• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام میں بڑی طاقتوں کی کام یابی کے کھوکلے دعوے

شام کی الجھی ہوئی گتھی کبھی سلجھتی ہوئی لگتی ہے اور کبھی مزید الجھتی جاتی ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل روس کے صدر پوٹن نے شام کے دورے کے دوران روسی فوجوں کی فتح اور داعش کے خاتمے کا اعلان کیا اورروسی فوجیوں کی بڑی تعداد کے واپس روس جانے کا عندیہ دیا تھا۔پھر حال ہی میں اچانک امریکی صدر ٹرمپ نے بھی شام سے اپنے بائیس سوکے قریب فوجی واپس بلانے کا اعلان کر کے سب کو چونکا دیاتھا ۔ 

صدر ٹرمپ نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ امریکا نے اپنا مقصد حاصل کر لیااور داعش کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، اس لیے وہاں امریکی فوجیوں کا مزید عرصےرہنا ضروری نہیں ہے۔صدر ٹرمپ کے اس ا چا نک اعلان کے بعد مشرق وسطی میں امریکی کمانڈر میگ گرا نے کہاتھا کہ امریکی فوجیوں نے داعش کو شکست دے دی ہے اس لیے وہاں دو ہزار فوجیوں کی موجودگی بے سبب ہے۔ مگر شام میں امریکی فوجی کمان کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ ہم تاحال داعش کے دہشت پسندوں سے برسر پیکار ہیں اور تقریباً نو ے فیصد علاقے سے داعش کوپس پا کردیا گیا ہے مگر اب بھی بعض علاقوں میں لڑائی جاری ہے اور داعش کا مکمل صفایا ہونے تک امریکی فوجی لڑتے رہیں گے۔

ان اعلانات کے بعد ترکی کےصدر طیب اردوان نے انقرہ میں اعلان کیا کہ شمالی شام کےکُرد علاقے عفرین پر ترک فوجوں نے قبضہ کر کے شامی کُردوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور بہت سے کُرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی تناظر میں شامی حزب اختلاف کے رہنما یحییٰ العرید نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر جائزہ لیا جائے تو روس ،ترکی اور ایران نے امریکا کو استعمال کیا اورجب صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کے انخلا کا عندیہ دیا تو یہ تینوں ممالک پریشان ہیں کہ اس خلا کو باغی اور دہشت گرد گروہ پُر کریں گے۔شامی کُردوں کو یہ پریشانی لاحق ہو سکتی ہے کہ مدت بعد شام کی آمرانہ حکومت سے نجات کے لیے امریکا کی جوحمایت ملی تھی اب وہ جاتی دکھائی دے رہی ہے اور ترکی ان پر مسلط ہو رہاہے۔ 

اس حوالے سے عرب نیوزکے مبصر نے لکھا ہے کہ یہ تمام شکوے اور شکایتیں بے کار ہیں کیوں کہ امریکا کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کب، کہاں، حملہ کرناچاہیے اور کب واپس چلے جانا چاہیے۔ اسے صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ دوسری جانب ایک خیال یہ ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلاکے بعد وہاں پیدا ہونے والا خلاروس اور ایران پُر کرنے کی کوشش کریں گے۔

عرب دنیا کے ذرایع ابلاغ کے مطابق اس وقت شام کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے شمالی مشرقی علاقوں میں بعض جگہوں پرکُرد ملیشیا،القاعدہ اور ترکی کے فوجی قا بض ہیں۔ ان کے درمیان روسی فوجی، ایران کی حمایت یا فتہ ملیشیا اور شامی حکومت کے حامی فوجی جھول رہے ہیں۔ 

قصہ کچھ یوں ہے کہ امریکا اور ترکی نیٹو کے اتحادی ہونے کے باوجود شام میں ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ ترکی کو امریکاسے اس امر پر شدید اختلاف ہے کہ وہ شا می کُردوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ترکوں اورکُردوں کے مابین طویل عرصے سے احتجاج اور کبھی مسلح تصادم جاری ہے۔تین برس قبل ترکوں اورکُردوں کے درمیان شدید جھڑپوں میں کُردوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑاتھا۔ ان حالات کی وجہ سے سیکڑوں کُردترکی کی جیلوں میں بند ہیں جن میں اساتذہ، مصنف، صحافی، طلبا اور خواتین بھی شامل ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ 2003سے2015تک طیب اردوان ترک کُردوں کے حقوق کے بڑے علم بردار ر ہے ۔ چناں چہ 2015کے انتخابات میں کُردوں نے اپنے رہنمائوں سے زیادہ ووٹ انہیںدیے تھے۔ مگر الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے لبرل ازم اور کُردوں کے حقوق فراموش کرکے قدامت پسند انداز حکومت اپناکر کُردوں ،بائیں بازوکے دھڑوں اور لبرل گروہوںکے ساتھ سخت رویہ اپنالیا۔ 

اردوان نے شام میں فوجی مداخلت کر کے شا می کُردوں کو کم زور کرنے اور ان کے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش شروع کی ۔ ایسے میں روس نے بہت سوچ سمجھ کر چال چلی اور اس معاملے میں ان کی حما یت کی۔ اس کا کہنا تھا کہ شامی کُرد علاقوں میں ترکی کو فوجی مداخلت کرنی چاہیے اور ترکی یہی کر رہا ہے۔

امریکانے تر کی کی مخالفت کی اور یہ مخالفت مزید شدت اختیار کر رہی ہے۔ روس کا مقصد یہی تھا کہ امریکا اور ترکی کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی جائے اور ترکی کو اپنےقریب کر کے نیٹو کے اتحاد میں دراڑ ڈالی جائے جس میں روس ایک حد تک کام یاب دکھائی دیتا ہے۔دوسری طرف مشرق وسطی میں امریکی پالیسی زیادہ کارگرنظر نہیں آتی، کیوں کہ پہلے امر یکا کا موقف یہ تھا کہ وہ کسی طور پر شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت برداشت نہیں کر سکتا۔ 

اسی شدت کے ساتھ امریکانے کسی ایسے مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا تھاجس میں صدر اسد کے نمائندے شامل ہوں۔مگر جب الیپو جیسے اہم شہر پر شامی حکومت کی حامی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو امریکہ نے اپنا موقف تبدیل کردیا۔ اس طرح اس نے شام میں داعش کا مقابلہ کرنےکے لیے شامی کُردوں کی حمایت اور انہیں اسلحے کی فراہمی شروع کر دی جس کی وجہ سے ترکی نے شام میں فوجی مداخلت کر کے کُردوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

عربوں،بالخصو ص امریکی اتحادی عرب حلقوں میں شام کی صورت حال اور صدر ٹرمپ کے شام سے فوج کے انخلا کے اعلان پر شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت ، اردن وغیرہ کےسُنّی مسلک سے تعلق رکھنے والے حلقے بے چینی کا شکار ہیں، کیو ں کہ وہ طویل عرصے سے شام میں بشار الاسد کی حکو مت ختم کرنےکی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ ترکی بھی صدر اسد کی حکومت کی شدت سے مخالفت کرتا رہا ہے، مگراس کے اتحادی،روس اور ا یر ا ن بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں ترکی کو بھی صدر اسد کی حکومت کی مخالفت ترک کرنا پڑے گی۔ ایران اور ترکی کے بعض معاملات پر ا ختلافات ہیں،تاہم اب انہیں بھی دور کرنا پڑے گا۔

امریکا میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والوں کے نزدیک سابق صدر بارک اوباما نے ایران سے جوہری معاہدہ کر کے مشرق وسطی میں بڑا کام کر دیا تھا۔تاہم ٹرمپ نے جو پالیسی اپنائی ہے اور ایران کے سا تھ جوہری معاہدے کے خلاف جو سخت بیانات جاری کیے ہیں اس سے اس خطے میں مزید کشیدگی پھیلی ہے اور اسرائیل نے ٹرمپ کے بیانات کو مزید ہوا دی ہے۔اس معاملے میں سعودی عرب بھی شامل رہاہے۔ مگر شام سے امریکی فوج کےانخلا کےبیان نے سب کو چونکا دیا ہے۔ 

اُدہر خطے میں فلسطین اور اسرائیل کے مابین کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں شام اور اس کے پڑوسی ممالک کے خفیہ ادارے اس بات پر اپنے خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ داعش شام میں اپنی بکھری ہوئی قوت مجتمع کر کے کسی بھی جگہ بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ا گر خفیہ اداروں کے خدشات درست ہیں تو پھر بعض مبصر ین کی یہ رائے بھی درست ہو سکتی ہے کہ بشار الاسد کو وقتی کام یابی پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ حالات کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں اور شام پھر مزید تباہی سے دو چار ہو سکتا ہے۔اس وقت صدر اسد کو جو کام یابی حاصل ہے اس میں ایرانی ملیشیا، حزب اللہ اور روس کی بم باری کا بڑا عمل دخل ہے۔ شام کی حزب اختلاف کے رہنمائوں کو خدشہ ہے کہ صدر اسد جو خود پسند اور آمرانہ طبیعت کے مالک ہیں، اس وقتی کام یابی کا فائدہ اٹھاکر مخالفین پر ظلم و ستم کے مزید پہاڑ توڑ سکتے ہیں۔

تاہم امید اور ناامیدی کے اس پُرہول ماحول میں بعض تنظیمیں امید کے چراغ روشن کرنے اور امن کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں جن میں شام کی خواتین کی غیر سرکاری تنظیم ’’طاہر انسٹی ٹیوٹ برائے شام اور مشرق وسطی ‘‘ سے تعلق رکھنے والی خواتین موجودہ حالات میں بھی پر امید اور پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شام کی تعمیر کا مسئلہ سب سےبڑا اور کٹھن ہے۔ 

مگر شام کی خو ا تین نے سات برسوں میں ظلم و جبر ،تباہی و بربادی اور د ہشت اور غارت گردی کے ماحول میں بہت کچھ سیکھا ہے ۔ یہ تنظیم دنیاکی خواتین کی دیگر اہم تنظیموں سے بھی رابطے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب سےپہلے ا سکولزکی تعمیراوربچوںکی تعلیم،صحت اورخوراک کابندو بست کرنا ضروری ہے۔ اس کے سامنے ویت نام کی طو یل گوریلا جنگ اور اس کے نتیجے میں وہاں ہونے والی بر با دی کے دوران بھی وہاں کے بچوں کا روز اسکول جانے اور خفیہ ٹھکانوں میں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کی شان د ا ر مثال موجود ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شام میںزندگی کب اور کیسے معمول پر آتی ہے اور وہاں جاری مفادات کی جنگ کب اور کیسے ختم ہوتی ہے۔

تازہ ترین