• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ووٹ کو نوٹ دو

گزشتہ دو تین سالوں میں پاکستان کی سیاست میں وہ کچھ ہوگیا جو شاید اتنی کم مدت میں کبھی بھی نہ ہوسکا منتخب وزیراعظم کی نااہلی سے لے کر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک ہم روز کوئی نہ کوئی نئی کہانی سُن رہے ہیں اور ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ اس دوران آمریت کی گود میں پل کر جوان ہونے والے سیاست دان آج آمریت کے ہی بدترین مخالف بن چکے ہیں اور جمہوری سیاست دانوں کی مہربانی سے سیاست میں قدم جمانے والے آج اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی آواز بن چکے ہیں۔ ہر روز ایک نیا تماشہ ہماری سیاست کو داغ دار کررہا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں آج ہر سیاست دان اپنے آپ کو صادق اور امین سمجھتا ہے اور دوسرے کو جھوٹا ۔ میڈیا میں بیٹھے ہوئے کچھ کھلاڑی اور لکھاری اُن کے ترجمان بنے ہوئے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی ذاتی پسند کے حساب سے ان کو فرشتہ ثابت کرنے میں ہمہ تن گوش مصروف ہے اور اگر اس سارے کھیل میں کوئی بیوقوف بن رہا ہے تو وہ عوام ہیں۔ کچھ اندھی تقلید کی وجہ سےتو کچھ علاقائی مجبوریوں کی وجہ سے۔ ایک سمندر بن چکا ہے جھوٹوں ، دھوکے بازوں اور بہروپیوں کا ہر شخص اپنی قیمت ہاتھ میں لیکر گھوم رہا ہے جہاں جہاں اچھے خریدار ہیں وہاں اُن کی دکان خوب چل رہی ہے۔ سب نے اپنے تانے بانے ملائے ہوئے ہیں اور روز عوام کو مشترکہ حکمت عملی کے بعد ایک نئی بتی کے پیچھے لگادیتے ہیں۔ کس کس بتی کا ذکر کروں کس کس پر قلم اٹھاؤں یہاں تو ہر طرف ہی سب کچھ ببانگ دہل ہورہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج عدلیہ سڑکوں کی صفائی تک کروانے کے لئے کچرا اٹھوانے کے لئے نکل آئی ہے مگر ہم بدقسمتی سے یہ نہیں دیکھ رہے کہ عدالتوں میں سالوں سے رُلنے والے سینکڑوں بوڑھی شریفاں بیمار فضل لاچار عبداللہ جو انصاف کے حصول کے لیے ہر پیشی پر کئی کئی میلوں کا سفر طے کرکے آتے ہیں روز ہی خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔ ہم یہ تو دیکھ رہے ہیں ہر سیاسی جماعت بڑے بڑے جلسے کرکے الیکشن کی تیاری میں لگی ہوئی ہے اور جمہوریت کی خاطر سب کچھ لُٹانے کو بھی تیار ہے جہاں بھٹو کا داماد اور بے نظیر شہید کا شوہر با آواز بلند کہتا ہے کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے مگر پھر یہ بھی دیکھتے ہیں ایک اور شوکت عزیز یا معین قریشی سینیٹ میں بطور چیئرمین لایا جاتا ہے اور بے نظیر شہید کا شوہر بڑے فخر سے اُسے اپنا آدمی قرار دیتا ہے۔ یہ ہی سینیٹ چیئرمین دو ستمبر کے بعد ملک کے قائم مقام صدر بنیں گے اور پھر صدر ہی رہیں گے کیونکہ دو ستمبر سے پہلے عام انتخابات کا کوئی امکان نہیں اور موجودہ صدر دو ستمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور اگلی اسمبلیاں آنے تک یہ فرائض چیئرمین سینیٹ نے انجام دینے ہیں آپ سب کو غلام اسحاق خان ضرور یاد ہوں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف کو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تیزی سے مقبول ہورہا ہے جو کہ اُن عدالتی فیصلوں کے خلاف ہے جن کے ذریعے نواز شریف کے مطابق جمہوری حکومت کو مفلوج کیا جارہا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ روز صبح سے رات تک اس بیانیہ کو تقویت دینے کے لئے نواز لیگ کے ترجمان اس کے حق میں زوردار دلائل دیتے ہیں مگر پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لمحوں میں یہ بیانیہ زمین بوس ہوگیا جب نواز لیگ کے ہی وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے اُن کے ہر فیصلے کی ایک طرح سے تائید کردی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو عمران خان کرپشن کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں اور بقول اُن کے وہ ہر کرپٹ سیاست دان کی سیاسی موت ہیں اور اس کے لیے انھوں نے نہ جانے کتنے دھرنے کتنے جلسے کر ڈالے مگر پھر ہم نے اُسی عمران خان کو اقتدار کےلالچ میں ایک ایسے سیاسی رہنما کا ہمنوا بنتے دیکھا جس کی کرپشن کے چرچے زبان زد عام ہیں اور اُس کی تقریباََ پوری کی پوری پارٹی کرپشن کے کیسز بھگت رہی ہے۔ اس فیصلے سے عمران خان کے سیاسی دوغلے پن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک اور سیاسی جماعت بالکل اسی طرح اُٹھائی جارہی ہے جیسے ماضی میں ق لیگ مگر کیا آج ق لیگ باقی ہے کیا اُس کا کوئی وجود ہے کیا بہتر نہ ہوتا کہ ہم دیکھتے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں میں دراڑیں ڈالنے کے بجائے جمہوریت کو اور مضبوط کیا جاتا کیا مشرف کا دور پاکستان کو برسوں پیچھے نہیں لے گیا کیا ارباب اختیار کو نہیں پتہ کہ ہم آج تک مشرف دور کے زخموں سے چھٹکارا نہیں پاسکے آج بھی ایک چھوٹا سا کرکٹ میچ کرانا ہو توپوراشہر بند کرنا پڑتا ہے یہ تحفہ کس کا دیا ہوا ہے کیا قوم کو نہیں پتا ۔ اس طرح کی راتوں رات اقتدار کےلالچ میں وجود میں آنے والی جماعتیں کبھی بھی ملک اور آئین سے مخلص نہیں ہوتیں اور بالآخر ایسے ہی اختتام کو پہنچتی ہیں جیسے کہ ق لیگ مگر تب تک ملک اور قوم کاجونقصان ہوچکاہوتاہے وہ کبھی پورا نہیں ہوتا اور پھر چلو پھر سے مسکرائیں کا نعرہ لگاکر قوم کو ایک اور آسرا دے دیا جاتا ہے اب وہ بیچارہ جس کا مرناجیناہی یہاں ہو ہر دفعہ ایک نئے آسرے کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ ہم سب کچھ دیکھنے اور بھگتنے کو تیار ہیں مگر خدا کے لیے یہ سب کچھ ملکی مفاد میں ہونا چاہیے جس سے کم از کم ہماری اولادیں فائدہ اٹھاسکیں مگر موجودہ حالات میں ایسا تقریباً ناممکن ہے ابھی ہم نے کچھ دن پہلے ہی دیکھا کہ وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جواب دینا ہوگا کہ وہ اچانک امریکہ کے دورے پر تن تنہا کیوں گئے اور اُن کے واپس آتے ہی ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کیسے ہوگیا انہیں بتانا ہوگا کہ وہ ایسی کیا ڈیل کرکے آئے ہیں کہ اس قوم کی قسمت کا ستارہ مزید اندھیروں میں چلا گیا انھیں بتاناہوگا کہ انھوں نے کیوں اچانک چیف جسٹس سے ملاقات کی اور انتہائی اعلیٰ ذرائع کے مطابق اُن سے درخواست کی کہ وہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے معاملے پر کوئی سو موٹو نہ لیں۔ کیونکہ ملاقات خالصتاً اسی مسئلے پر تھی لہٰذا کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کو رخصت کرتے ہی چیف جسٹس نے جسٹس عظمت سعید شیخ کے چیمبر کا رُخ کیا اور ایک طویل وقت گزارا۔ جسٹس عظمت سعید کارپوریٹ کرائمز کیسز کے ایک انتہائی کامیاب جج مانے جاتے ہیں۔ دراصل روپے کی قدر میں اچانک ہونے والی اس بڑی تبدیلی کا تعلق آئندہ چند دنوں میں پاکستان کی سیاست میں ہونے والے چند بہت بڑے فیصلوں سے بھی ہوگا اس لئے یہ معاملہ نہ صرف انتہائی اہم ہے بلکہ حساس بھی۔ یہ سب تو چل رہا ہے اور چلتا رہے گا جب تک اس ملک کو مخلص قیادت نہیں ملے اور کبھی بھی نہیں ملے گی کیونکہ جو مخلص ہے وہ قیادت کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ یاتو یہاں قائد آرام سے بک جاتے ہیں یا پھر زور زبردستی سے خرید لئے جاتے ہیں بس اب ایک ہی طریقہ رہ گیا ان دوغلے سیاست دانوں سے کچھ فائدہ حاصل کرنے کا کہ عوام خود ایک خاموش تحریک چلائیں کہ ووٹ کو نوٹ دو کیونکہ یہ سارے ٹکٹ ہولڈرز کروڑوں روپیہ خرچ کرکے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور اسمبلیوں میں جاکر اربوں کماتے ہیں اور عوام بیچارے منہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کم از کم یہ نوٹ علاقائی بہتری میں تو استعمال ہوسکتے ہیں جس سے تھوڑی بہت تو راحت آئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین