• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ) کے زیر اہتمام ہڈیوں کی بیماریوں پر پبلک ہیلتھ سیمینار منعقد کرایا گیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر نگہت میر، ڈاکٹر افضل ہمدانی نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں صرف 51روماٹالوجسٹ ہیں۔ عزیز قارئین! ہڈیوں کے امراض کو دو طرح کے ڈاکٹرز ڈیل کرتے ہیں۔ روماٹالوجسٹ اور آرتھو پیڈک سرجن، روماٹالوجسٹ بغیر سرجری کے ہڈیوں کی تکلیفوں کو دور کرتے ہیں جبکہ آرتھوپیڈک سرجن حادثات میں ٹوٹنے والی ہڈیوں اور پیدائشی ٹیڑھی یا عمر کے ساتھ ساتھ ٹیڑھی ہونے والی ہڈیوں کا بذریعہ سرجری علاج کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہڈیوں کی بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جن کا بروقت علاج کرکے انسان مختلف پیچیدگیوں اور سرجری سے بچ سکتا ہے لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عوام کی صحت کے لئے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے اور باہر کے ممالک سے بھی بہترین ماہرین کو بلوا رہی ہے وہاں پر صرف 51 روماٹالوجسٹ حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہیں؟ اس وقت حالات یہ ہیں کہ لاہور کی آبادی 2 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے وہاں پر صرف 14 روماٹالوجسٹ ہیں۔ کراچی جس کی آبادی 3کروڑ کے قریب ہو چکی ہے وہاں 13 روماٹالوجسٹ ہیں جبکہ ملتان جیسے بڑے شہر میں صرف 1، فیصل آباد میں1، ساہیوال میں1، پشاور میں 6 اور راولپنڈی میں 14 ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر تاجور پی صابر نے ہمیں بتایا کہ پشاور میں صحت کے بہت مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں ابھی اتنی سینئر ڈاکٹر نہیں، پھر بھی میری ویٹنگ لسٹ چار ماہ کی ہے‘‘۔
عزیز قارئین! ہڈیوں کادرد اور تکلیفیں نہ صرف اذیت ناک ہیں بلکہ ان کا مہنگا علاج بھی ہے۔ البتہ اگر بروقت ہڈیوں کے ماہرین سے مشورہ اور علاج کروا لیا جائے تو بہت سی پیچیدگیوں اور اخراجات سے بچا جاسکتا ہے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ حکومتی سطح پر روماٹالوجی کے ماہرین کو اہمیت نہیں دی گئی۔ حکمرانوں نے عوام کا جوڑ جوڑ ہلا دیاہے۔
پاکستان میں جوڑوں کا درد بہت عام ہے اور ہر عمر کے افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ خصوصاً پچاس سال کے بعد تو اکثریت آرتھرائٹس میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ آرتھرائٹس ایک عام بیماری ہے۔ کوئی بھی مرض جب ایک خاص سطح سے تجاوز کر جاتا ہے تو وہ جسم کے اندرونی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ آرتھرائٹس کی تقریباً ایک سو کے قریب اقسام ہیں اور ہر کسی کی علامات، تشخیص اور طریقہ علاج مختلف ہوتا ہے۔ تشخیص میں دیر اور نامناسب علاج کے باعث اکثر مریض کو معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرض کی ایڈوانس اسٹیج پر وہ مریض پہنچتے ہیں جن کو علم نہیں ہوتا کہ ان کو کون سا مرض لاحق ہے، مگر یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور لاعلاج نہیں ہے۔ اس مرض کا زیادہ اثر ہاتھوں اور ٹانگوں پر ہوتا ہے جیسا کہ ہاتھوں اور انگلیوں کے چھوٹے جوڑ، پائوں کا انگوٹھا، پائوں کی انگلیاں، ٹخنے اور کلائیوں پر اس بیماری کا زیادہ حملہ ہوتا ہے۔ جوڑوں کے اوپر ایک حصے میں لائننگ ہوتی ہے وہاں پر یہ سوجن ہوتی ہے۔ جب یہ سوجن ایک حد سے تجاوز کرتی ہے تو جوڑوں کے آس پاس کے ٹشوز کو متاثر کرتی ہے۔ جب مرض آخری مرحلے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر ادویات کام نہیں کرتیں اور اس وقت پھر سرجری کی ضرورت پڑتی ہے۔
