یہ تو ہر کسی کو علم ہے کہ عمارتی لکڑی الگ ہوتی ہے اور یہ لکڑی مختلف درختوں سے حاصل ہوتی ہے جو لکڑی عمارات میں استعمال رہتی ہے۔ اس کی دوا قسام ہوتی ہیں، اس میں سے ایک قسم کی لمبائی کے رُخ زیادہ بڑھتی ہے جیسا کہ بانس کا درخت ہے دوسرے قسم کے درخت لمبائی کے ساتھ ساتھ چوڑائی کی طرف بھی پھیلتے ہیں اس کے علاوہ دیوار، کیل، چیڑ اور شیشم وغیرہ مقبول اور قابل ذکر ہیں۔
لکڑی سے مزین گھر پہلے لکڑی کا معائنہ ضروری
گھروں کو لکڑی سے آراستہ کرنا گھر کی جمالیات کو بڑھاتا ہے۔ لیکن لکڑی سے گھر تعمیر کرنے میں بہت سارے عوامل کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ بعض لوگ رنگ دیواروں پر اس طرح کرتے ہیں کہ پینٹ کرنے والا اسے ہنر مندی سے بالکل لکڑی کا سامان بنا دیتا ہے اور لوگ ہاتھ لگا پوچھتے ہیں کہ یہاں کون سی لکڑی استعمال کی گئی ہے، یہ ایک سستا طریقہ ہے اس سے بہت سے قباحتوں سے انسان بچ جاتا ہے اور اس کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے درخت کو گرانے کے بعد اس کی چرائی کی جاتی ہے اس کے بعد اسے خشک کیا جاتا ہے اور اس میں سے سیپ خارج کی جاتی ہے تب وہ لکڑی گھر بنانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
مصنوعی لکڑی کا استعمال کیسے؟
عصر حاضر میں لکڑی کا نعم البدل بھی دریافت کر لیا گیا ہے۔ جس طرح چمڑے کا نعم البدل ریگزین دریافت کر لی گئی ہے اسی طرح لکڑی کے مصنوعی نعم البدل مختلف اشکال میں سامنے آئے ہیں مثلاً (i)۔ پلائی ووڈ (ii)۔ ہارڈ بورڈ اور فائبر بورڈ قابل ذکر ہیں دروازے اور کھڑکیاں لکڑی سے بنائی جاتی ہیں۔ لیکن آج کل ان کے بھی نعم البدل مارکیٹ میں آگئے ہیں۔
ٹیک وڈ اور دیمک
ٹیک کی لکڑی دُنیا کی شاندار ترین لکڑیوں میں سے ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں جتنی لکڑیاں بھی عمارتوں میں لگائی جاتی ہیں یا بلڈنگ یا بنگلہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں دیمک کنٹرول کا پروسیس شامل ہوتا ہے اور یہ بھی عارضی ہوتا ہے، اس لئے فیکٹری یا بنگلہ کی تعمیر کی جائے تو دیمک کنٹرول کے ماہرین کی رائے ہے کہ گھروں کی بنیادوں میں دیمک کو ختم کرنے کا پروسیس کروا لیا جائے تو بہتر ہے ترقی یافتہ ملکوں میں ایک زمانے میں بلڈرز یا مالک مکان کو دیمک ختم کرنے کے پروسیس کی سارٹیفکیشن لینی ہوتی ہے۔
تاہم جدید دنیا میں فائبر اور مختلف جدید ٹیکنالوجیز سے مکان بنائے جاتے ہیں، جو زلزلہ کم پروف بھی ہوتے ہیں اور اُن کے لئے بنیادیں نہیں کھودنی پڑتیں لیکن تیسری دنیا میں ابھی تک سالہا سال سے جس طرح تعمیرات کی جاتی ہے ویسے ہی کی جاتی ہے ٹیک وڈ ایک ایسی لکڑی ہے جسے دیمک بھی نقصان میں پہنچا سکتی حالانکہ دیمک عام بلاکس جس سے کراچی میں گھر بنائے جاتے ہیں۔ اسے بھی کاٹ لیتی ہے۔ لیکن ٹیک وڈ بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔
لکڑی کی ساخت کو عمارتی لکڑی تبدیل کیا جاتا ہے
دیکھنے میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درخت گو گرایا جاتا ہے اور اسے تراش کر لکڑی بنادی جاتی ہے تمام تر درختوں کی لکڑی میں گودا ہوتا ہے اور گودا اس کے مرکزی حصے میں ہوتا ہے اس گودے کو سکھایا جاتا ہے اور اگر درخت پرانا ہو تو یہ گودا خود ہی سوکھ جاتا ہے درخت جتنا پرانا ہو جائے پختہ لکڑی کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ لکڑی میں بیرونی کچی لکڑی ہوتی ہے، اس کی مضبوطی کم رہتی ہے اور دیمک اسے ختم کر دیتی ہے اس لئے جو بنگلہ بناتے ہیں انہیں لکڑی کی اقسام اور اس کی صفات کا علم ہونا چاہئے لکڑی کی کٹائی کا طریقہ بھی ہوتا ہے لیکن آج کی دنیا میں ماحولیات کے ماہرین درخت کاٹنے سے منع کرتے ہیں۔
درختوں کی زندگی اور انسانی بہتر زندگی لازم و ملزوم ہے لیکن دنیا میں مختلف کاموں میں لکڑی استعمال ہوتی ہے۔ پیرس میں عالمی طاقتوں اور تیسری دنیا کا ایک معاہدہ بھی ہوا ہے، جس کے تحت کاربن کو ختم کرنے کے اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ درخت کاٹنے سے آکسیجن کم ہو جاتی ہے اور کاربن بڑھ جاتا ہے اسی لئے لوگ آج کل گھروں کے اردگرد درختوں کے جھنڈ اُگا لیتے ہیں تاکہ فضائی اور ٹرانسپورٹ کی آلودگی سے بچا جا سکے۔
عمارتی لکڑی کا گھروں میں استعمال اور درختوں کی عمر کا پیمانہ
یہ تو ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ گھروں اور دیگر استعمال جس میں فرنیچر بھی شامل ہے لکڑی سے کام نہ لیا جائے۔ اس کے نعم البدل کو کام میں لایا جائے لیکن لکڑی کی اپنی خوبصورتی رہتی ہے یہ بھی ماہرین کہتے ہیں کہ درختوں کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے، اس کے بعد ان کو کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔ مختلف درختوں کی عمر مختلف ہوتی ہے، بعض درختوں کی عمر 5سال ہوتی ہے جیسا کہ ’’سرس‘‘ کا درخت بعض کی 20سے 25سال جیسا کہ نم اور شیشم وغیرہ کا درخت اور بعض درختوں کی عمر 200 سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے، جیسے ساگوان کا درخت ہے جب کوئی درخت اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی نشو و نما کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔
پتوں کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے اور پتوں کا سائز بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس لئے درخت عمارت یا فرنیچر کے لئے اس وقت کاٹے جائیں جب وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ جائیں یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ درختوں کو کم تعداد میں کاٹا جائے اور زیادہ تعداد میں لگایا جائے۔ کیونکہ دنیا میں جس طرح کی ترقی ہو رہی ہے اس سے دنیا میں مختلف کیمیائی مادے بڑھ رہے ہیں فیکٹریوں کا فضلہ اور دھواں انسان کیلئے دشمن جان ہے، اس لئے آج کل گھر بنائے جاتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ چاروں طرف سبزہ اُگایا جائے۔
ماہرین کے مطابق کسی ملک میں جنگل 25 فیصد ہونا چاہئے پاکستان میں3فیصد سے بھی کم ہے فرنیچر اور عمارتی لکڑی بنانے والے غیر قانونی طور پر بھی لکڑی کاٹتے ہیں۔ جن کو ٹمپر مافیا کہا جاتا ہے اس کے لئے محکمہ جنگلات کے لوگ کام کرتے ہیں، لیکن اب زیادہ گھروں کو نعم البدل مصنوعی لکڑی کو کام میں لایا جاتا ہے اس کے باوجود عمارتی لکڑی کے بغیر خوبصورتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اس لئے عمارتی لکڑی کے لئے درختوں کو بعض اوقات بےدریغ کاٹا جاتا ہے جو غیر قانونی ہے ۔
عمارتی لکڑی کی سیزننگ
درخت جب بھی کاٹا جاتا ہے تو اس میں کافی مقدار میں نمی ہوتی ہے۔ لکڑی میں نمی سیپ کی شکل میں ہوتی ہے، اگر مناسب طریقے سے اس نمی کو لکڑی سے خارج نہ کیا جائے تو لکڑی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ نمی کو نکالنے کے عمل کو خشک کرنا ہی سیزننگ کہلاتا ہے۔
سیزننگ کےفائدے
عمارتی لکڑی کوو سیزننگ کرنے کے بعد لکڑی مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے، سیزننگ سے لکڑی میں سکڑائو کا عمل ختم ہو جاتا ہے جس طرح کپڑے پہلے دھو دیا جائے تو پھر وہ شرنگ نہیں ہوتا۔ البتہ سیزننگ سے لکڑی ہلکی ہو جاتی ہے، جس سے بار برداری آسان ہو جاتی ہے۔ سیزننگ سے لکڑی محفوظ ہو کر زیادہ مؤثر ہو جاتی ہے ان عوامل کے بارے میں بلڈرز وغیرہ آشنا ہوتے ہیں۔ بلڈرز کار پینٹر سے گھروں میں لکڑی کا استعمال کراتے ہیں۔