• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ زمانہ ہے ایک حکومت کے تمام ہونے، نگراں حکومت، الیکشن اور پھر ’’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ ہوائی فائرنگ، دیگوں میں منہ ڈال کے کھانا، سارے میڈیا ہائوسز میں ہر بندے بلکہ ایک وقت میں تین، تین بندوں کی تقاریر ٹیلی کاسٹ کرنا پھر ان موضوعات پر بحث کرنا، آخر ان سات مہینوں میں ایک چینل بھی اس قابل نہیں رہے گا کہ آپ سکون سے ’’کچھ‘‘سن سکیں۔ آج کل بھی ساس، بہو کے طعنوں کی طرح کی تقاریر اور پروگرام ہورہے ہیں۔ ابھی تو یہ جنون اور بڑھے گا چونکہ کوئی بھی اپنے منشور کی بات نہیں کر رہا بلکہ اتنے بے ہودہ لوگ، پارٹیاں بدل رہے ہیں کہ ان پر ہنسی بھی نہیں رونا آتا ہے۔ کیا ہمارا مستقبل موجودہ منظر سے بھی زیادہ تاریک اور بے علم لوگوں کی آماجگاہ ہو گا۔ ٹی وی کے علاوہ ریڈیو تو پہلے ہی ایف ایم بنا کر برباد کر دیا گیا ہے۔ کبھی ہم سیاسی اور ادبی مذاکرے، کبھی کمال کے ریڈیائی ڈرامے اور پھر کلاسیکی موسیقی کے علاوہ نئی اور پرانی غزلوں کے ذریعے خواجہ خورشید انور، نثار بزمی، حسن لطیف اور رشید عطرے کو یاد کرتے تھے۔ اب ایک کام آسان ہو گیا ہے، ہر گانے والا اپنے ہی گیت خود ہی ٹوں ٹوں کر کے بنا لیتا ہے۔ ’’ہمت نہ ہار‘‘والا نغمہ تمام کالجوں اور درس گاہوں میں مقبول ہے مگر بے وزن مصرعے ہیں کہ قبول عام پا رہے ہیں۔
رہے اخبارات تو ابھی سے ان کا حلیہ، کاغذ زیادہ خبریں کم، زیادہ جگہ کون پا رہا ہے، اشتہارات، ابھی تو ہر شخص کو اپنے الگ الگ اشتہارات نکالنے ہیں، رہی ترقیاتی کام کی بات، وہ اس طرح ہو گا کہ پیپلز پارٹی کے چند روز کے وزیراعظم نے بنی ہوئی سڑکوں پر مزید سڑکیں بنا کر ترقیاتی فنڈز خرچ کر کے دکھا دیئے تھے۔ ادھر عالمی فنڈنگ تک ادارے پرانے یادگاری گھروں کو محفوظ بنانے کیلئے نئے جامے پہنوا رہے ہیں۔ ابھی تو ہر شہر، ہر حلقہ اور ہر شخص کیلئے سپلیمنٹ نکلیں گے۔ میرا سوال پھر یہی ہے پچاس، ساٹھ برس سے صبح اٹھ کر اخبار پڑھنے کی عادت اور اس کے ساتھ چائے کے کپ کے تلازمے کو کیسے بدلا جائے یا اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فیس بک میں خود کو مصروف کر لیں۔ کوئی کہتا ہے کہ واٹس ایپ پر مکالمہ، فون پر بات چیت، بھلا کیسے، کیا سنجیدہ موضوعات ان نئے عجائبات کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ مجھے بڑی فکر یہ ہے بے لگام بولنے والے تو اسی طرح اور بولیں گے کہ کسی صاحب نے رونا رویا کہ اسٹیفن ہاکنگ تو ملحد آدمی تھا، ہم اس کی تعریف کیوں کر رہے ہیں۔
ان چھ مہینوں میں خواتین خانہ کیا کریں گی کہ ان کے نام پرہونے والے مارننگ شوز میں بھی وہی جانے والے کو مغلظات اور نئے آنے والوں کو باتوں کے ہار پہنائے جائیں گے۔ مشکل تو یہ ہے کہ نئی نسل کو جب یہ معلوم ہے کہ سی پیک ٹوٹل پاکستانیوں پر اگلے بیس برس کیلئے قرضہ بنام ترقی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ کسی کی بیوی، کسی کا بیٹا اور کسی کا شوہر، صرف اپنے تعلق کے باعث ترقی کی اس منزل پر پہنچ سکتا ہے جس کا محنتی بچّوں نے کبھی خواب دیکھا تھا پھر خواب دیکھنے کو رہ کیا گیا، سو لوگوں کو عدالت میں بلا لیں، اندر سے وہ سب شیخ رشید نکلیں گے۔ کہتے ہیں کہ اب معجزہ نہیں ہوتا، بھلا کیسے ہمارے وزیراعظم چھٹی پر امریکہ جائیں۔ نائب صدر امریکہ نہ صرف ان کو تلاش کر کے ملاقات کر لے، وزارت خارجہ اس کو پسند بھی نہ کرے اور دنیا ان عجائبات کو اس طرح حیرت سے دیکھنے لگے جیسے افغان صدر کا یہ کہنا کہ ہم جنگ بندی نہیں، ہم ہر قیمت پر جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت ہر روز کہتی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا ہے۔ ادھر ہر صبح کسی نہ کسی شہر سے دہشت گردوں کے اڈوں کو مسمار کرنے کی خبر وزیرستان سے لے کر کراچی تک سے تسلسل کے ساتھ آ رہی ہے۔
لوگ مشورہ دیں گے آخر فیس بک اور ٹوئیٹر تو ہے، اس سے زیادہ اور کیا مصروفیت ہو سکتی ہے۔ دیکھونا، کتنے مزے سے لوگ افواہ کو نہ صرف خبر بنا دیتے ہیں بلکہ اس کیلئے کردار بھی تخلیق کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی کم شاہد مسعود یا عامر لیاقت ہیں، وہ جسے کہتے ہیں ’ہتھیلی پہ سرسوں جمانا‘، یا ’دریا میں نیم جمانا‘، یہ صرف محاورے ہیں، سائنسدان نہ مانیں مگر ہمارے زعما کاغذی منصوبوں کو پانچ سالہ منصوبہ کہا کرتے تھے۔ اب رہ گیا صرف فون، سارے دوست پھر سیاست پر بحث کرنے کو ہی لذت بھری کہانیاں سمجھتے ہیں، اس کو ہی ’ٹائم پاس‘ کرنا کہتے ہیں۔ اب چاہے اندرون لاہور شہر کے تھڑے ہوں کہ موچی دروازہ باغ یا بارہ دری کا صحن کہ جہاں لوگ رات کو مالش کرواتے ہیں۔ وہ سب چاہے مالش کروائیں کہ تاش کھیلیں، بحث تو اپنے تئیں سیاست پر ہوتی ہے۔
ہرچند میری ڈاکٹر کہتی ہے کہ آپ ٹی وی نہ دیکھا کریں، آپ کا بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔ میرا بلڈپریشر تو سبزی کی دکان پر جا کر بھی بڑھ جاتا ہے۔ بچّوں کو سڑک پہ بھیک مانگتے ہوئے دیکھ کر اور لوگوں کو ہوٹلوں میں صرف ہائی ٹی 800/-روپے میں، صرف کرتے ہوئے بھی، مجھ سے پوچھتا ہے کہ آخر اتنے بڑے ساڑھے چار سال تک رہنے والے وزیر خزانہ کے جاتے ہی گتے کے محل کی طرح معیشت کیوں ایسے بیٹھ رہی ہے کہ ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے۔ ارے پھر وہی سیاست!
اچھی باتیں بھی سوچنی چاہئیں۔ کتنے ہی لوگوں کے دن پھر جائیں گے، تنبو، شامیانوں، دیگوں کے علاوہ گلی گلی بینر بنیں گے، لوگوں یعنی غریبوں کے گھروں میں ٹی وی، آٹے اور گھی کے کنستر اور گلیوں کی صفائی کا اہتمام بھی کیا جائے گا، اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو گا۔ شاید آپ کے ساتھ بیٹھ کر کسی دن کھانا بھی کھا لیں۔ رشتہ جوڑیں گے تو صرف ذات پات کا، اپنی اپنی برادری کو ووٹ دینے کی ترغیب دی جائے گی۔ آپ فضول بات، منشور قسم کی چیزیں مت پوچھنا، سوچنا بھی مت۔
اگر یہ سب کچھ تو ہے پھر میں اپنے مراقبے میں چلی جائوں گی۔ کتابیں پڑھوں گی، اچھی باتیں آپ سے بیان کروں گی البتہ جو بہت سے ماہنامے آتے ہیں سوائے ’’سنگت‘‘ کے باقی نہیں پڑھوں گی۔ یاد رکھو خود سے وعدہ کرو تو نبھانا پڑتا ہے۔ ’’دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک!‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین