• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطین سے بحرالکاہل تک بٹھتے خطرات

ایک صدی قبل جزیرہ نما عرب کے ایک طاقت ور قبیلے کے سردار شریف حسین ابن علی اور مصر میں برطانیہ کے سفیر لارڈہینری میک موہن کے مابین جاری خفیہ خط و کتابت میںخاص نکتہ یہ تھا کہ مشرق وسطی اور عرب مما لک کا مستقبل کیا ہونا چاہیے۔ اصل مقصدخطہ عرب سے تر کوں کی خلافت عثمانیہ کا صفایا کرناتھا جس پر برطانیہ اور بڑی حد تک فرانس، اندرون، خانہ کام کر رہے تھے۔ 

اس دوران برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک خفیہ معاہدہ طے پایا کہ ارضِ فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دے کر اسے کنٹرول کیا جائے اور بعد ازاں روس اوردیگر طاقتوں سے مشورے کے بعد فلسطین کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر کچھ عرصے بعد برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بلفور نےصہیونی فیڈریشن کے صدر لارڈ رتھ چائلڈ کو خط لکھا کہ برطانوی حکومت ارضِ فلسطین میں صہیونیوں کے وطن کے قیام کےلیے ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔اس خط میں انہوں نے جو نقشہ پیش کیا تھاآج اسرائیل کانقشہ وہ ہی ہے۔

اس ضمن میں تاج برطانیہ نے قانونی مسودہ تیار کیا تھا جس میں یہودیوں اور مسلمان عربوں کے حقوق مسا و ی رکھے گئے تھے۔تاہم عربوں نے اسےمسترد کر دیا تھا ۔ مگر 1922میں لیگ آف نیشن نے برطانیہ کو فلسطین کا مینڈیٹ دے دیا کہ وہ وہاں کے سیاسی اورانتظامی معا ملا ت کی نگرانی کرے۔یوںبرطانیہ نے فلسطین کو صہیونی ر یا ست کا درجہ دے دیا، مگر اقوام متحدہ نے برطانیہ کے مینڈ یٹ کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک صہیونی اور دوسری فلسطینی ریاست ۔مگر فلسطینیوں نے اس قرار داد کو بھی مسترد کر دیاتھا۔

صہیونی راہبوں کا دعوی ہے کہ ان سے خداوند کا یہ و عدہ تھا کہ ارضِ مقدس، کنعان ان کاوطن ہو گا،جواب فلسطین کہلاتا ہے۔ یہاں ان کی مقدس یادگاریں اور عبا د ت گاہ ہے اوران کا وطن ہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی نو آبادیاتی طاقتوں نے عرب ممالک اور مشرق و سطی کے قدرتی وسائل کا اندازہ لگانے کے بعد ان قیمتی قدرتی وسائل کی لوٹ مارکےلیے خطہ عرب کے عو ا م کو کہیں مذہب ،مسلک، کہیں قبائلی، اور نسلی بنیادوںپر تقسیم کرکے تعصبات کی جو آگ لگائی تھی وہ تاحال سلگ رہی ہے اور عربوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے۔

یہ ایک الگ مو ضوع ہے کہ اس میں کن کن مسلم رہنمائوں نے کہاں کہاں غلطیاں کیں اور اس کے نتیجے میں مسلمانوںکوکیا کیا نقصا نا ت برداشت کرنے پڑے۔آج یورپی یونین اور امریکا کی آبادی سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے، پھر بھی محض چھپن لاکھ اسرائیلی سب پر بھاری ہیں۔ایسے میں بہت سے اپنوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں امریکاکی جانب سےیروشلم کو ا سرا ئیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں کی بے چینی اور احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ گز شتہ سال جب صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بہت جلد اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ حل کر کے فر یقین کے مابین ایسا معاہدہ کرا دیںگےجسےاکیسویں صد ی کا سب سے اہم معاہدہ قرار دیا جائے گا۔ 

مگر کچھ ہی عر صے بعدامریکااوراسرائیل نے معاہدے کیے اور صدر ٹر مپ نے نہ صرف یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا بلکہ وہاں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا اعلان کر کے اکیسویں صدی کے ’’یادگار معاہدے‘‘ کے منہ پر تھپڑ ماردیا۔اس دوران سعودی حکومت نے فلسطین کے صدر محمود عباس کو ریاض طلب کیا اور ان سے کہا گیاکہ وہ ا مر یکاکامعاہدہ تسلیم کریں یا استعفی دے دیں۔ محمود عباس نے ایسا کچھ کرنے سے انکار کردیا اورکہا کہ یہ فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔

صدر ٹرمپ کے اسرائیل کی طرف جھکائوکا بنیادی سبب یہ ہے کہ مریکا میںانتخابات کے دوران یہودی لا بی، اسرائیل اورامریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ فلسطینیوں کویہ شکوہ ہے کہ ایک طر ف مسلم کٹّروہابی لابی نےاپنےمفادات کی خاطر مسلما نو ں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور دوسری طرف یہودی لابی اور مغربی قوتوں نے اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کو ہر طرح کا ظلم کرنے کا لائسنس دے دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں فلسطین میں احتجاج کی لہر عروج پر ہے۔ 26ہزار سے زاید فلسطینی عوام نے غزہ کی پٹی کے قر یب اسرائیلی سرحد پر زبردست احتجاج کیا جس میں سترہ فلسطینی شہیداور چا رہزار سےزاید زخمی ہوئے۔ غزہ کی پٹی کے قریب حماس نے احتجاجی خیمے قائم کیے ہیں۔ دو سر ی طرف دودرجن سے زاید ماہر نشانچی ہر وقت رائفلز تا نے نشانے لگاتے رتے ہیں اورآنسو گیس اور ربر کی گو لیا ں فلسطینی عوام پر برستی رہتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطین کی صو ر ت حال پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پرمزید خوںریز تصادم کاخطرہ ہے۔دوسری طر ف امریکااوربرطانیہ نے اقوام متحدہ کی طرف سے فریقین کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے جان بوجھ کر ان تاریخوں کا انتخاب کیا گیا ہے جب ایسٹر کی تعطیلات ہوں گی اور ا مر یکی،برطانوی اور دیگر ممالک کے سفیر اپنے نائبین کو اجلا س میں شرکت کے لیےبھیجیں گے۔

ادہر فرانس کے سفیر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر جاری کشیدگی اور اس میں بہ تدریج ہونے والا اضا فہ کسی بڑے انسانی سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پربہت عرصے سے قبضہ جما رکھا ہے اوروہاںسے بیس لاکھ فلسطینیو ں کو ہجرت کرنی پڑی ۔ اب ان کی دوسری نسل اپنے علاقے میں واپس جانے کےلیےاٹھ کھڑی ہوئی ہے۔

آزاد عر ب ذرائع کا کہنا ہے کہ پورے مشرق وسطی اور دیگر عرب ممالک میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے وہ بے حد خو ف ناک ہے۔شام میں قیامت برپاہے،یمن جل رہا ہے، عراق اپنی راکھ سمیٹ رہا ہے، لیبیا میں دہشت گر دی جاری ہے، اردن اور لبنان شدید بے یقینی کا شکار ہیں، سعودی عرب یمن سے برسر پیکارہے اورایران میں سیا سی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

ادہر روس کے صدر پوٹن نے شام میں روس کی فتح کا اعلان کرکے بیش تر فوجی واپس بلالیے تھے۔اب اچانک صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجیوں کو واپس آنے کا سگنل دے دیا ہے جس پر خود وائٹ ہائوس کی انتظامیہ حیران ہے۔ ایسے میں ترکی کی فوج نےشام کے شمالی علاقوں میں(جہاں کُرد آبادہیں)اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ کُرد ،عراق ،شام اور ترکی میں بے چین ہیں۔ایرانی کُرد بھی حکومت سے شاکی ہیں۔

دوسرا منظر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یورپ اورامریکا نے روس کے خلاف سفارتی محاذ کھول دیا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر نے اچانک چین کا خفیہ دورہ کر کے سب کو حیران کر دیاہے،کیوں کہ جلدہی امریکا اور شمالی کوریاکے در میا ن مذاکرات ہونے کا امکان ہے۔

موجودہ حالات میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت دنیا غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہے۔کہیں بھی کچھ بھی ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں فلسطین کا مسئلہ زیادہ نازک ہو گیا ہے اور امریکا، ا سر ا ئیل اور بعض عرب ممالک ایران کو بھی گھیرے میں لینا چاہتے ہیں۔ایسے میں علم، حکمت اوردانش گومگو کا شکار ہیں۔

تازہ ترین