• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی ولی عہد کا دورہ امریکا

سعودی عرب میں یہ تصور فروغ پا چکا ہے کہ اگر اس کے بارے میں امریکا میںیہ تصور نموپاتا رہاکہ وہ ایک سخت گیر ریاست ہے تومستقبل قریب میں اس کے لیے پریشانیاں بہت بڑھ سکتی ہیں ۔یہ پریشانیاںدور کر نے کی غرض سے نوجوان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلما ن ، بہت تگ و دو کر رہے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ امریکاکے فیصلہ ساز حلقوں میں شاہی خاندان،بالخصوص ان کی قبولیت برقرار رہے۔

وہ ایسے سعودی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ماضی کے بادشاہوں سے مختلف ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنےکے لیے انہوں نے وژن 2030 پیش کیاہے جس کے تحت سعودی عرب میںمذہبی،سماجی اوراقتصادی نوعیت کی تبد یلیاںلانی ہیں اور سعودی معیشت کے تیل پرانحصارکے بجا ئے اسےدیگر شعبوں کے ذریعے مضبوط کرنا ہے۔

اپنی ان کوششوں کے لیے امریکی حمایت حاصل کر نے کی غرض سے سعودی ولی عہد تین ہفتوںکے طویل دورے پر امریکا گئے۔اس دوران انہوںنے امریکی سیا ست دا نو ں کےساتھ ، صحافیوں ، کاروباری افراد اور مذہبی طبقے کے لوگوںسے بھی ملاقاتیں کیں۔یاد رہے کہ سعو د ی عرب میں حال ہی میں انہوں نے عشروں بعدسنیما گھرکھو لنے اور دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ا مریکا کو خوش کرنے کے لیے خواتین پر سے بھی پابند یا ں ،مثلا مخلوط اجتماعات میں شرکت کرنے پر عایدپابندی، ہٹا لی گئی ہیں۔اس وقت ان کےسامنے سب سےبڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سماجی اور مذہبی تبدیلیاں اعلانیہ امریکا اور مغر بی دنیا کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے کر رہے ہیں جس کا ممکنہ رد عمل یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب میں موجود وہ مذہبی عناصر جو ان تبدیلیوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھالیں۔ 

ایسی کسی صورت حا ل سے محفوظ رہنے کے لیےامریکا کی حمایت کو اپنے لیے غیر متزلزل رکھنا اس دورے کا بنیادی مقصدتھا۔اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کےلیے سعودی ولی عہد امریکاکے ممتاز کاروباری افراد سے بھی ملے۔ 

اگرچہ ان ملاقاتوں کی مکمل تفصیلات ذرایع ابلاغ کو دست یاب نہیں ہو سکیں، لیکن یہ اطلاعات سامنے آئیںکہ انہوں نےبل گیٹس، ایمیزون کے سی ای او جیف بیروس اورستیانہ ڈیلا جیسی قد آور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ 

ان کی یہ ملاقاتیں جہاں تیل کی معیشت سے چھٹکارے کی پالیسی کا حصہ ہیںوہیں امریکا کے ہر طبقے سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ویسے وائٹ ہا ئوس میں انہوں نے جیئرڈ کشر ،( جو صدر ٹرمپ کے داماد ا ور یہودی ہیں) کے متعلق کہا کہ وہ ان کے ساتھ پارٹنر کے طور پر نہیں بلکہ دوست کے طور پرمل کر کام کرتے ہیں ۔

کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں کئی شہزادوں کی گرفتاریوں کو اکتوبر 2017میں ریاض میں جیئرڈ کشر کی سعودی ولی عہد سے ہونے والی ملاقات سے جوڑا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں جیئرڈ کشر اصل منصو بہ ساز تھے۔تاہم سعودی ولی عہد نے دورہ امریکا میں اس تاثر کی سختی سے نفی کی ۔

مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ولی عہد کےلیےیہ ہرگز ممکن نہیں تھا کہ وہ اعتراف کر لیتے کہ یہ سب کچھ جیئرڈ کشر کی مشاورت سے ہوا تھا۔ بہ ہرحال ان ہی تعلقات کی وجہ سے حال ہی میں سعودی عرب نےایئر انڈیا کو ا پنی فضائی حدود استعمال کرکےاسرائیل کےلیےپر وا ز یں چلانےکی اجازت دی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نےاس فیصلےکو نہایت دورس اثرات کا حا مل قرار دیا ہے۔

سعودی ولی عہد کی امریکا میںملاقاتوں کے بارے میںکہاجارہا ہے کہ وہ وہاںیہودی مذہبی رہنمائوں سے اس لیےملے کہ سعودی عرب کے پرانے تشخص کو خداحا فظ کہاجا سکے۔ وہ یہودی ربّی،رچرڈ جیکب،پریزیڈنٹ آ ف دی یونین فار ریفارم جوڈیزم، ربّی اسٹیون ورنک ہیڈ آف دی یونائٹیڈ سائنا گاگ آف کنزرویٹو جوڈیزم،ا یلن فیگن، ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ آف دی آرتھو ڈو کس یونین،امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی،دی ا مر یکن جیوش کمیٹی اور دیگر تنظیموںکے لوگوںسےبھی ملے ۔ اسی دوران مختلف اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات میں انہوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سےاپنے سخت موقف کو دہرایابلکہ اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ انتظار کر رہے ہیں کہ گولی آپ کے سر تک پہنچ جائے،لہٰذا ایران کے خلاف قدم آج ہی اٹھا لینا چاہیے۔

عالمی ذرایع ابلاغ میں یمن کی جنگ اور سعودی قیا د ت میں اتحادی افواج کی اسپتالوں اور ا سکو لوں پر بم با ر ی کا بڑا چرچا ہے۔ انہوں نے اس تصور کے جواب میں یہ وضاحت کی کہ ہم انسانی حالات بہتر بنانےکی کو شش کر رہے ہیں۔ 

واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے ایک فرقے کی حمایت کرنے کی سعودی پا لیسی کو سو و یت یونین کے خلاف امریکااوراس کے حما یتیو ں کی حکمت عملی قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم سے کہتے تھے کہ مساجد اور مدارس پر سعودی عرب سے باہرپیسہ خر چ کر و۔باالفاظ دیگر وہ یہ کیس پیش کر رہے تھے کہ یہ انتہا پسند ا نہ سوچ صرف سعودی عرب کی وجہ سے نہیں پھیلی بلکہ اس کے پس منظر میں امریکاکی حکمت عملی کار فرما تھی، اس لیے ا ب صرف سعودیوںکو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے اور اس صورت حال سے نکلنے میں ان مدد کی جائے۔ 

حالاں کہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں ایران، قطر ، یمن اور ا خو ا ن المسلمون کے حوالے سے وہ اب بھی امریکی پالیسی ہی پر تو عمل پیرا نہیں ہیں اور کہیںمستقبل قریب میں اس سے ہو نے والے نقصانات اس حد تک تو نہیں بڑھ جائیں گے کہ سعودی عر ب دوبارہ حجاز کہلانے لگے۔

جب شہزادہ محمد بن سلمان امریکاکے دورےپر تھے تو غزہ میں اسرائیل کافلسطینیوںپر ظلم وستم عروج پر تھا اوراسرئیلی فوج فلسطینیوں کے لاشے گرا رہی تھی۔ فلسطینیو ں نےاپنے آبائی علاقوں میں واپسی کےلیے د ھرنے اور پھرمارچ کا شیڈول ترتیب دیاہےجو 15 مئی تک کا ہے۔ 

لیکن اسرائیل کی سفاکیت نے 1948سے بے دخل ا فر ا د کی اپنےعلاقوں کی جانب واپسی کی خواہش کو خون آلود کر دیا ہے اور المیہ یہ ہے کہ امریکانے سلامتی کونسل میں غزہ کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔یہ ہونا ہی تھا، کیوں کہ ہم باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین