• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بگڑتی ہوئی اولادکے ذمہ دار کون؟ ماں, باپ, اسکول یا پھر معاشرہ؟

نیک اولاد اﷲتعالیٰ کا عظیم انعام ہے، اولادِصالح کےلیے اﷲتعالیٰ کے نبی حضرت زکریاعلیہ السلام نے بھی دعاکی ،چنانچہ قرآن پاک میںہے ’’اے میرے رب،مجھے پاک اولاد عطافرما‘‘۔(سورۂ آل عمران) اور خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی: ’’اے میرے رب، مجھے نماز قائم کرنے والارکھ اور میری اولاد کو‘‘۔ (سورۂ ابراہیم) یہی وہ نیک اولاد ہے جو دنیا میں اپنے والدین کےلیے راحتِ جان اورآنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ 

نیک اولاد بچپن میں اپنے والدین کےلیے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور اور والدین کے بوڑھے ہو جانے پر ان کی خدمت کرکے سہارا بنتی ہے۔

پھر جب والدین دنیا سے گزر جاتے ہیں، تو یہ سعادت مند اولاد اپنے والدین کےلیے بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیساکہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔سوائے تین کاموں کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ (۱) صدقۂ جاریہ(۲) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے(۳) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔(صحیح مسلم) ایک اور مقام پر نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں آدمی کا مقام(درجہ) بڑھا دیا جاتا ہے تووہ کہتا ہے:’’میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟ تو جواب ملتا ہے ، اس لئے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لئے مغفرت طلب کرتا ہے (ابن ماجہ) تفسیر کبیر میں ایمان افروز ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر پر گزرے تو اس قبر پر عذاب ہو رہاتھا، کچھ وقفہ گزرنے کے بعد پھر گزرے توملاحظہ فرمایا کہ نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت الٰہی کی بارش ہو رہی تھی۔ 

آپ بہت حیران ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ مجھے اس راز پر مطلع فرمائیں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہوا:’’اے عیسیٰ! یہ سخت گناہ گار تھا، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا، وفات سے قبل اس کی بیوی حاملہ تھی۔ اس کا لڑکا پیدا ہوا اور آج اسے مکتب (مدرسہ) بھیجا گیا۔ استاذ نے اسے بسم اللہ پڑھائی، مجھے حیاآئی کہ میں زمین میں اس شخص کو عذاب دوں، جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے۔ یقیناًوہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک اور صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد نیک یابد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہو تا ہے۔ 

موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار اور ارتکاب گناہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ تکمیل ضروریات اور حصولِ سہولیات کی جدوجہد نے انسان کو فکر آخرت سے یکسر غافل کر دیا ہے۔ ان نامساعد حالات کاایک بڑا سبب والدین کااپنی اولادکی تربیت سے یکسر غافل ہوناہے ،کیونکہ فردسے افراداور افرادسے معاشرہ بنتاہے تو جب فردکی تربیت صحیح خطوط پرنہیں ہوگی تو اس کے مجموعہ سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوںحالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ؟جب والدین کامقصد حیات حصول دولت،آرام طلبی ،وقت گزاری اورعیش کرنابن جائے تووہ اپنی اولادکی کیاتربیت کریں گے اورجب تربیت اولادسے لاپروائی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو والدین ہرکس وناکس کے سامنے اپنی اولادکے بگڑنے کارونا روتے ہیں،عموماًدیکھا گیا ہے کہ بگڑتی ہوئی اولادکے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پرعائد کرکے خودکو بری الذمہ سمجھتے ہیں، مگر یا درکھیئے اولاد کی تربیت صرف ماںیامحض باپ کی نہیں،بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اﷲتعالیٰ نے ارشادفرمایا ’’اے ایمان والو!اپنی جانوںاور اپنے گھروالوں کواس آگ سے بچاؤجس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت طاقت ورفرشتے مقررہیں جو اﷲکاحکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو،وہی کرتے ہیں‘‘۔(سورۂ تحریم)جب نبی کریم ﷺنے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرامؓ کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ عرض گزارہوئے !یارسول اﷲﷺہم اپنے اہل وعیال کوآتش جہنم سے کس طرح بچاسکتے ہیں ؟سرکارِمدینہ نبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا !تم اپنے اہل وعیال کو ان چیزوں کاحکم دوجو اﷲتعالیٰ کومحبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو، جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔(الدرالمنثور)

اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشادفرمایا ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے رہواور خودبھی اس کے پابند رہو۔(سورۂ طہٰ)سورۂ نساءمیں ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اﷲتعالیٰ تمہیں حکم کرتا ہے تمہاری اولادکے حق میں‘‘۔ حضورعلیہ السلام نے ارشادفرمایا: اپنی اولاد کوتین چیزیں سکھاؤ، نبی کریم ﷺاور ان کے اہل بیتؓ کی محبت اور قرآن کی تلاوت۔ (طبرانی ) قرآن کریم کی ان تعلیمات اور ارشادنبویؐ کی رہنمائی کی وجہ سے ہردورمیں تربیت کرنے والے حضرات نے بچوں کی تربیت کا خوب اہتمام کیا، ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا، والدین اور ذمہ دارافراد اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کےلیے ایسے اساتذہ ومعلمین کا انتخاب کیاکرتے تھے جو علم وادب کے لحاظ سے بلند وارفع ہوں،تاکہ وہ بچے کوصحیح عقیدہ واخلاق سکھائیں اور اسلامی تعلیم کے فریضے کوبہ حسن و خوبی ادا کرسکیں۔

                       قربِ قیامت اور آنے والے فتنے

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’رات کے اندھیروں کی طرح (مسلسل) آنے والے فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے (نیک) اعمال کر لو۔جن میں صبح آدمی مومن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہو چکا ہوگا اورلوگ دنیا کے چند روپوں کی خاطر اپنا دین بیچ دیں گے۔‘‘(صحیح مسلم)

(حاجی محمد حنیف طیب)

تازہ ترین
تازہ ترین