ذرا دیر کو سوچیں کہ پاکستان کے سینکڑوں شہروں اور ہزاروں دیہات میں اس بیماری کا کوئی ماہر نہیں ہے۔ یقینی بات ہے کہ وہ لاکھوں مریض عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنی زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں یا پھر زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ عطائی صرف وہ ڈاکٹر نہیں جن کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں، عطائیت اس زمرے میں بھی آتی ہے کہ جو ایم بی بی ایس کی ڈگری رکھنے کے باوجود اس شعبہ میں ماہر نہیں ہوتے یا غلط علاج کرتے ہیں اور غیر ضروری ٹیسٹ کرواتے ہیں یا ادویات اوور ڈوز دے دیتے ہیں، یہ بھی عطائیت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہر ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو میں روماٹالوجی کے مراکز قائم کرے۔ ویسے تو پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے دو سال قبل ہمارے ایک سیمینار میں وعدہ کیا تھا کہ ہر ڈسٹرکٹ میں لازمی طور پر جوڑوں و ہڈیوں کے علاج کے مراکز یعنی روماٹالوجی سینٹر قائم کئے جائیں گے مگر بقول شخصے ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو‘‘۔
بقول مرزا غالب:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تیرے وعدے پر جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہمارے ملک میں لوگ نہ تو دھوپ میں بیٹھتے ہیں کہ ہڈیاں مضبوط ہو جائیں۔ نہ خالص دودھ ملتا ہے اور نہ اچھی غذا، جس کی وجہ سے ہڈیوں کی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ لڑکیاں تو دھوپ میں بالکل نہیں بیٹھتیں کہ رنگ نہ کالا ہوجائے۔ اور دوسری جانب حالات یہ ہیں کہ روزانہ بے شمار افراد حادثات کی وجہ سے جسم کی مختلف ہڈیاں تڑوا بیٹھتے ہیں، نہ ہی لوگوں کو ٹریفک سینس ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار آئے دن ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں روماٹالوجی کے ڈیپارٹمنٹس قائم کئے جائیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر ملک بیماریوں کی شرح کو مدنظر رکھ کر اپنے ماہرین تیار کرتا ہے لیکن پاکستان میں اس حوالے سے کوئی بھی ریسرچ نہیں ہوئی۔ مثلاً پاکستان میں پچھلے دس برسوں سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی بہت بڑھ رہا ہے اور ہڈیوں کی بیماریوں اور دل اور گردے کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں ان چاروں شعبوں میں ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔ مگر لگتا ہے کہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں صحت اور تعلیم نہیں ہے البتہ کارروائی ضرور ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان، گلگت، سکردو اور آزاد کشمیر میں کوئی بھی روماٹالوجسٹ نہیں ہے۔ سوچیں کہ وہاں پر لوگ کس اذیت میں مبتلا ہیں۔ امریکہ میں جو پیرامیڈک اور نرسوں کے ساتھ اسٹاف برس ہا برس کام کرتا ہے انہیں فزیشن اسسٹنٹ اور نرس پریکٹیشنر کا نام دیا جاتا ہے، یہ مکمل ڈاکٹر نہیں ہوتے لیکن کسی حد تک مریضوں کے علاج معالجے میں معاونت کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ میڈیکل کے ہر شعبے میں میڈیکل ماہرین کی کمی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والے عملے کو اتنے اعلیٰ پائے کی تربیت دی جائے کہ وہ مریضوں کے علاج میں معاونت کرسکیں۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر و معروف ڈاکٹر ریاض احمد تسنیم نے ہمیںبتایا کہ 70ء کی دہائی تک ایل ایس ایم ایس دو سالہ کورس اور میڈیکل اسسٹنٹ کے کورسز ہوا کرتے تھے۔ امریکہ میں اس وقت پانچ ہزار روماٹالوجسٹ ہیں اور ایک ہزار روماٹالوجسٹ کی ضرورت ہے جبکہ آبادی 32کروڑ ہے۔ ان لوگوں کو علاج اور چھوٹی موٹی سرجری کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور یہ کورس اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کرایا جاتا تھا۔ عزیز قارئین! کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول (اب یونیورسٹی) میں انگریزی میں یہ دو سالہ کورس، لاہور میڈیکل اسکول و کنگ ایڈورڈ میڈیکل اسکول میں مدت تک چلاتے رہے اور اس نے ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی اس کورس کو دوبارہ شروع کرنےکی ضرورت ہے تاکہ لوگ عطائیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ایک زمانے میں بے شمار افراد ایل ایس ایم ایس کا کورس کئے ہوئے موجود تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین