پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ہم ایک بارپھردوراہے پرکھڑے ہیں۔اگرچہ اس سے پہلے، جغرافیائی محل وقوع نے کئی بارہماراہاتھ تھامااورقسمت کی دیوی ہم پرمہربان ہوتی رہی لیکن خوش بختی کے یہ لمحے ساحلوںکی ریت کی مانندہماری مٹھی میںکبھی دیرتک رک نہ سکے۔منظربدلنے کے ساتھ ہمارے ہاتھ ہمیشہ خالی ہوتے مگرہمارے چہرے قدیم خوش فہمیوں اور فاتحانہ احساس ِبشاشت کے شناسافریب میںپہلے سے کہیں زیادہ گلنارہوجاتے۔
اپنے ماضی قریب کی تاریخ پراگرنظرڈالیںتویہ احساسِ بشاشت ہمیں جابجا بکھرا نظر آتا ہے۔ 1980کی دہائی میںسوویت یونین کے خلاف امریکہ کی پراکسی وار میں جب روسی افواج، افغانستان چھوڑ کر واپس جارہی تھیں تو ہمیں اللہ کا سپاہی کہلانے پر اصرار تھا اور ہم پورے مغرب کے راج دُلارے تھے۔پھرکچھ عرصے کے بعد سوویت یونین نے اپنی ذیلی ریاستوںکے اضافی اقتصادی بوجھ اوربیمارمعیشت کے بوجھ تلے دب کردم توڑدیااوردوسری جنگ عظیم کے اختتام سے شروع ہونے والی40برس طویل سردجنگ میں امریکہ کامیاب رہا تو یہ کامیابی اسے دنیا کی واحد سپر پاور بنا چکی تھی مگر چہرے ہمارے گلنار تھے اور ہم دیر تک اس خوش فہمی میںمبتلارہے کہ دنیاکی دوسری سب سے بڑی طاقت کوشکست ہماراہی کارنامہ تھا۔بیرونِ ملک اس دعوے کوپذیرائی توکیاملتی، ملک کے اندر ہمارے افتادگانِ خاک کویہ دعویٰ نہال کر گیا۔ دکھ درد کے مارے ہوئے ان لوگوںکی اکثریت اپنی بھوک اور بے بسی کوبھول کراس شناسافریب کے نشے میںایسے سرشارہوئی کہ وہ دیرتک اسے اسلام کی نشاطِ ثانیہ سے کم سمجھنے پرآمادہ نہ تھی۔خودفراموشی کی اس کیفیت میںشایدہم نے یہ بھلادینابھی مناسب سمجھاکہ سوویت یونین کے خلاف اس پراکسی وارکے عوض ہم امریکہ سے تین اعشاریہ دوبلین ڈالرکی رقم سرکاری طورپروصول کررہے تھے جب کہ اس کے مساوی رقم پرائیویٹ سیکٹرکے’’مجاہدین‘‘تک مڈل ایسٹ کے امریکی اتحادیوںکی طرف سے غیرسرکاری طورپربھی پہنچ رہی تھی۔یہ مجاہدین افغانستان میںمصروفِ کارتھے۔
پاکستان میںیہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور تھا اور ملک میںہرطرف اسلحے،امدادی ڈالر، ہیروئن، اسٹنگر میزائل،40لاکھ افغان مہاجرین اورمجاہدین کی فراوانی تھی۔ حکمران فوجی ڈکٹیٹراوراس کی اشرافیہ کو افغان جنگ سے ایک اضافی فائدہ یہ حاصل ہواکہ انہیںنیم مذہبی،نیم سیاسی جماعتوںاورمذہبی شدت پسندوںکی صورت میںمستقل اتحادی مل گئے جوافغانستان میںطالبان کے عروج تک قدم سے قدم ملاکراپنے نظریہ سازوںکے ساتھ چلے اوریہ طالبانی عروج اس پاکستانی ڈاکٹرائن DOCTRINE کارہین ِ منت تھاجس نے ہمارے گمان کوپختہ کردیاکہ ہمیں افغانستان کے اندر مطلوبہ حربی یا تزویراتی گہرائی STRATEGIC DEPTH کی سہولت مستقل بنیاد پر حاصل ہوسکتی ہے۔ یہی وہ پیرا ڈائمPARADIGMہے جو ضیاء الحق کے بعد طویل عرصے کے لئے بلکہ آج تک ہماری عالمی بے اعتمادی کی توثیق میںایک ناپسندیدہ مگر اہم عمل انگیز CATALYST ثابت ہواہے۔
آج بھی کہاجاتاہے کہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ہم ایک بارپھردوراہے پرکھڑے ہیں۔اس بارہم سے جس فیصلے کی توقع کی جارہی ہے وہ ڈومورDO MOREکے مطالبے سے براہ راست جڑا ہواہے۔امریکہ آج بھی کابل سمیت افغانستان کے مشرقی اورجنوبی علاقوںمیں دہشت گردی کاذمہ دارپاکستان کوٹھہراتاہے اوراُس کایہ اصراربھی ہے کہ ان طالبان کے مستقل ٹھکانے پاکستان میں ہیں جہاں انہیںدہشت گردی کی تربیت اورمنصوبہ بندی کی وافرسہولتیںبھی حاصل ہیں۔پاکستان نے ایسے تمام الزامات کی بڑی شدومداورتفصیل کے ساتھ تردیدجاری کرنے میںکبھی کوتاہی نہیںکی۔توکیا یہ سلسلہ اسی طرح غیرمعینہ مدت تک جاری رہ سکتاہے ،یقیناََنہیںاوراس کے آ ثارروزروشن کی طرح واضح ہیں۔