• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ اور دولت مشترکہ کے ممالک کی مجالس آئین ساز سیاسی تصور کے لحاظ سے نصف دائرے کی شکل کی اور فرانسیسی پارلیمان اور دنیا کے اکثر ممالک کی مجالس قوانین ساز بالعموم مستطیل شکل کی ہوتی تھیں۔ فرانس کی 1789ء کی مجالس قانون ساز میں چند اصطلاحات وضع ہوئیں،دائیں بازو، وسطی اور بائیں بازو، جو دراصل سیاسی جماعتوں کی نشستوں کی ترتیب کو ظاہر کرتی تھیں۔ مگر اب ان سے نظریاتی تخصیص مراد ہے۔ پاکستان میں دایاں بازو قدامت پسند اوربائیاں بازو ترقی پسند جماعتوں کیلئے مستعمل ہے ۔
وطن عزیز کی موجودہ سیاست میں بائیں بازو کے رحجانات اور نظریات کی ضرورت جس قدر شدت سے بڑھ گئی ہے، اُسی قدر یہ نظریات یہاں زوال پذیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں برصغیر میں بائیں بازو کی سیاست کا کلیدی کردار رہا ہے۔ آج پاکستانی تاریخ سے بائیں بازو کی سامراجی تسلط کے خلاف مزاحمت، جدوجہد اور قربانیوں کو تقریباً حذف کردیا گیا ہے۔ تاہم تاریخ کو تابع بنانےسے تاریخی سچائیاں مر نہیں جاتیں۔ پاکستان بننے کے بعد نئے حکمرانوں نے امریکی گماشتگی کی پالیسی اپنائی ۔ ایشیا میں ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں کی وجہ سے یہاں کے حکمران اور سامراجی طاقتیں یک جان تھے کہ مبادا یہ منطقہ اُن کے ہاتھ سےنکل نہ جائے۔ پاکستان اس نوع کی حکمت عملیوں پرسفر طے کرتے کرتے ، آج جہادی ازم کی سطح تک آپہنچا ہے۔ مختلف جمہوری تجربات بھی کئے گئے لیکن نتیجتاً بالا دست طبقات ہی اس سے مستفیض ہوتے رہے۔ روشن خیالوں کا خیال ہے کہ جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جاتا تو یہاں بہتر نتائج دیکھے جا سکتے تھے۔ آج ریاستی اداروں کے درمیان تضادات اور غربت و امارت میں بڑھتے فاصلے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ یہ تضادات اور بھی شدت اختیارکریں گے۔ پاکستان میں دائیں بازو کی اشرافیہ اپنے تمام سیاسی نعرے بیچ چکی ہے۔ اپنی علیحدہ ثقافتی اسلامی شناخت کا نعر ہ بھی بیچا جاچکا ہے۔جمہوریت کی نام لیوااکثر سیاسی جماعتیں بھی ابن الوقت عناصر کی زیر اثر ہیں ۔ ہماری معیشت کا ساٹھ فیصد سے زیادہ کا حصہ کالے دھن پر کھڑا ہے۔ جس میں ایک بڑا حصہ نام نہاد جہادی کلچر کا ’آموختہ ‘ ہےاس میں منشیات بھی شامل ہے۔اسلامی کلچر کے نام پر ہر فرقے اور مسلک نے اپنی اپنی دستار و شناخت بنارکھی ہے،جس سے جہاں ایک طرف قومی یکجہتی تقسیم در تقسیم کی سمت رواں ہے، تودوسری طرف مختلف قومیتوں کی ثقافتیں جیسے ممنوع بنادی گئی ہیں۔ عوامی تقسیم کا واضح فائدہ آمرانہ سوچ، اشرافیہ اورمذہبی طبقہ ہی لے رہا ہے جبکہ عوام آئے روز نت نئے مسائل اور فتنوں کا شکار ہوکرزندہ درگور ہورہے ہیں۔ راہبری کے تمام مقام جعلی راہبوں اور حقیقی رہزنوں کے قبضے میں ہیں۔ یوں مزاحمتی محاذ اور جدو جہد کی سبیل پر جیسے پہرے ہیں۔ پاکستان کے ان مسائل کو بائیں بازو کی سیاست سے حل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب بایاں بازوایک غیرجانبدارانہ تجزیہ سے اخذکمزوریاں دورکرے اور معروضی صورت حال میں برسرزمین دنیا تلاش کرے ۔ ایسا ہی ایک تجزیہ گزشتہ روز آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ اُ س بڑی تقریب میں بھی کیا گیا جو ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی شائع ہوتے ہی شہرت پانے والی کتاب ’سورج پہ کمند‘کےحوالے سے سجی تھی۔یہ کتاب دراصل نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن کی تاریخ کے تناظر میں بائیں بازو کی جدوجہد سے عبارت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر ہارون احمد،شائستہ زیدی،ڈاکٹر ریاض شیخ، اُستاد سید مسرور احسن،ڈاکٹر قیصرسجاد، انیس باقر،ڈاکٹر ٹیپوسلطا ن ڈاکٹر ایاز احمد، لطیف چوہدری ، علی یاور،کلیم درا نی نے خطاب کیاجبکہ ڈاکٹر پروفیسر الطاف ہاشمی، جعفر بلگرامی اور دیگر صاحبان علم و فن موجود تھے۔مقررین نے گرچہ بائیں بازو کی فعالیت کو وقت کی ضرورت قرار دیالیکن کھل کر اعتراف بھی کیا ، کہ کس طرح وہ ماضی میں بعض حقائق کا بروقت درست ادراک نہ کرسکے۔ہم مارکس ،مائو اور لینن کے فلسفوں سے جتنے واقف تھے،اتنے اپنے سماج کی برسرزمین ناگزیر جہتوں سے تہی دامن تھے۔ہم نے پاکستانی بنیاد پرست سماج کو روس اور چینی معاشرے کے تناظر میں دیکھا۔پھر سوشلزم کے حوالے سے روس اورچین کے نظریات ہم پر اس قدر غالب آگئے کہ پہلے ملک کی سب سے بڑی ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، اور پھر این ایس ایف کے بھی دو دھڑے روس اور چین نواز بن گئے۔بعض مقررین نے پیپلز پارٹی کے قیام کوبھی لیفٹ کی تقسیم یا دوسرے معنوں میں کمزوری سے تعبیر کیا۔کہا گیا کہ ایک ملک گیربائیں بازو کی جماعت کی موجودگی میں ظاہر ہے دوسری جماعت کی نشوونماسےقوت منتشر ہوگئی۔این ایس ایف کے زیادہ تررہنما پیپلزپارٹی میں چلے گئے۔جن میں سے بعدازاں اکثر کے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا گیایہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں معراج محمد خان پر تشدد سےاُن کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوگئی۔ کہنا یہ ہے کہ صاحبانِ فکر و نظر کی تشویش، خواہشات اور ڈھلتی عمر میں سماج کیلئے جواں سال انگڑائیاں اپنی جگہ، نیز اس علم افروز اور سبق آموز نشست میں جوکچھ کہا گیا وہ صائب بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی... مگرآج کا بایاں بازو معزور و اپاہج ہے ، یا پھر نام نہاد و ابن الوقت عناصر کے نرغے میںہے۔ یوں دو ’میم‘ ملا اورمیڈیا نےجس طرح عوام کو خود ساختہ نظریاتی تقدیس میں جکڑ رکھا ہے، نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں کسی دھماکے سے یہ نظامِ کہن زمین بوس ہوجائے....صورت حال تشویشناک ضرور ہے مگرمایوس کن یوں نہیں کہ ’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘ کارخانہ دہر میں سکوں محال ہے، تبدل و تغیر زمان کا خاصہ ہے، یہ ہر دم ارتقائی مراحل طے کرتا ہے اور ہمیشہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔امریکا میں غلاموں کی تجارت کے لیے باقاعدہ منڈیاں قائم تھیںآج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہی امریکا شخصی آزادی، قانون کی پاسداری، اور برابری کا سب سے بڑا دعویدار ہے۔بہر کیف آرٹس کونسل کی یہ نشست جرس نما تھی، پھر جو مکالمے کا اہتمام کرتے ہیں یہ وہ بیدار دماغ ہوتےہیں جن کے عزم وولولے ہر عمر میں جواں رہتے ہیں۔ یہ ایسے دیوانے ہوتے ہیں کہ خواہ کوئی ان کی صدا سے کتنی ہی شانِ بے نیازی سے آگے بڑھ جائے، یہ سورج پہ کمند ڈالنے کا حوصلہ اور پیغام دیتے رہتے ہیں۔جالب نے بھی تو یہی کہا تھا...
کوئی پیغام گل تک نہ پہنچامگر، پھر بھی شام وسحر
نازبادِ چمن کے اُٹھاتا رہا، شوقِ آوارگی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین