• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم پاکستان کا دورہ کابل

وزیر اعظم ،شاہد خاقان عباسی کادورہ کابل اس نظر سے دیکھاجا رہاہے کہ پاکستان،افغانستان کو ایسے حل کی جانب گام زن دیکھنا چاہتا ہے جس میںوہاں داخلی ا ستحکا م کا مقصد حاصل ہوسکے،کیوںکہ افغانستان کی بدامنی سےپاکستان کا متاثر ہونا لازم ہے۔ لیکن پاکستان اور ا فغا نستان کے مابین اختلافات کی ایک تاریخ ہے جو تلخ ہے۔ 

جب تک یہ معاملات حل نہیں کیے جاتے اس وقت تک پا کستان کےلیےیہ ممکن نہیں کہ وہ افغانستان کے حا لا ت سے اغماص برت سکے۔ افغانستان آج بھی ڈیورنڈ لائن کو حقیقی بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ معاملہ پاکستان کے معرض وجود میں آنےکے دن سے آج تک تلخی کا سبب بنا ہوا ہے۔

درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان تمام تلخیو ں کی ماں یہی ہے۔ پھر جب افغانستان میں سوویت روس کی جانب سے بہ راہ راست مداخلت ہوئی تو اس وقت امریکا اور سعودی عرب نے مشتر کہ حکمت عملی کے تحت پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا د یا ۔ آج سعودی عرب اور پاکستان تو اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس وقت جو اقدامات اٹھائے گئے تھے ان سے فواید کے بجائے نقصانات کے ڈھیر لگ گئے۔ مگر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک یہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے تصورکے مطا بق اس وقت جو حکمت عملی پاکستان اور سعودی عرب نے ا ختیار کی تھی وہ درست تھی اور روس کا سرخ انقلاب ماضی بنا دینے کے لیے نہایت مناسب ۔

ان کا اختلاف یہ ہے کہ سوویت روس کی شکست کے بعد پاکستان نےافغانستان میں پولیٹیکل انجینئرنگ شر و ع کر دی اور ایسے لوگوں کو سامنے لایا جو مغرب کے لیے مصیبت بن گئے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ سوویت روس کے افغانستان سے واپس جانے کے بعد امریکانے آنکھیں پھیر لی تھیں اورپاکستان کو تنِ تنہا حالات کا مقابلہ کرنا تھا اورجب امریکاساتھ چھوڑچکا تھا تو پاکستان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔

اب افغانستان کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ افغان صدارتی انتخابات میں پاکستان نہ صرف غیر جانب دار رہا بلکہ اس نے اپنی غیر جانب داری ثابت بھی کی کہ اس کاکوئی فیورٹ نہیں۔ اشرف غنی ابتدا میں اپنے پیش رو سےنسبتاً بہتر رہے۔ لیکن پھر داخلی دبائو میں آ کر نئی دہلی کی زبان بولنے لگے اور ہر ناکامی کا ذمےدار پا کستان کو ٹھہرانے لگے۔ حالاں کہ وہاں طالبان کی مو جو د گی اور کام یابیاں افغانستان کے صرف ان علاقوں تک محدود نہیں ہیںجو پاکستان سےمتصل ہیں۔ 

مثلاً وسطی ا فغا نستان پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور نہ ہی وہاں پا کستان کا اثر و رسوخ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن طالبان پھر بھی قندو پر قابض ہو گئے تھے۔ شمالی افغانستان کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ وہاں بے چینی کا اہم سبب یہ ہے کہ و ہا ں کے پختون عوام یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی افسر شاہی اور فوج میں ان کی نمائندگی جان بوجھ کر ان کی آبادی کے تناسب سے نہیں رکھی گئی ہے۔ایسے میں جذبات تو بھڑ کیں گے۔

بہ ہرحال کچھ عرصہ قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو بہ راہ راست مذاکرات اور ایک سیاسی گروہ کے طور پر تسلیم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی،لیکن طالبان نے اپنا پرانا موقف برقرار رکھا کہ وہ امریکاسے بہ راہ راست مذاکرات کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ افغان حکومت کے پیچھے اصل چہرہ امریکا ہی کا ہے۔ لیکن طالبان کے لیے یہ امر پریشانی کا باعث ہے کہ داعش کی افغانستان میں موجودگی بڑھتی جا رہی ہے جسے امریکاکی حکمت عملی تصور کیاجارہاہے کیوں کہ وہ داعش اور افغان طالبان میں تصادم کرانا چاہتا ہے۔اس لیے طالبان کے پاس بھی بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

ان حالات میں جس روز وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی کو کابل جانا تھااس سے ایک روز قبل افغانستان سرکاری طور پر یہ الزام عاید کر رہا تھا کہ پاکستان کی فضائیہ نے ا فغا ن صوبے کنڑ میں بم باری کی ہے۔پاکستان نے اس ا لز ا م کی فوراً تردید کر دی اور واضح کیا کہ پاکستان کی فضائیہ نےباجوڑکےپاکستانی علاقےمیںدہشت گردوںکے ٹھکا نوں پر حملہ کیا تھا اور افغانستان کی سرزمین پر ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا۔ اس واقعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان کا دورہ افغانستان کتنی تلخی اور بدگمانیوں کے درمیان ہوا۔

بہ ہرحال،افغان صدر، اشرف غنی اور بعد میں چیف ایگزیکٹیو ،عبداللہ عبداللہ نے وزیر اعظم عبا سی سے مذاکرات کیے۔ وزیر اعظم عباسی نے جہاں اس دورے میں افغان حکام سے دہشت گردی کے مسائل پر بات کی اور پاکستان کو افغانستان میں مقیم دہشت گردوں سے لاحق خطرات کے بارے میں اپنا مئوقف دہرایا و ہیں انہوں نے افغانستان ،پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیریٹی کی بھی حمایت کی اور افغانستان میں طا لبا ن سے ایسے مذاکرات کی بھی حمایت کی جو افغانستان کی حکو مت کی سربراہی میں ہوں اور افغانستان ہی کی طرف سے ہوں۔

وسطی ایشیا سے توانائی کا پاکستان تک پہنچنا افغانستان کے راستے ہی ممکن ہے جس کے لیے تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع ہو چکا ہے۔دورے کے دوران اس منصو بےکے بارے میں بھی گفتگو ہوئی۔ وسطی ایشیااورافغا نستان سے اور وہاں کے عوام سے مزید قریبی تعلق قایم کرنے کے لیے آمدورفت کو بہتر کرنے کی غرض سے ذ ر ا یع آمدورفت کو بہتر کرنے کی حکمت عملی واضح کی گئی۔اس حکمت عملی میںکوئٹہ ، قندھار، ہرات، پشاور، جلال آباد، ر یل روڈ پروجیکٹ اورپشاور جلال آباد ہائی وے کی تعمیر شا مل ہے۔ سرحد کی خلاف ورزیوں،پاکستان میں مقیم ا فغا ن مہاجرین کی واپسی اور اس بارے میں ٹائم فریم کا معا ملہ بھی زیر بحث آیا۔

تاہم افغان حکومت اس ضمن میں ز یا دہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ۔حالاں کہ یہ معاملات پاکستان کے لیے تکلیف دہ بن چکے ہیں۔ افغانستان میں موجود دیگر سیاسی راہ نماوں،مثلا گلبدین حکمت یار ، استاد محقق، استاد کریم خلیلی،پیر سید حامد گیلانی جیسے رہنمائوں سے وزیر اعظم نے خیر سگالی کے طور پر ملاقاتیں کیں اور ا فغان عوام کو چالیس ہزار ٹن گندم اور ایڈیشنل ریگولیٹری ڈ یوٹی ختم کرنےکا تحفہ بھی پیش کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کے باوجود افغانستان ہماری سوچ کے لحاظ سے بہت دور ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر داعش اور افغان طا لبا ن کے درمیان خون ریزی شروع ہوگئی تو اس کے اثرات سے افغانستان،پاکستان اورپورا خطہ بری طرح متاثر ہو گا۔

تازہ ترین