امریکہ کی طرف سے ہمیں فوجی امدادتوکیا حاصل ہوتی کولیشن فنڈزکی ترسیل بھی گزشتہ سال سے مکمل تعطل کاشکارہے جودہشت گردی کے خلاف عالمی کولیشن اورنان نیٹواتحادی کی حیثیت سے گزشتہ ستمبرمیںاداہو جانا چاہیے تھی۔دوسرے مرحلے میںہمیںمعاشی طور پر تنہاکرنے کے عمل کاآغازہوچکاہے۔عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کوگرے لسٹ میںشامل کرچکی ہے جودراصل پاکستان کے لئے تین مہینے کانوٹس پیریڈہے۔اگراس دوران ہم اپنے ملک میں موجود دہشت گردتنظیموںاوران کے سہولت کاروںکی ترجیحی مالی ناکہ بندی میںکامیاب نہیںہوتے توہمیںبلیک لسٹ میںشامل کیاجاسکتاہے۔جس کے نتیجے میںنہ صرف عالمی مالیاتی اداروںکاتعاون حاصل کرنے میں ہمیں غیرمعمولی دقت پیش آسکتی ہے بلکہ انفرادی اورسرکاری سطح پربھی بیرون ملک تجارت،ترسیلِ زر اور ادائیگیوں کے نظام میںغیرضروری خلل کے امکان کو نظر انداز نہیںکیاجاسکتا۔
یقیناً یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔توایسے اقدامات کے جواب میںپاکستان نے کسی منفی ردعمل کامظاہرہ کیوںنہیںکیا؟ جیسے پاکستان بھی افغانستان میں امریکی فوج کے لئے اپنی فضائی حدوداورزمینی راستوں کے استعمال پرپابندی لگاسکتاتھایااس سہولت کا معاوضہ وصول کرسکتاتھا؟
پاکستان کے پاس یہ آپشن ہمیشہ سے موجود تھا اور آج بھی ہے۔اگر یہ آپشن ہم اس ملک کے خلاف استعمال کررہے ہوتے جوآج بھی دنیاکی تنہا سپرپاور ہے ، وہ کسی دوسرے راستے سے بھی یہ سامان ائیرلفٹ کرسکتا تھا لیکن پاکستان کو اپنا آپشن استعمال کرنے میں سراسر نقصان کے سواکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسے اقدام کے نتیجے میں ہم امریکہ کے ساتھ اس کے اتحادیوں کو بھی صرف اپنامخالف ہی بناسکتے ہیں اورعالمی فنانشل ٹاسک فورس کے اجلاس میں ہم دیکھ بھی چکے ہیں کہ37ممالک پرمشتمل اس فورم کے تمام اراکین امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے اور پاکستان تنِ تنہا، جب کہ چین اور سعودی عرب جیسے ہمارے بہترین دوستوں میں سے اگر ایک بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو جاتا تو ہم گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچ سکتے تھے کیوںکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔
جب امریکہ میں نائن الیون برپا ہوا تو اس سے چند برس پہلے، آج کی طرح ہماری عالمی تنہائی کا آغاز ہوچکا تھا۔ افغانستان کاداخلی منظرنامہ بھی تبدیلیوں کی زدمیں تھا جہاں اسامہ بن لادن کی آمدکے بعدہم ایک بارپھرخالی ہاتھ بھی تھے اورعالمی برادری کے الزامات کانشانہ بھی۔ اقوام متحدہ پاک افغان سرحدپراپنے مبصرین کی تعیناتی کافیصلہ کرچکی تھی اس الزام کی تصدیق کیلئے کہ حکمران افغانی طالبان کوملنے والااسلحہ تواترکیساتھ پاکستان کے راستے افغانستان پہنچ رہاتھا۔یواین مبصرین کی تعیناتی کاعمل ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا۔افغانستان میںہم حربی گہرائی ڈاکٹرائن کے نام پرمحض وہم اورسایوںکاتعاقب کررہے تھے اورہمارایہ سفرعالمی بہائوکی مخالف سمت میںتسلسل کیساتھ جاری تھاکہ امریکہ میںنائن الیون برپا ہوگیا اور ایک بار پھر جغرافیے نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں دریاکے پارمحفوظ اتاردیا۔ہم سے پوچھاگیاتھاکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میںہم کس کیساتھ ہیں؟ ہمارے پاس کوئی دوسری چوائس نہیںتھی اورہم دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میںامریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بن گئے۔آج ایک بارپھرہم بتدریج عالمی تنہائی کی طرف بڑھ رہے ہیں مگرہمارے پاس چوائس موجودہے۔کیاہم اپنے دوست چین،ترکی اورسعودی عرب کی راہِ عمل اختیارکرنے کوترجیح دیںگے یاعالمی تنہائی میںرہتے ہوئے محض کسی اورجغرافیائی معجزے کے منتظر۔