پہلا حصہ
تخلیق ِحضرت آدمؑ کے بعد اللہ نے امّاں حوّا کو پیدا کیا اور پھر ان کی رفاقت سے نسل ِانسانی کی ابتدا ہوئی،جس سے پھر مختلف رشتے، یعنی ماں باپ، بہن بھائی، نانا نانی، دادا دادی، خالہ خالو، ماموں ممانی، چاچا چاچی سمیت درجہ بہ درجہ تمام رشتے وجود میں آئے۔
یہ وہ خوب صورت اور حسین رشتے ہیں کہ جن کا احساس ہی انسانوں کو ان کی محبت سے سرشار کردیتا ہے۔ ان ہی رشتوں سے خاندانوں کی تشکیل ہوئی۔ خاندانوں سے معاشرہ ظہور پزیر ہوا اور یوں بستیاں، شہر اور ملک آباد ہوتے چلے گئے۔
پھر اللہ نے ان کے درمیان آپس میں محبت، پیار اور خلوص کا تعلّق قائم رکھنے کے لیے سب کے حقوق و فرائض متعیّن فرمادیئے۔ سرورِ کونین، رسولِ ثقلین، خاتم النبیّین، رحمتِ دوجہاں، سرورِ کائنات، حضور نبی کریم ﷺ جب مسندِ رسالتؐ پر فائز ہوئے، تو آپ نے رشتوں کے تقدّس و احترام پر خصوصی توجّہ فرماتے ہوئے اللہ کے حکم سے مختلف احکامات نافذ فرمائے اور ان پر کاربند رہنے کی سختی سے تنبیہ بھی فرمائی۔
رشتے داروں سے مراد وہ اعزّہ ہیں، جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلّق ہوتا ہے، چاہے انہیں ترکے میں حصّہ ملے یا نہ ملے۔ اسلام نے رشتوں کو معزز واعلیٰ مقام عطا فرماکر ان کی اہمیت و عظمت کو احترام کی ان بلندیوں پر پہنچایا کہ کوئی مذہب، نظریہ اور تہذیب پہنچنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔ مثلاً باپ کے بھائیوں کو باپ کا درجہ، ماں کی بہنوں کو ماں کا درجہ دے کر انہیں عظمت و توقیر کی معراج تک پہنچادیا۔ رشتے داری کو ’’صلۂ رحمی‘‘ کے نام سے تعبیر کیا اور اہلِ قرابت کے ساتھ اچھے تعلّقات رکھنے، ان کی عزت و احترام کو باعثِ ثواب و نیکی قرار دیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’رشتے داری رحمان کی شاخ ہے، پس، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو تجھے جوڑے گا، میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا، میں اس سے کٹ جائوں گا۔‘‘(صحیح بخاری) قرآن کریم میں بہت سی آیات مبارکہ ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کے مقام و اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعلّقات جوڑنے، اچھا برتائو کرنے اور صلۂ رحمی کرنے کے احکامات فرمائے ہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کو (خرچ میں مدد) دینے کا۔‘‘
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے، جس سے میں جنّت میں داخل ہوجائوں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)
رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنی عبادت اور والدین کی خدمت کے بعد رشتے داروں سے حسنِ سلوک بے حد پسند ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور تم اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتے داروں، ہم سایوں اور اجنبی ہم سایوں، پہلو کے ساتھی، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں (نوکر، ملازم) سب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو۔ اللہ تکبّر اور بڑائی جتانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورۃ النساء) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ نے درجہ بہ درجہ معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرماتے ہوئے رشتے داروں اور قرابت داروں کا درجہ والدین کے فوراً بعد رکھا ہے اور پھر اسی مناسبت سے دیگر لوگوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا معاملہ کرنے کے احکامات فرمائے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں ’’میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہو، اسے چاہیے کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ صرف آخرت میں اجروثواب اور جنّت کے حصول کا باعث ہے، بلکہ دنیاوی فوائد یعنی رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافے کا سبب بھی ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے نبیؐ!آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔‘‘ (البقرہ) اسی آیت میں اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے ’’صرف چند لوگوں کے علاوہ باقی سب نے ان احکامات سے منہ موڑ لیا اور اس پر عمل پیرا نہ ہوئے، لہٰذا اللہ نے ایسی بہت سی قوموں پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔‘‘
رشتے داروں سے قطع تعلقی: قرآنِ کریم کی سورۃ النساء میں اللہ فرماتا ہے ’’لوگو!اس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتے داروں، قرابت داروں سے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔‘‘ (سورۃ النساء) نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں ہوتی، جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والا موجود ہو۔‘‘ (الادب المفرد)۔ آج ذرا ذرا سی بات پر سگے بہن، بھائیوں، یہاں تک کہ ماں باپ کے ساتھ بھی قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔
ذاتی اَنا، تکبّر اور غلط فہمیوں نے اچھے اچھے گھرانوں کو قطع رحمی میں مبتلا کر رکھا ہے، جب کہ خوفِ خدا رکھنے والا مسلمان اس کے ارتکاب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ’’قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں، جو اس لائق ہو کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو اللہ آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دے۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ) جبیربن مطعمؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ’’رسولؐ اللہ نے فرمایا، رشتے داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی) رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی بدقسمتی، بدبختی اور محرومی کے لیے نبی کریمؐ کی یہ حدیثِ مبارکہ ؐ ہی کافی ہے۔ مسندِاحمد میں روایت ہے ’’انسانوں کے اعمال ہرجمعرات کوپیش کیے جاتے ہیں، مگر قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔‘‘
رشتے داروں سے تعلق قائم رکھو: قرآن کریم کی سورۃ الّروم میں اللہ حکم دیتا ہے کہ ’’تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے کچھ رشتے دار ہیں، جن سے میں تعلق قائم کرتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ لاتعلقی کا رویّہ رکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کی خطائوں کو درگزر اوربرداشت کرتا ہوں، مگروہ جہالت پر اتر آتے ہیں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا’’اگر یہی بات ہے، جو تم نے بیان کی ہے، تو گویا تم نے ان کے چہروں کو خاک آلود کردیا اور جب تک تم اس طریقۂ کار پر کاربند رہو گے، اللہ تمہاری برابر مدد فرماتا رہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) ترمذی کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا’’تم ان لوگوں میں سے نہ بنو، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے، تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر زیادتی کریں گے،تو ہم بھی زیادتی کریں گے، بلکہ اس کے برعکس، تم اس بات کے عادی بنو کہ لوگ تمہارے ساتھ برائی کریں، تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ زیادتی کریں، تو تم زیادتی نہ کرو۔‘‘ (ترمذی) ایک اور موقعے پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’قطع تعلق کرنے والوں سے صلۂ رحمی کر، محروم کرنے والے کو عطا کر اور جس نے تجھے گالیاں دیں، ان سے درگزر کر۔‘‘ (طبرانی) ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جو مسلمان، لوگوں کےساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف برداشت کرتا ہے، وہ اس شخص سے کہیں بہتر ہے، جو لوگوں سے الگ تھلگ کٹ کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر برداشتۂ خاطر ہوتا ہے۔‘‘ یادرکھیے! نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’اپنے بھائی کے لیےمسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ آج کے اس مادہ پرست دور میں رشتے داروں، عزیزوں اور قرابت داروں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بڑے حوصلے، حکمت، عفودرگزر اور صبرو تحمّل کی ضرورت ہے۔
ورنہ عدم برداشت اور غلط فہمیوں نے تعلقات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ ذرا سی بدگمانی یا ذرا سی ٹھیس، رشتوں کے ان نازک آب گینوں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیتی ہے اور خون کے رشتوں میں اتنی دوری پیدا ہوجاتی ہے کہ اکثرلوگ قرابت داروں کے سفرِ آخرت میں بھی شرکت نہیں کرتے۔
بعض اوقات آپس کی غلط فہمیاں، سگے رشتوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا سبب بن جاتی ہیں، اور اس کے بعد بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ ’’اب اس سے میرا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم۔‘‘ حالاں کہ اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ غیرارادی طور پر ہونے والی کوئی حرکت، بے خیالی میں نکلنے والا کوئی جملہ اور اپنوں ہی کی لگائی بجھائی، تعلقات کی اس خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، آپس میں صلح صفائی اور غلطی پر معافی مانگنا، بڑائی کی علامت اورباعثِ ثواب ہے ۔
( جاری ہے)
lاللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کا ۔(سورۃ النحل)
lاللہ کی خوش نودی چاہتے ہو، تو رشتے داروں کو ان کا حق دیتے رہو۔(سورۃ الروم)
lسچّے اور اللہ سے ڈرنے والے اپنے مال سے محبت کے باوجود اسے اپنے رشتے داروں پر خرچ کرتےہیں۔ (سورۃ البقرہ)
lاللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔ (سورۃ البقرہ)
lاپنے مال کو اپنے والدین، رشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (سورۃ البقرہ)
lرشتے داروں سے تعلقات توڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (سورۃ النساء)
l(اللہ کی جانب سے) مقرر کردہ حصّوں کے مطابق، وراثت میں سے رشتے داروں کو ان کا حصّہ دو۔ (سورۃ النساء)
lاگر میراث کی تقسیم کےوقت (غیروارث) رشتے دار، یتیم اور مسکین آجائیں، تو انہیں بھی کچھ دو۔ (سورۃ النساء)
lماں باپ، قرابت داروں، ہم سایوں اور غریب غربا کے ساتھ احسان کرو۔ (سورۃ النساء)
lرشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔ (سورہ بنی اسرائیل)
l’’اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ (سورئہ شوریٰ)
lتم سے بعید نہیں کہ اگر تم حاکم بن جائو، تو زمین پر فساد پیدا کرو اور رشتہ ناتے توڑ ڈالو، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے۔ (سورئہ محمد)
l(ناراض ہونے پر) صاحبِ ثروت اپنے رشتے داروں، مسکینوں اور مہاجروں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں، بلکہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورئہ نور )
lتم (اس وقت تک) نیکی حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اپنی عزیز چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
(سورئہ آلِ عمران)