• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں 4اپریل کا دن یومِ سیاہ ہے اس دن 1979میں عظیم عوامی رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل درحقیقت انسانیت اور عوامی آواز کاقتل تھا۔ تاریخ کبھی ایسے رہنما کا قتل معاف کرے گی اور نہ بھولے گی جو ہمیں مسلم دنیا کی پہلی جوہری جوہری طاقت بنا کر ہمیں ایک عظیم، ترقی یافتہ، پُرامن اور قوم بنانا چاہتا تھا۔ انھیں خوف تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک بھارت سے بیرونی خطرات کا سامنا ہوگا لہذا انھوں نے اعلان کیاکہ’’ ہم(پاکستان) گھاس کھائیں گے، حتیٰ کہ بھوکے بھی رہیں گے لیکن ہم اپنا ایٹم بم بنائیں گے، ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹوشہید ایک ایسے رہنما تھے جنھوں نے سویت یونین کے خاتمے اور ایشیاکے مستقبل کو بھانپ لیاتھا۔ شہید بھٹو نے بین الاقوامی دبائو کے آگے جھکنے سے انکار کیا اور پاکستان کا جوہری پروگرام ختم کرنے سے انکار کردیا۔ جیرالڈ جیورسٹن جواس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے درمیان اگست 1976 کو لاہور میں ہونےوالی ملاقات کے عینی شاہد تھے، انھوں نے ایک انٹرویومیں تسلیم کیاکہ بھٹونے پاکستان کا جوہری پروگرام ختم کرنے سے انکار کردیاتھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹوکے دل میں عوام، ملک اور مسلم امہ کیلئے درد تھا ، اور انھوں نے1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامک کانفرنس میں مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے تاریخ رقم کردی۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز قومی رہنما تھے بلکہ ایک ایسے بے مثال سیاستدان تھےجنھوں نے ڈھاکا کی علحیدگی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار قوم کو متحد کیا اور 90ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لائے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو بھارتی ذہنیت کواچھی طرح سمجھ چکے تھے جو کبھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی لیکن انھوں نے تمام بین الااقوامی فورمز پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل حق خودارادیت میں ہی ہے۔ ہر مسئلے کیلئے ان کی سوچ منطقی، مستند اور حقیقت پسندی پر مبنی تھی۔ کئی دہائیوں تک ملک آئین سے محروم رہا لیکن انھوں نے ایک ایسا آئین دیا جسے تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا۔ انھیں پاکستان اورمسلم امہ دونوں ہی پیارکرتے تھے۔ پاکستان میں جتنے بھی رہنما آئے ہیں بھٹو ان میں سب سے زیادہ کرشمائی رہنما تھے۔ حتیٰ کہ آج بھی مسلمان بھائی پاکستان کو ’’بھٹوکا پاکستان‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹونے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات استوار کیے اور چین کےساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھی جس نے تمام مشکلات میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہورہاہے اور اس کی ایک زندہ مثال سی پیک میں نظر آتی ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے دشمنوں نے اُن کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیاتھا جب بیرونی دبائو اور انھیں ایک ’’خوفناک مثال‘‘ بنانے کی دھمکی کے باوجودانھوں نے پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام شروع کیااور اُسے ختم کرنے سے انکار کردیا۔ سی آئی اے نےجنرل ضیاکےذریعےاسلام کواستعمال کرتے ہوئے کمیونزم کو روکنےکا منصوبہ تیا رکیا۔ انھوں نےجہاد کےنام پر اپنی طرز کا اسلام پھیلایا، شدت پسندی، دہشتگردی اور ہر قسم جرائم کو فروغ دیا۔ پاکستان میں یہ انتہا پسنداور جرائم پیشہ عناصر امریکا نے پیدا کیے اور انھیں فروغ دیا تاکہ انھیں افغانستان میں بھیجا جائے۔ اپنے آقاکا حکم نافذ کرنے سے پہلے جنرل ضیاءالحق نے شہید ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی کو یقینی بنایا انھیں صدر ایوب خان کی قسمت کا اندازہ بھی نہیں تھا جن کا عروج اس وقت ختم ہوگیا جب امریکا نے اُن کی حمایت ختم کردی تھی۔ قدرت نے جنرل ضیاءالحق اور اُن کےاُن ساتھیوں سے کس طرح انتقام لیاجنھوں نےآرمی ہائوس میں جنرل اخترعبدالرحمان اورجنرل ضیاءالحق کی موجودگی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش تیار کی تھی۔ اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی اے ڈبلیو جے کیسی نےاپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ کس طرح جنرل ضیاء کو فلسطینیوں کےخلاف آپریشن کےلیے اردن میں سپیشل پوسٹنگ کےدوران بھرتی کیاگیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ ہی وقت تھا ائیرکموڈور خاقان عباسی کوبھی اردن کی ائیرفورس کیلئے بطورمشئیرپوسٹنگ ہوئی اور دونوں خاقان عباسی اور ضیاءالحق اردنی آرمی چیف کے ماتحت رہے اور دونوں اچھے دوست بن گئے۔ آج کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اسی ماحول میں اور جنرل ضیاءالحق کے بچوں کے ساتھ پلےبڑھے۔ یہ وراثت جاری رہی جہاں ضیاءالحق نے بھٹو مخالف اپنی ٹیم تیار کی جس میں چوہدری ظہور الہیٰ، غلام دستگیر خان، راجہ ظفرالحق اور میاں نواز شریف شامل تھے۔ ایک بار مجھے آرمی ہائوس میں ایک سرکاری تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کیونکہ اسی دن پاکستان کےچیف جسٹس نےسزائے موت برقرار رکھی اور اپنے فیصلے کیلئے مبارک باد وصول کررہے تھے۔ چیف جسٹس کےساتھ کھڑے جنرل ضیاءالحق بھی اپنی ہی تیار کردہ سیاستدانوں اور اپنےسینئیرساتھیوں سے مبارک باد وصول کررہے تھے۔ بے شرمی سے وہ سب ایک کرشمائی رہنما کی موت پر خوشیاں منا رہے تھے۔ اسی صبح میں نے ایک اور واقعہ بھی دیکھا ہے جب چوہدری ظہورالہیٰ نے جسٹس انوارالحق سے ملاقات کی اور انھیں وہ قلم دینے کیلئے کہا جس سے انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت تحریر کی تھی۔ یہ کال ویسٹرج ہائوس سے کی گئی تھی جہاں سپریم کورٹ کی پرانی عمارت واقع تھی۔ میں نے وہ قلم دیکھا۔ بالآخر میں نے سنا کہ آرمی ایوی ایشن نے ذوالفقار علی بھٹو کے جسدخاکی کو لے جانے کی ریہرسل کی ہے۔ یہ ناقابلِ یقین تھا کہ اگلی ہی صبح شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی اور خاموشی سے دفن کردیاگیا۔ انھوں نے پُراسرار طور پر بھٹو کو پھانسی دے دی لیکن اُن کی بہادر بیٹی اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بےنظیربھٹو اپنے والد کے سیاسی ورثےکوزندہ کردیا۔ انھوں نے ضیاءالحق کے ہاتھوں کافی ظلم برداشت کیا لیکن بالآخرانھوں نے سی ون تھرٹی ہرکیولس کا حادثہ بھی دیکھا جس میں ضیاءالحق کا جسم بھی نہ مل سکا۔ جسٹس مولوی مشتاق بھی خدا کےقہرکا شکار ہوا ان کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیاتھا جس کے بعد جنازے میں شریک افراد کو قبرستان سے بھاگنا پڑا تھا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ جنرل ضیاالحق میری اور آصف زرداری کی شادی نہیں چاہتے تھے لیکن اللہ کی جانب سے یہ لکھا جاچکا تھااور یہ ہوکررہا لیکن انھوں نےاِسے رکوانے کی بہت کوشش کی، یہ ایک اور موضوع ہے اور میں آئندہ بیان کروں گا۔ بطور ڈائریکٹرایف آئی اے میں نے خود شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی فائلیں دیکھیں ہیں، وہاں میں نے کچھ خراب کیے گئے دستاویزات بھی دیکھے اور جلد میں ایک شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر ایک کتاب لکھوں گا۔ جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے دستاویزات تبدیل کیے لیکن تمام دنیا اسے ایک عدالتی قتل قراردیتی ہے۔ میں اس وقت کے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لاء کو داد دیتا ہوں جنھوں نے واضح طور پر بیان کیاکہ گولیوں کے شیل تبدیل کیے گئے تھے، شواہد کو بگاڑا گیا، ملزمان کو رہائی کا یقین دلایا گیا اور مسعود محمود کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور درحقیقت مسعود محمود کی پہلی گواہی مجسٹریٹ غضنفرضیا نے سی آر پی سی کی شق 164کے تحت ریکارڈ کی، اس نے کبھی ذوالفقارعلی بھٹو پر الزام نہیں لگایا تھا۔ مجسٹریٹ نے گواہی قانونی طریقہ کار کے تحت لی اور میں نے اپنی تحقیقات کے دوران اُن سے ملاقات کی وہ اس وقت کھاریاں میں اپنے گائوں میں رہائش پزیر ہیں۔ مسعود محمود کا بیان بدلنےمیں غضنفرضیاء کی ناکامی کے بعد فائل کو لاہور ٹرانسفرکردیاگیا اور پھر سی آر پی سی کی شق 164کے تحت ایک دوسری گواہی ضیاء کے وفادار مجسٹریٹ قریشی نے ریکارڈ کی جس میں مسعود محمود کا اعترافی بیان تھا۔ یہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کرنے کی سازش کا آغاز تھا۔ لیکن کافی بوجھ تلےدبی فائلوں کو بھی سامنے آنا چاہیے کیونکہ سچائی کو سامنے لانے کا یہ بہترین وقت ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرکے بھٹوازم کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال وہ دلوں پر حکمرانی کرتاہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ تمام مسلم رہنما جنھوں نے 22فروری 1974کو لاہور میں ہونے والے اسلامی کانفرنس میں شرکت کی تھی وہ سب غیرطبعی موت مرے۔ بلا شک و شبہ ان تمام مسلم رہنماوں کا مرنا حادثاتی نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل بین الااقوامی طور پر ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھا۔ بھٹوخاندان پر ظلم جاری رہاپہلے ذوالفقار علی بھٹوکومارا گیا پھرضیاءالحق نےسی آئی اے کےآپریٹرکواستعمال کرتے ہوئے اُن کےبیٹےشاہ نواز بھٹوکوفرانس میں بیوی کے ذریعےقتل کروادیا۔ ملزم فرار ہوگیا جبکہ اس کے خلاف قتل کا مقدمہ زیرسماعت تھا۔ میں اپنی ذاتی حیثیت میں وہ تمام حقائق سامنے لائوں گا جوفائلوں میں دبے ہوئے ہیں۔ ہم پی پی پی کے کارکنان اور صدر آصف زرداری نے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا لیکن اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس پرسماعت نہیں کی۔ لہذا میں نے موجودہ چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے انصاف دلائیں۔ بھٹو خاندان نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ وہ دن یاد کرکے میری آنکھوں میں آنسوآجاتے ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار مجھے بتایا کہ میرے والد نے ایک بار مجھے اُن لوگوں سے دور رہنے کی نصیحیت کی تھی جو مجھ سے حقائق چھپاتے ہیں اور خوشامد کرکے گمراہ کرتے ہیں اور ہمیشہ مشورے کیلئے تیار رہواور اپنے فیصلے کرو۔ آج مجھے یقین ہے اور میں کافی پُرامید ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے بڑوں کا مشن آگے بڑھائیں گے۔ بھٹو کے نظریات پوری دنیا میں مقبول ہیں اور انھوں نے اپنی زندگی کی قربانی دے دی لیکن پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام ختم نہیں کیا اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنی زندگی بچا سکتے تھے اگر وہ ایک آمر کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے، جو ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنما کیلئے ایک ناممکن کام ہوتا ہے۔ آج صرف بھٹو کے ویژن کے باعث پاکستان محفوظ ہے اور مستقبل پی پی پی رہنما بلاول بھٹو زرداری کا ہے کیونکہ ان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ لینےکی خصوصیات ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری مستقبل میں پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے، لہذا پاکستان کے لوگ اپنے رہنما بھٹو کو ایک بار پھر اپنے درمیان پائیں گے۔

تازہ ترین