• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین اور بھائی کے قتل کی ملزمہ اسماء نواب 20 سال بعد بری

والدین اور بھائی کے قتل کی ملزمہ اسماء نواب 20 سال بعد بری

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے پسند کی شادی کیلئے ماں، باپ اور بھائی کو قتل کرنے کے کیس میں سزا کیخلاف اسماء نواب سمیت دیگر ملزمان کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہاہےکہ استغاثہ ملزمان پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے، پولیس اپنے روایتی طریقہ کار سے ملزمان تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن عدالت کےسامنے ملزم کا جرم ثابت نہیں کرسکتی، نتیجےمیں جب عدم شواہد کی بنیاد پر ملزم چھوٹ جاتا ہے تو پھر کہا جاتا ہے عدالتیں ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں،20 سال تک عدالتی ریمانڈ پر جیل میں قید رہنے والے ملزمان کو عدالت عظمیٰ نے بری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دو رکنی بنچ کے روبرو تہرے قتل میں ملوث اسماء نواب، ملزمہ کے بوائے فرینڈ جاوید احمد صدیقی اور ساتھی محمد فرحان خان کی سزائےموت کیخلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی فاضل عدالت نے پسند کی شادی کیلئے ماں، باپ اور بھائی کو قتل کرنے کا کیس منطقی انجام کو پہنچاتے ہوئےاسکا فیصلہ سنایا۔ تہرے قتل میں ملوث ملزمہ اسماء نواب اور دیگر کی سزائے موت کیخلاف سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت سمیت سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ملزمان کے خلاف براہ راست کوئی ثبوت نہیں۔ پیش کیے گئے شواہد میں جھول اور خامیاں ہیں،بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن میںکہاکہ ملزمان سے برآمد اسلحہ کا بھی کیس سے براہ راست تعلق ثابت نہیں ہوتا جبکہ ملزم فرحان کے فنگر پرنٹس گرفتاری کے 2 دن کے بعد مجسٹریٹ کی عدم موجودگی میں لیے گئے قانون کے مطابق عدالت میں پراسیکیوشن اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ملزم فرحان کے خلاف بھی براہ راست کوئی ثبوت نہیں۔ 20 سال سے ملزم جیل میں ہے سزا تو ویسے ہی اسے ثبوت کے بغیر دے دی گئی ہے۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزمہ نے فرحان، جاوید صدیقی اور وسیم کے ساتھ مل کر3 جنوری 1998 کی رات اپنے باپ نواب حسین، ماں ابرار بیگم اور 25 سالہ بھائی فہیم نواب کو رسیوں سے باندھ کر بیہمانہ تشدد کیا جسکے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوئے ملزمان کیخلاف تھانہ ملیر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جسکے بعد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی تھی بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے2015 میں ملزمان کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

تازہ ترین