرف غیر ذمے دارانہ بیان تک ہی نہیں رہا بلکہ پاکستان کو اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف مشکوک دستاویزات بھی مہیا کی گئیں۔

اس سب کے باوجود پا کستا ن اشتعال میں نہیں آیا۔نئے وزیر اعظم اور فوج کے سر بر اہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات بہتر رکھنے اور کرنے کی غرض سے ان ممالک کے دورے کیے۔ اس کے ساتھ قطر ،ایران وغیرہ کو بھی فراموش نہیں کیا گیا۔بلکہ ایک موقعےپر پاکستان نےقطر اور سعودی عرب میں کشیدگی ختم کرانے کی کوشش بھی کی جوبار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے شام کے معاملے میں بھی غیر جانب داری کا ثبوت دیاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ عرب دنیا میں موجود غیر یقینی حالات کا سبب یہ ڈاکٹرائن ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے لیے عربوں کو کم زور رکھنا ضر و ر ی ہے۔ صدام حسین کے دور میں عراق کو ادویات کی فراہمی پر بھی پابندی عاید تھی۔ وہاںبچوں کی بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی تھیں۔ اس موقعے پر ایک صحافی نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ سے بچوں کی اموات کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ Hard Choice half a Million Children's death, No issue" ۔

اس جوا ب سے ان کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جن پر تکیہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلقات معمول پر رکھنے کے لیے عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہنا چاہیے۔ ہمارے رہنماوں کاحالیہ دورہ عمان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سعودی عرب میں تربیتی مقاصد کے لیے فوجی دستہ بھیجنے سے بھی اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم برادرانہ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین