• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر اور فلسطین ایک بار پھر لہو لہو

دنیا بھر میںجہاں جہاں مسلمانوں کو غیرملکی قابض فو جوں کا سامنا ہے ان میں دو بڑے رِستے ہوئے زخم کشمیر اور فلسطین کے ہیں۔ حالیہ دنوں میںیہ دونوں مقا ما ت ایک بار پھر قابض افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔دونوں مسائل تقریباً ایک ساتھ نمودار ہوئے تھے۔1948ء میں ایک طرف فلسطینی علاقوں پر ا سر ا ئیل کی ناجائز مملکت قائم کی گئی تھی اور دوسری طرف کشمیر میں بھارتی افواج نے داخل ہوکر قبضہ کرلیا تھا۔ مگر ہم پہلے بات کرتے ہیں کشمیر کی۔

چندیوم قبل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نےاس بر س کا سب سے بڑا فوجی آپریشن شروع کیاتھا جس میں تقریباً دو درجن افراد شہید ہوچکے ہیں۔ دو اپریل کو پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال رہی اور جگہ جگہ مظاہرے ہوتے رہے۔ گو کہ بھارتی فوج نے بہت سے علاقوں میں ناکہ بندی کر رکھی تھی، پھر بھی وہ مظاہرے نہ روک سکی اور آخری خبریں آنے تک مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی سروس معطل تھی۔ یکم اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور حر یت پسندوں کے درمیان جھڑپوںمیں کم از کم بیس افراد شہید ہوئے تھے۔زخمی ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میںہے۔ آخری خبریں آنے تک مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نا فذ تھا۔ یکم اپریل کا دن اس لحاظ سے بھی اندوہ ناک تھا کہ حالیہ برسوں میں وہاںایک روزمیں اتنا زیادہ جانی نقصا ن نہیں ہوا تھا۔ 

جھڑپوں کا بڑا مرکز سری نگر کے جنوب کا علاقہ ہےجہاں ایک دن میں ایک درجن سے زیادہ حر یت پسند شہید کیے گئے۔ اس کے علاوہ تین مزید مقامات پر مسلح تصادم کے نتیجے میںدرجن بھر سے زیادہ مجاہدین شہید کیے گئے۔ کشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت نے، جس میں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک شامل ہیں، کشمیری عوام سے ہڑتال جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔

سید علی شاہ گیلانی جو اس وقت تقریباً نوے سال کے ہیں اب بھی اپنی جماعت تحریک حریت کی سرپرستی کرتے ہیں۔ پہلے وہ جماعت اسلامی کشمیر کے رہ نماتھے، مگر پھر انہوں نے تحریک حریت کے نام سے اپنی الگ جماعت تشکیل دی تھی۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی کشمیر، جما عت اسلامی ہند سے الگ شناخت رکھتی ہے۔ سید علی شاہ گیلانی نے تحریک حریت تقریباً چودہ سال قبل 2004ء میں قائم کی تھی۔وہ کُل جماعتی حریت کانفرنس کا بھی حصہ رہے ہیں جو دو درجن سے زیادہ سیاسی، سماجی اور مذہبی جما عتوں کا اتحاد ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس پچیس سال قبل 1993ء میں قائم کی گئی تھی۔اس کے قیام کا مقصد تمام جماعتوں کو ملاکر کشمیر کی آزادی کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنا تھا۔

پینتالیس سالہ میر واعظ محمد عمر فاروق کل جماعتی حر یت کانفرنس میں شامل کے ایک جماعت،عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق کے والد مولوی محمد فا ر و ق شاہ بھی کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین تھے جنہیں 1990ء میں نامعلوم افراد نے شہید کردیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے صاحب ز ا د ے عمر فاروق نے والد کی جگہ سنبھالی۔ بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ مولوی فاروق شاہ کو حزب المجاہدین کے ایک جنگ جو محمد ایوب ڈار نے نشانہ بنایا تھا۔ لیکن عام تاثر یہی ہے کہ ان کی شہادت میں خود بھارتی سیکورٹی فورسز نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

کشمیر میں رونماہونے والے حالیہ واقعات پر پا کستا ن نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور حکومت پاکستان نے جھڑپوںمیں ہونے والی شہادتوں پر غم و غصے کا اظہار کر تے ہوئے ان کی شدید مذمت کی ہے۔پاکستان میں پیر کے روز یوم مذمت منایا گیا۔بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ اسے اطلاع ملی تھی کہ شوپیاں اور اننت ناگ میں تین مقامات پر شدت پسند جمع ہیں ،لہذا وہاں محاصرہ کیا گیا جس پر تصادم ہوئے۔

پچھلے ماہ بھی مقبوضہ وادی میںاسی طرح کی کا ر ر و ا ئیا ں ہوئی تھیں تو بھارتی حکومت نے اس تجویز پر غور کیا تھا کہ چوں کہ شہیدوں کے جنازوں میں بڑی تعداد میں نو جوان شریک ہوتے ہیں اس لیے کیوں نہ ان جنازوں میں عوام کی شرکت پر پابندی لگادی جائے۔اس تجو یز پرکشمیری عوام نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا توبھارتی حکو مت ایسا نہ کرسکی۔ واضح رہے کہ جنوبی مقبوضہ کشمیر کے اضلاع، جہاں مبینہ طور پر حریت پسندوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، ان میں پلواما، کولگام، اننت ناگ اور شوپیاں شامل ہیں اوروہاںکے نوجوان غربت اور بے روزگاری کے علاوہ بھارتی فوج کے مظالم سے بھی تنگ آکر حریت پسند وں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ پہلے وہاںنوجوان اتنی شدت سے اور اتنی بڑی تعداد میں مظاہروں میں شریک نہیں ہوتے تھے،لیکن جولائی 2016ء میںنوجوان کمانڈر، برہان وانی کی شہادت کے بعد وہ بڑی تعداد میں آزادی کی جنگ میں شامل ہونے لگے ہیں۔اس طرح برہان وانی کی شہادت سے بھارتی فوج کچھ حاصل نہیں کرسکی بلکہ اس نے حالات کو مزید خراب ہی کیا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں مودی سرکاری آ نے کے بعد ہندو بنیاد پرستی کو مزید بڑھاوا دینےاور پو ر ے بھارت میں مسلم مخالف جذبات مزید ابھارنے کے لیے اس طرح کی کارروائیاں کی جارہی ہیں کیوں کہ اگلے سال بھارت میں عام انتخابات ہونے ہیں اور مودی سرکار اور بی جے پی کی سیاست کا بڑا محور مسلم دشمنی ہے۔ اس لیے یہ مودی کی کوشش لگتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حا لا ت مز ید خراب ہوتے رہیں تاکہ اس کے ردعمل میںہندو اکثریت ایک بار پھر بی جے پی کو اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے تحت پھر اقتدار میں لے آئے۔

دوسری طرف فلسطین میں بھی کم و بیش ان ہی دنوں میں ایسے ہی واقعات ہوئے ہیں۔ یکم اپریل کو شہید ہو نے والے فلسطینیوں کی تدفین کے موقعے پر اسرائیل نے ویسی ہی دھمکیاں دیں جیسی مودی سرکار دیتی رہتی ہے۔ جس طرح بھارتی حکومت اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی بات کرتی ہے اسی طرح اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں کارروائی کرسکتی ہے۔اسرائیلی حکا م کے مطابق غزہ میں حماس نے فلسطینی مظاہرین کو ا ستعما ل کیا ہے تاکہ اس کے اسرائیل کے خلاف حملوں کو چھپایا جاسکے۔ 

اسرائیلی فوج کی کارروائی میں شہید ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد بھی دو درجن تک جاپہنچی ہے۔ بالکل کشمیر کی طرح فلسطین میں بھی شہیدوں کے جنازوں میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیںاورجنازے مظا ہر وں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس صورت حال میں امریکا کا کردار بہت منفی رہا ہے کیوں کہ اس نے اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل کی وہ تجویز رد کردی ہے جس کی تحت فلسطین میں اسرائیلی فوج کی کارروائی روکنے اور جنگی مظا لم کی تحقیقات کرانے کا کہا گیا تھا۔

اسی طرح امریکا میں صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سےبھارت کی تقریباً غیرمشروط حمایت کی جارہی ہے اور مودی سرکار کو ٹرمپ نے اسلحے وغیرہ کی فراہمی تیز کردی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت، جو روایتی طور پر فلسطینیوں کی حمایت کرتا رہا تھا،اب ا مر یکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ادہر سعودی عرب نے بھارتی طیاروں کو اسرائیل جانے کے لیے سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرنےکی اجازت دے دی ہے۔ اس طرح اب سعودی فضائی حدود اسرائیل تک بھارتی رسائی کا ذریعہ بن گئی ہے۔

جس طرح کشمیر میں گزشتہ دنوںہونےوالی شہاد تیں حالیہ برسوں میں کشمیر یوں کی جانب سے دی جانے و الی سب سے بڑی قربانی تھی ،اسی طرح غزہ میں بھی 2014ء کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز دن دیکھنے میں آئے اور اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلاکر اس کی شدید مذمت کی۔ واضح رہے کہ ان دنوں ا سر ائیل اپنے قیام کی سترّویں سال گرہ منارہا ہے اور تمام تر خوں ریزی کا ذمے دار فلسطینی تنظیم، حماس کو قرار دے رہا ہے۔

اگلے ماہ، یعنی مئی 2018ء میں اس واقعے کو ستّر سال ہوجائیں گے جب 1948ء میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ اس دن کو فلسطینی قیامت کا دن بھی کہتے ہیں۔ اس وقت سات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنے گھرچھوڑ کر دربہ در پھرنےپر مجبور کردیا گیا تھا اور مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکا اور برطانیہ، اسرائیل کی پشت پناہی کررہی تھیں۔

اس وقت کسی اسلامی ملک میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی تعد ا د میں مسلم فلسطینیوںکا انخلاروک سکے۔وہ فلسطینی جو صد یو ں سے ان علاقوں میں رہ رہے تھے، اچانک اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبورکردیے گئےتھے۔وہ اب تک اپنے علا قو ںمیں واپس نہیں جاسکتے کیوں کہ وہاں اسرائیل کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میں یہودی آبادکیے جاچکے ہیں۔

آج ایک جانب مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں آگ اور خون کا مکروہ کھیل جاری ہےاوردوسری جانب اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کی قیادت میں ا یک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ نئے سعودی ولی عہد نے تو ایران کے ساتھ جنگ کا امکان بھی ظاہر کردیا ہے۔ اس صورت حال میں باقی مسلمان تو صرف دعائیں ہی کرسکتے ہیں، جو وہ کررہے ہیں۔

تازہ ترین