• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعتوں کا نئی حلقہ بندیوں پر اظہارِ عدم اعتماد

سیاسی جماعتوں کا نئی حلقہ بندیوں پر اظہارِ عدم اعتماد

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

پارلیمانی کمیٹی نے جن تحفظات کا اظہار کیا ، ان کا سبب ادارۂ شماریات کی جانب سے غلطی کا ارتکاب ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شماریات ڈویژن کی یقین دہانیوں اور عبوری رپورٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا، پارلیمانی کمیٹی کے رو برو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان تسلّی بخش جواب نہ دے سکے،دنیا بھر میں انتخابی حلقوں میں آبادی کا تناسب یکساں نہیں ہوتا ،آئینی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیاں حتمی تصوّر کی جاتی ہیں اور انہیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا،اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کرلی، تو اس کے نتیجے میں انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن موجودہ تناظر میں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی،اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ نئی حلقہ بندیاںووٹر لسٹس کی بنیاد پر کی گئی ہیں، تو انہیں نگراں حکومت میں چیلنج کیے جانے کا خدشہ ہے، کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق20کے تحت حلقہ بندیاں مردم شماری کی روشنی میں کی جانی چاہئیں،مردم شماری کی حتمی رپورٹ آنے سے حلقہ بندیوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ٹرن آئوٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے 90ہزار کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشنز قائم کرنے پر کام شروع کر دیا

                                                                                           کنور محمد دلشاد

اگرچہ قانونی طور پر ممکنہ حد تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی آبادی میں 10فی صد سے زاید کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، لیکن فافن کے جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ قومی اسمبلی کے 81حلقوں میں 11سے50فی صد تک فرق پایا جاتاہے، الیکشن ایکٹ2017ء الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صرف استثنائی معاملات میں اس جائز حد سے انحراف کی اجازت دیتا ہے، لیکن حلقہ بندی آرڈر میں اس انحراف کی وجوہ کا اندراج ضروری ہے،ای سی پی نے حد بندی کرتے ہوئے تقریباً ایک تہائی حلقوں میں اپنے اس صوابدیدی اختیار کا استعمال کیا، جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی مساوی نمایندگی کی شرط کے روح کے خلاف ہے،اسلام آباد کے تینوں حلقوں کی آبادی قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے مختص آبادی سے 14فی صد کم ہے، آبادی کا یہ فرق صوبوں کے درمیان مزید واضح ہو جاتا ہے، بلوچستان کا حلقہ این اے 262کچھی کم جھل مگسی آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا حلقہ ہے، جبکہ کے پی کا حلقہ این اے65سب سے بڑا ہے، رائے دہندگان کے اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھیں، تو حلقوں کے درمیان عدم مساوات مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے،الیکشن کمیشن بروقت اور صاف و شفاف انتخابات کے لیے مساوی نمایندگی کے بنیادی حق کو مد نظر رکھتے ہوئے فی حلقہ آبادی کے کوٹے سےدس فی صدکمی بیشی تک کے فرق پر عمل در آمد یقینی بنائے

                                                                                                    مدثر رضوری

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، 3اپریل تک اعتراضات داخل کیے جا سکتے ہیں اور4اپریل سے 3مئی 2018ء تک اعتراضات نمٹانے کے بعد حتمی حلقہ بندیوں کی فہرستیں آویزاں کی جائیں گے۔ ان فہرستوں کے مطابق، قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272ہی رہیں گی ۔ بلوچستان کی جنرل نشستیں11سے بڑھ کر 16، خیبر پختونخواکی 35سے 39ہوگئی ہیں۔ پنجاب کی نشستیں 148سے کم ہو کر 141رہ گئی ہیں جبکہ سندھ کی 61اور فاٹا کی 12برقرار رہیں گی اور وفاقی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کے 2کے بہ جائے 3حلقے ہوں گے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے بلوچستان کی 51، خیبر پختونخوا99، پنجاب 297اورسندھ کی 130جنرل نشستیں ہوں گی۔ اب قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ پشاور کے بجائے چترال سے شروع ہوگا ،جبکہ آخری حلقہ این اے 272لسبیلہ ہوگا اوراس اعتبار سے پورے ملک میں تما م حلقوں کے نمبر تبدیل ہوگئے ہیں۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم کا جوفارمولا استعمال کیا گیا ہے، اس کے مطابق کے پی کے میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے آبادی 7لاکھ 82ہزار 651، صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کی آبادی3لاکھ 8ہزار 317، پنجاب میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے 7لاکھ 80ہزار 266، صوبائی حلقوں کے لیے 3لاکھ 70ہزار429، سندھ میں قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے 7لاکھ 85ہزار 135اور صوبائی اسمبلی کے حلقے کے لیے 3لاکھ 68ہزار 410،جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے 7لاکھ 71ہزار 546اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے2لاکھ 42ہزار 52نفوس پر مشتمل آبادی کا کوٹا رکھا گیا ہے۔ اس طرح فاٹا میں قومی اسمبلی کے حلقےکی آبادی 4لاکھ16ہزار 380اور اسلام آباد کے لیے 6لاکھ 16ہزار 380رکھی گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یواین ڈی پی کے ماہرین کی مدد سے شمال سے کلاک وائز حلقہ بندیاں کی ہیں۔ تاہم،پاکستان میں انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والی غیر سرکاری ادارے، فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی گئی نئی انتخابی حلقہ بندیوں میں آبادی کے فرق کا پتا لگایا ہے۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق، قومی اسمبلی کے 81حلقوں میں آبادی کا فرق 10فی صد کمی بیشی کی قانونی حد سے زیادہ ہے۔فافن کے مطابق، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن ایکٹ 2017ء کو سختی سے لاگو کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اس کے برعکس نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے عمل میں مساوی نمایندگی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا اور حلقہ بندیاں کرتے وقت انتخابی حلقوں کے درمیان مساوی نمایندگی کے اصول سمیت حلقہ بندیوں سے متعلق قوانین پر حسبِ ضرورت عمل نہیں کیا گیا۔ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں جاری ہونے کے بعدحکمراں جماعت، پاکستان مسلم لیگ(نون)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)،جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی سمیت تقریباً ہر جماعت نے ان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اب تک کم و بیش350اعتراضات جمع کروائے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کا ماننا ہے کہ ابھی بہت کم اعتراضات آئے ہیں، ان اعتراضات کو نمٹانے کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک مہینہ رکھا ہے۔الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دے گا، لیکن اگر الیکشن کمیشن مقررہ وقت میں یہ اعتراضات نہ نمٹا سکا، تو پھر نگراں حکومت آ جائے گی اور یوں عام انتخابات بروقت نہ ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ حلقہ بندیاں مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر کی گئی ہیں اور اب مردم شماری کا حتمی نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ہے، لہٰذا اب اسی کے تحت حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں ۔ نیز، یہ اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ مشترکہ مفادات کائونسل میں طے ہوا تھا کہ مردم شماری پر نظر ثانی ہوگی اورپانچ فیصد بلاکس میں باقاعدہ مردم شماری کروائی جائے گی، جس میں 18ہزار بلاکس شامل ہیں، لیکن تاحال ایسا نہ ہوسکا۔حکمراں جماعت کی جانب سےیہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ ووٹرز کی تقسیم اس انداز سے ہوئی ہے کہ حکومت کے حامی اگر دیہی علاقے میں ہیں ،تو انہیں شہر میں دکھایا گیاہے ،جبکہ شہری علاقے والے دیہی علاقے میں دکھائے گئے ہیں۔ بعض بااثر افراد کی مرضی کی حلقہ بندیاں کرنے کے لیے تحصیل اور پٹوار سرکل میں تبدیلی کی گئی ہے اورمیدانی علاقے میں ایک حلقہ 2لاکھ 65ہزار اور پہاڑی علاقے کا ایک حلقہ 3لاکھ8ہزار آبادی کا بنایا گیا۔ حلقہ بندیوں سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی ورکنگ کمیٹی میں بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کے نقشے گوگل اور سروے آف پاکستان کے نقشوں سے مطابقت نہیں رکھتے اوران حلقہ بندیوں سے سیاسی جماعتوں کے ووٹرز تقسیم ہو جائیں گے۔دوسری طرف بلوچستان اسمبلی نے نئی حلقہ بندیوں کے خلاف متفقہ طور پر قرار داد منظور کر لی ہے ۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع رقبے کو مد نظر رکھ کر نئی حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے، جس کے تحت قومی اسمبلی کے لیے اضلاع کے اعتبار سے اور صوبائی اسمبلی کے لیے مزید20نشستوں کا اضافہ کیا جائے۔ یہ اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں کہ کئی حلقوں کو شمال سے کلاک وائز شروع نہیں کیا گیا ۔ آبادی کے بہ جائے ووٹرفہرستوں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں ۔ الیکشن کمیشن کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ناانصافی ہو اور یہ قبل از انتخابات دھاندلی ہے۔ اگر 7لاکھ 80ہزار آبادی کا تناسب پنجاب کے لیے ہے ،تو پھر پورے ملک میں یہی ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے 3لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے 4لاکھ آبادی کرنے کا کیا جواز ہے۔یہ اعتراض بھی کیا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بعض حکام طے شدہ معیار کو بالائے طاق رکھ کر صوبوں کے اندر اضلاع کو جوڑ کر اپنی پسند کے مطابق نشستیں تخلیق کر رہے ہیں اوران حلقہ بندیوں کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نصف درجن اضلاع کے عوام کو شاید قومی اسمبلی میں نمایندگی بھی نہ مل سکے ۔ان تمام اعتراضات اور آیندہ الیکشن بروقت نہ ہونے کے خدشے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں’’نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراضات‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں فافن(فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کے سی ای او، مدثر رضوی اورسابق وفاقی سیکریٹری، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن، کنور محمد دلشاد نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔

مدثر رضوی

سی ای او فافن(فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک)

سیاسی جماعتوں کا نئی حلقہ بندیوں پر اظہارِ عدم اعتماد

جنگ:کیا یہ اعتراض درست ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرتے وقت الیکشن ایکٹ2017ء سے انحراف کیا؟

مدثر رضوی:یہ اعتراض بالکل جائز ہےاورالیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق جاری کی گئی ابتدائی رپورٹ کے تفصیلی جائزے میں فافن نے قومی اسمبلی کے حلقوں میں آبادی اور ووٹرز کے تناسب میں فرق کا پتا لگایا ہے۔ قانونی طور پر ممکنہ حد تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی آبادی میں 10فی صد سے زاید کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، جبکہ فافن کے جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ قومی اسمبلی کے 260حلقوں میں سے کم از کم 81حلقوں میں یہ فرق 10فی صد سے زیادہ ہے، جن کی الیکشن ایکٹ2017ء کی روشنی میں حد بندی کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ یہ قانون الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صرف استثنائی معاملات میں اس جائز حد سے انحراف کی اجازت دیتا ہے، لیکن حلقہ بندی آرڈر میں اس انحراف کی وجوہ کا اندراج ضروری ہے۔ ای سی پی نے حد بندی کرتے ہوئے تقریباً ایک تہائی حلقوں میں اپنے اس صوابدیدی اختیار کا استعمال کیا، جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی مساوی نمایندگی کی شرط کے روح کے خلاف ہے۔

جنگ:قومی اسمبلی کے حلقوں میں تفاوت کا تناسب کتنا ہے؟

مدثر رضوی:یہ فرق 11سے50فی صد تک ہے۔قومی اسمبلی کے 81حلقوں میں سے 59حلقوں میں آبادی کا فرق 11سے 20فی صد تک ہے ہے۔ 11حلقوں میں یہ تفاوت 21سے 30فی صد تک ہے۔ 6حلقوں میں یہ فرق 31سے 40فی صد تک ہے اور باقی 5 حلقوں میں یہ فرق ہوشربا حد تک بڑھ کر 41سے 50فی صد تک پہنچ گیا۔

جنگ: یہ فرق مخصوص صوبوں اور شہروں میں زیادہ ہےیا پورے ملک میں یہی صورتحال ہے؟

مدثر رضوی:اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بیش تر حلقوں ہی میں آبادی کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پراسلام آباد کے تینوں حلقوں کی آبادی قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے مختص آبادی سے 14فی صد کم ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی بھی قومی شرح سے کم ہے، جبکہ باقی تینوں صوبوں کے حلقوں میں آبادی کا حجم قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ آبادی کے حجم کا یہ فرق صوبوں کے درمیان مزید واضح ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر خیبر پختون خوا کے حلقے، این اے 37ٹانک میں 3لاکھ 91ہزار 885شہریوں کو نمایندگی دی گئی ہے، جبکہ این اے 35بنوں میں تقریباً 12لاکھ افراد کو قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بنوں کے شہریوں کے ووٹ کی طاقت ٹانک کے حلقے میں رہنے والے لوگوں کی ووٹ کی طاقت سے کم ہو جائے گی۔ اسی طرح پنجاب میں این اے 37جہلم II کی نشست کی 5لاکھ 46ہزار 113شہریوں سے حد بندی کی گئی ہے، جبکہ اسی صوبے ہی کے حلقے، این اے 87حافظ آباد کی آبادی تقریباً 12لاکھ ہے، جو جہلم کے حلقے سے دوگنی ہے۔ سندھ کے حلقے این اے 199شکار پور II کو 5لاکھ 88ہزار 185شہریوں پر مشتمل آبادی کی مدد سے تخلیق کیا گیا ہے، جبکہ این اے 197کشمور 10لاکھ 89ہزار 169افراد پر مشتمل ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں این اے 262 کچھی کم جھل مگسی 3لاکھ 86ہزار 255شہریوں کا حلقہ ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حلقہ این اے 268 مستونگ کم چاغی کم قلات کم شہید سکندر آباد کم نوشکی کی آبادی اس کے تین گنا یعنی 10لاکھ 83ہزار 497افراد پر مشتمل ہے۔ اگر قومی شرح کا جائز ہ لیا جائے، تو بلوچستان کا حلقہ این اے 262کچھی کم جھل مگسی آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا حلقہ ہے، جبکہ کے پی کا حلقہ این اے65سب سے بڑا ہے۔

جنگ: اگر انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رائے دہندگان کے اعدادوشمار کے تناظر میں دیکھیں، تو کیا صورتحال سامنے آتی ہے؟

مدثررضوی:اگر الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کی تجاویز الیکشن کمیشن ہی کے جاری کردہ رائے دہندگان کے اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھیں، تو حلقوں کے درمیان یہ عدم مساوات مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔اگراکتوبر 2017ءمیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رائے دہندگان کے ضلعی اعداد و شمار کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے، تو قومی اسمبلی میں ایک لاکھ30ہزار ووٹرز سے لے کر6لاکھ سے زاید ووٹرز کے حلقے بنائے گئے ہیں، جبکہ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے کم از کم دو حلقے ایسے ہیں کہ جن میں رائے دہندگان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہوگی اور 13حلقوں میں ووٹرز کی تعداد1.5سے2.5لاکھ کے درمیان ، 78 حلقوں میں 2.5سے3.5لاکھ کے درمیان ، 138حلقوں میں3.5سے 4.5کے درمیان ، 15 حلقوں میں 4.5سے5.5 کے درمیان ، جبکہ 4حلقوں میں 5.5لاکھ سے بھی زاید ہوگی ۔اوسطاًقومی اسمبلی کے ہر حلقے میں3لاکھ 64ہزار سے زاید رائے دہندگان ہوں گے ۔تاہم ،حلقوں کے درمیان رائےد ہند گان کی تقسیم غیر متوازن اور غیر مساوی ہے۔ مثلاً این اے 262 میں صرف تقریباً1لاکھ 38ہزار ووٹرز ایک ایم این اے کا انتخاب کریں گے، جبکہ این اے 19ہری پور میں6لاکھ 17ہزار سے زاید رائے دہندگان ایک ایم این اے کا انتخاب کریں گے۔ قومی اسمبلی کے 73حلقے ایسے ہو سکتے ہیں کہ جہاں ووٹرز کی تعداد قومی شرح سے کم، جبکہ 85حلقےایسے ہوں گے کہ جہاں یہ تعداد قومی اوسط سے زاید ہو گی ۔

جنگ: آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟

مدثر رضوری:میں بروقت اور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ تجویز دینا چاہوں گا اور فافن نے اپنی رپورٹ میں بھی یہ سفارش کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی اسمبلی کے ایک حلقے کی آبادی کے کوٹے کے اس انحراف کو سنجیدہ لے اور ملک کے تمام علاقوں میں رہنے والے عوام کے مساوی نمایندگی کے بنیادی حق کو مد نظر رکھتے ہوئے فی حلقہ آبادی کے کوٹے سےدس فی صدکمی بیشی تک کے فرق پر عمل در آمد یقینی بنائے۔

کنور محمد دلشاد

سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان / چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن

سیاسی جماعتوں کا نئی حلقہ بندیوں پر اظہارِ عدم اعتماد

جنگ :نئی حلقہ بندیوں اور ماضی میں کی گئی حلقہ بندیوں میں کیا فرق ہے؟ ماضی میں حلقہ بندیاں کس انداز سے کی جاتی تھیں اور نئی حلقہ بندیاں کیسے کی گئی ہیں؟

کنور محمد دلشاد:ماضی میں1975-76ء، 1984ء، 1988ء، 1995ء اور2002ء میں حلقہ بندیاں کی گئی تھیں۔ جمہوری سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے چشم کشا حقائق یہ ہیں کہ1975-76ء میں حلقہ بندیاں وزیرِ اعظم ہائوس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم، ذو الفقار علی بھٹو نے اپنے مشیر، ملک حیات ٹمن کی نگرانی میں کروائی تھیں۔ وزیرِ اعظم ہائوس میں اس سلسلے میں ایک باقاعدہ سیل قائم کیا گیا تھا اور ملک بھر کے ڈپٹی کمشنرز، ریونیو افسران اور انٹیلی جنس بیورو کے مقامی ضلعی افسران اس پر کام کر رہے تھے۔ 5جولائی 1977ء کو جب ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا، تو اس الیکشن سیل کا تمام ریکارڈ بھی تحویل میں لے لیا گیا۔ ملک حیات ٹمن گرفتار ہوئے، تو انہوں نے بہ طور وعدہ معاف گواہ ان حقائق پر سے پردہ اٹھایا کہ 1975-76ء کی حلقہ بندیاں وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹو کی زیرِ نگرانی کروا کر ان کے بلیو پرنٹس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے گئے تھے۔ اسی طرح 1984ء میں محدود پیمانے پر حلقہ بندیاں کروائی گئی تھیں اور ان کے تانے بانے بھی سی ایم سیکریٹریٹ سے ملتے تھے اور وہاں سے حلقہ بندیاں کروانے میں جنرل رفاقت حسین کا الیکشن سیل بھی پیش پیش تھا۔ البتہ صحیح معنوں میں اور حقیقی حلقہ بندیاں 1988ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی براہِ راست نگرانی میں ہوئی تھیں اور ان حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی بہت کم داخل کروائے گئے تھے اور اس وقت کی اپوزیشن لیڈر، محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ان حلقہ بندیوں کو تسلیم کیا تھا۔ اگرچہ جون2002ء میں ہونے والی حلقہ بندیوں میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر جانب داری کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا تھا، لیکن اس کے باوجود تقریباً 995اعتراضات داخل کروائے گئے، جنہیں تکنیکی و قانونی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔ البتہ کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے امیدواروں کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سماعت کے بعد احسن انداز میں دور کردیا۔

جنگ :اس وقت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ ان اعتراضات کی نوعیت کیا ہے اور کیا یہ درست ہیں؟

کنور محمد دلشاد :نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں قومی اسمبلی کے ایک خصوصی ورکنگ گروپ کا یہ مٔوقف ہے کہ یہ حلقہ بندیاں رولز کے خلاف ہیں۔ ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا یا ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے گا یا پھر صدارتی آرڈیننس لایا جائے گا، جبکہ میرا مٔوقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ایسے کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرے گی، کیونکہ آئینی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیاں حتمی تصوّر کی جاتی ہیں اور انہیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نیز، نئی حلقہ بندیوں کو سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں چیلنج کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی غیر سرکاری تنظیموں کے جس تجزیے اور فارمولے کو سامنے رکھ کر اعتراضات اٹھا رہی ہے، پوری دنیا میں اس فارمولے کے تحت حلقہ بندیاں نہیں کی جاتیں۔ البتہ جن حلقوں پر اعتراضات ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ان کے بارے میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

جنگ :الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان اعتراضات کو اپنے دائرۂ کار میں مداخلت اور اپنی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔ کیا یہ طرزِ عمل درست ہے؟

کنور محمد دلشاد :درحقیقت، پارلیمانی کمیٹی کے رو برو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان تسلّی بخش جواب نہ دے سکے، بلکہ ایک موقعے پر تو حلفاً یہ بھی کہا گیا کہ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ حلقہ بندیوں کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹیز کے ارکان کون تھے۔ الیکشن کمیشن پر یہ اعتراض بھی ہے کہ اس نے آبادی کے بہ جائے ووٹر لسٹس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج متاثر ہو سکتے ہیں اور اسے حلقہ بندیوں کے قانون سے متصادم تصوّر کیا جا رہا ہے اور اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے نئی حلقہ بندیوں پر تحفظات ہیں۔ اگر موجودہ سیاسی محاذ آرائی کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مقرّرہ مدّت میں حلقہ بندیوں پر اعتراضات دور کرنے کی کوشش ضرور کرے گا اور صرف آئینی و قانونی طور پر حقیقی اعتراضات ہی قبول کرے گا کہ جنہیں مقرّرہ مدّت میں دُور کیا جا سکے۔

جنگ :الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اب تک سیکڑوں شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ کیا وہ مقررہ تاریخ تک ان تمام شکایات کو نمٹانے میں کامیاب ہو جائے گا؟

کنور محمد دلشاد :الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اب تک ایک سو کے لگ بھگ اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔ بعض ماہرین یہ کہہ کر ابہام پیدا کر رہے ہیں کہ ہر حلقے میں آبادی کا تناسب یکساں ہونا چاہیے۔ بہ ظاہر تو یہ بات نہایت خوش کن ہے، مگر عملاً دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر برطانیہ کے حلقوں کو دیکھا جائے، تو کہا جاتا ہے کہ وہاں ہر حلقہ ایک لاکھ 10ہزار افراد پر مشتمل ہے، لیکن ایک حلقے میں عوام کی تعداد صرف 21ہزار تھی۔ یعنی سب سے بڑا حلقہ سب سے چھوٹے حلقے سے 5گنا بڑ اتھا ۔ اسی طرح بھارت کے سب سے بڑے انتخابی حلقے میں عوام کی تعداد 20لاکھ ہے، جبکہ سب سے چھوٹے حلقے میں یہ تعداد 50ہزار ہے۔ اسی طرح امریکی کانگریس کا سب سے چھوٹا حلقہ 5لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ سب سے بڑا حلقہ 11لاکھ آبادی رکھتا ہے اور ہمارے ہاں بلوچستان کا ایک حلقہ پانچ اضلاع میں سے گزر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کی حلقہ بندی میں نے خود جائزہ لیا ہے۔ وہاں اگر ایک انتخابی حلقہ 26ہزار کی آبادی پر مشتمل ہے، تو دوسرا حلقہ اس سے 6گنا بڑا یعنی 1.5 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ قانونی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان 4اپریل سے 4مئی تک ان اعتراضات کو نمٹانے کا ذمّے دار ہے۔ چوں کہ الیکشن کمیشن میں اعتراضات توقّع کے برعکس بہت کم داخل کروائے گئے ہیں، تو الیکشن کمیشن مقررہ مدّت میں تمام اعتراضات نمٹانے کی پوزیشن میں ہے۔ میں ایک بار پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حلقہ بندیوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ ہی حتمی تصوّر کیا جائے گا۔

جنگ:اگر الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے اعتراضات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟

کنور محمد دلشاد :جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اعتراضات داخل کروانے والوں کی تعداد برائے نام ہے۔ لہٰذا، اس پر قانونی بحران پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جنگ:کیا الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں کرتے وقت اپنے اختیارات سے تجاوز کیا یا قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے حلقہ بندیاں کیں؟

کنور محمد دلشاد :ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تشکیل کردہ حلقہ بندیوں میں ابہام انہیں ووٹر لسٹس کی بنیاد پر تشکیل دینے کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اور اگر یہ ابہام درست ہے، تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نئی حلقہ بندیوں کو نگراں حکومت میں چیلنج کیے جانے کا خدشہ ہے، کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق20کے مطابق حلقہ بندیاں مردم شماری کی روشنی میں کی جانی چاہئیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مردم شماری کی عبوری رپورٹ کی بنیاد پرآئین کے آرٹیکل 51میں ترمیم کے بعد حلقہ بندیاں کی ہیں۔ مردم شماری کی حتمی رپورٹ اپریل کے آخر میں سامنے آئے گی اور اگر عبوری اور حتمی رپورٹ کے نتائج میں نمایاں فرق سامنے آیا، تو حلقہ بندیاں متنازع ہو جائیں گی، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، کیونکہ عبوری اور حتمی رپورٹ کے نتائج میں صرف ایک سے دو فی صد کا فرق ہو سکتا ہے، جس سے موجودہ حلقہ بندیوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

جنگ: بلوچستان اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے اور اسے قبل از انتخابات دھاندلی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے، تو کیا آئینی بحران پیدا نہیں ہو جائے گا۔ نیز، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں آیندہ انتخابات بھی تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں؟اور اگر ان حلقہ بندیوں پر انتخابات ہوتے ہیں، تو کیا ان کے نتائج کو متنازع نہیں سمجھا جائے گا؟

کنور محمد دلشاد:بلوچستان اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف پیش کی گئی قرار داد کی کوئی قانونی و آئینی حیثیت نہیں ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اسے نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ لہٰذا انتخابات تعطل کا شکار نہیں ہوں گے۔

جنگ:کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کرے گا اور کیا اس کے نتیجے میں انتخابی عمل التوا کا شکار نہیں ہو گا؟

کنور محمد دلشاد:قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جن حلقوں پر اعتراضات داخل کروائے گئے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان انہیں ضرور دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سو، انتخابات کے ملتوی ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔

جنگ: مردم شماری کے نتائج پر نظر ثانی بھی نہیں کی گئی، کیا اس کی وجہ سے بھی نئی حلقہ بندیوں پر اثرات مرتب ہوئے؟

کنور محمد دلشاد :مشترکہ مفادات کائونسل کے اجلاس میں یہ طے پایا تھا کہ مردم شماری کی عبوری رپورٹ کی روشنی میں تھرڈ پارٹی کے ذریعے 5فی صد بلاکس پر نظرثانی کروائی جائے گی، لیکن حکومت نے مشترکہ مفادات کائونسل کی سفارشات کو نظر انداز کر دیا اور ابھی تک کسی تیسرے فریق سے نظر ثانی کروانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت خاموشی اختیار کر لی ۔

جنگ:حلقوں کی آبادی میں 50فیصد تک فرق پایا جاتا ہے۔ اس کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟

کنور محمد دلشاد: جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ دنیا بھر میں انتخابی حلقوں میں آبادی یکساں نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور اسے معمول کی کارروائی ہی تصور کیا جائے گا۔

جنگ:قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں کم و بیش7.5لاکھ افراد شامل ہیں، تو کیا پولنگ کے مقررہ وقت میں تمام رائے دہندگان کی جانب سے ووٹ کاسٹ کر نا ممکن ہوگا؟ خیال رہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں پنجاب میں ٹرن آئوٹ60فیصد رہا۔

کنور محمد دلشاد :الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ٹرن آئوٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے 90ہزار کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشنز قائم کرنے پر کام شروع کر دیا ہے، جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں تقریباً 70ہزار پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے تھے۔

جنگ:جن شہروں اور صوبوں بالخصوص کراچی میں نشستوں میں کمی بیشی نہیں ہوئی، وہاں حلقوں میں ردوبدل کیوں کیا گیا؟

کنور محمد دلشاد :آپ کا یہ سوال بے حد موزوں ہے کہ کراچی کی نشستوں کو برقرار رکھا گیا ہے، تو یہاں حلقہ بندیوں کے بہ جائے انہیں ایڈجسٹ کرنا چاہیے تھا۔ چونکہ حلقوں کے نمبرز تبدیل کر دیئے گئے ہیں، لہٰذا، نئی ترتیب کے مطابق حلقہ بندیاں کرنا معمول کا حصہ سمجھا جائے گا اور پھر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے ماہرین کے مشورے کے مطابق، کلاک وائز حلقہ بندیاں کی گئی ہیں، جو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔ یعنی شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کا فارمولا اختیار کیا گیا ہے، لیکن اگر شمال جنوب کے فارمولے کو چھیڑا گیا ہے، تو اس کے بر خلاف حلقہ بندیوں پر اعتراضات داخل کیے گئے ہوں گے۔

جنگ: ملک میں ایک نئے آئینی بحران کو روکنے اور عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟

کنور محمد دلشاد: چونکہ نئی حلقہ بندیوں کو قومی اسمبلی کے ورکنگ گروپ نے مسترد کر دیا ہے اور اگر کمیشن آف انکوائری بنا کر حلقہ بندیوں کو چیلنج کیا گیا اور مشترکہ مفادات کائونسل کی سفارشات کی روشنی میں 18.5ہزار بلاکس کا تیسرے فریق سے آڈٹ کروایا گیا، تو حلقہ بندیوں پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی اور حقائق تلاش کرنا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیوں کے لیے جو کمیٹیز بنائی تھیں، انہیں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے مسترد کر دیا ہے اور سب سے بڑے خطرے کی گھنٹی ادارۂ شماریات نے بجا دی ہے۔ مردم شماری دو حصوں میں کی گئی ہے۔ اب تک 150اضلاع میں سے 95فی صد اضلاع کی مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور 5 فی صد کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، اس کا سبب ادارۂ شماریات کی جانب سے غلطی کا ارتکاب ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شماریات ڈویژن کی یقین دہانیوں اور عبوری رپورٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیوں پر پارلیمنٹ کے جن ارکان نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا، ان میں قد آور سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں اور ان کی تجاویز کو نظر انداز کرنا، پارلیمنٹ کے بس میں نہیں اور اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کرلی، تو اس کے نتیجے میں انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن موجودہ تناظر میں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی کہ جس سے اس کی ساکھ مجروح ہو۔ میرے خیال میں جنرل الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک جو اقدامات کیے ہیں، وہ قابلِ ستائش ہیں۔

تازہ ترین