• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ اسکینڈل کی زد میں

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے راہ نما دراصل اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنے وہ دکھائی د یتے ہیں یا حالات اور وقت نے انہیں بہ ظاہر بڑابنادیا ہوتا ہے۔ان میں سے بعض ذاتی اور اخلاقی کم زوریوں کا شکا ر ہوجاتے ہیں اوربعض کو طاقت کے ارتکاز اور استعمال کا خبط ہوتاہے۔اس وقت دنیا کے چار پانچ بڑے ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم پر نظر ڈالی جائے تو وہ سب کسی نہ کسی قسم کے خبط میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔

چین کے صدر نے حال ہی میں بہت زیادہ ا ختیا ر ات اپنے ہاتھ میں مرکوز کرلیے ہیں اور تاحیات صدر رہنے کی کوشش میں ہیں، مگر وہ کسی اخلاقی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہیں۔بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو ہندو انتہاپسندی کا مرض لاحق ہے اور ملک کی سب سے بڑ ی ریاست،اترپردیش میںوہ ایک جوگی کو وزیراعلیٰ بنا چکے ہیں۔وہ کشمیر میں مسلسل ظالمانہ کارروائیاں کرارہے ہیں۔ مگر آبادی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے بڑے ملک اور معیشت اور طاقت کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑ ے ملک، امریکا کے صدر ٹرمپ کی تو بات ہی نرالی معلوم ہوتی ہے۔

امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن جو 1992 سے 2000 تک برسراقتدار رہے، اخلاقی اسکینڈل کا شکار رہے تھے، مگر صدر ٹرمپ نے تو تمام امریکی صدور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دس اپریل کوایف بی آئی نے ٹرمپ کے وکیل،مائیکل کوہن کے دفتر پر چھاپہ مارا۔اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے شرم ناک قرار دیا ہے، مگر وہ اب وہ اپنی شرم ناک حرکتیں کسی طرح چھپا نہیںسکتے ہیں اور نہ ان کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے۔

ٹرمپ کے ذاتی وکیل،مائیکل کوہن یہودی ہیں اور ا س وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان بھی ہیں۔نئے عہدے پر فائز ہونے سے قبل مائیکل کوہن ٹرمپ آر گنا ئزیشن کے ایگزیکٹیو نائب صدر رہ چکے ہیں اور ٹرمپ کے مشیر خاص بھی۔ ٹرمپ آرگنائزیشن میں پانچ سو سے ز یا د ہ کاروباری ادارے شامل ہیں جو ٹرمپ کی ذاتی ملکیت ہیں۔

ان میں سے ڈھائی سو سے زایدذاتی کاروباری ا د ا روں کے نام ٹرمپ کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ گو کہ ٹرمپ کے خاندانی کاروبار سو برس قدیم ہیں، مگر تقریباً پچاس سال سےڈونلڈ ٹرمپ اس آرگنائزیشن کے چیئر مین اور صدر ہیں۔ ان کاروباروں میں زیادہ تر اراضی اور جائیداد کے کاروبار ہیں۔تاہم ان میں سرمایہ کاری اور ہوٹل وغیرہ کے کاروبار بھی شامل ہیں۔

مائیکل کوہن اس سے پہلے بھی الزامات کی زد میں رہے ہیں۔ مثلاً ان پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے 2016میں روسی حکام سے پراگ میں ملاقاتیں کی تھیں اور امریکا کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے لیے مدد حا صل کی تھی۔ پھر کچھ ایسے ثبوت سامنے آتے گئے جن سے واضح ہوتاگیا کہ روس نے امریکا کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی مدد کی تھی۔اسی طرح کچھ ایسی ای میلز اور خط و کتابت جاری کردی گئی تھی جس سے ٹرمپ کو فائدہ اور ان کی مخالف صدارتی امیدوارہلیری کلنٹن کو نقصان ہوا تھا۔ 

تا زہ ترین اسکینڈل کا بھانڈا جنوری 2018 میں ایک اخبار میں شایع ہونے والے مضمون نے پھوڑا تھا۔اس مضمون میں انکشاف کیا گیاتھا کہ اکتوبر 2016 میں مائیکل کوہن نے عر یاں فلموں میں کام کرنے والی ایک ادا کا ر ہ ، ا سٹو ر می ڈینیئلزکو ٹرمپ سے دس سال پرانے تعلقات پوشیدہ رکھنے کے عوض بڑی رقم ادا کی تھی۔

یہ تعلقات 2006 میں قائم ہوئے تھے۔ فروری 2018 میں کوہن نے تصد یق کی تھی کہ انہوں نے اسٹورمی ڈینیئلز کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز اپنی جیب سے ادا کیے تھےاوراس میں صد ا ر تی انتخاب کی مہم کا کوئی دخل نہیں تھا۔علاوہ ازیں اس رقم کی ادائیگی میں ڈونلڈ ٹرمپ یا اُن کے ادارے کا کوئی ہا تھ نہیں تھا اور نہ ہی کوہن کو یہ رقم ٹرمپ نے بعد میں واپس کی تھی۔پھر ایک ڈیڑھ ماہ پیش تریہ اطلاعات سامنے آ ئیں کہ کوہن نے اس اداکارہ کو دھمکیاں دی ہیں کہ اگر اس نے ٹرمپ سے تعلقات کے بارے میں کوئی راز افشا کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ڈونلڈٹرمپ اور اُن کے وکیل ان تمام اطلاعات اور خبروں کو ’’جعلی‘‘ قرار دیتے رہے۔یاد رہے کہ ’’جعلی خبر و ں‘‘کی اصطلاح کا استعمال صدر ٹرمپ بڑے پیما نے پر کرتے رہے ہیں اور جو بھی اخبار یا نشریاتی ادارہ ان کے ذاتی اسکینڈل یا حرکتوں کا پردہ فاش کرتا ہے، ٹرمپ اسے ’’جعلی‘‘قرار دیتے رہے ہیں۔

لیکن گزشتہ ماہ اسٹورمی ڈینیئلز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھانڈا پھوڑ دیا تو ٹر مپ کے وکیل نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر ا سٹو ر می کو قانونی نوٹس بھجوادیئے۔اب ایف بی آئی نے مائیکل کوہن کے دفتر پر چھاپہ مار کر تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے،تمام مواصلات کو سربہ مہر کردیاہے اور رقوم کی ادائیگی کے بارے میں دستاویزات بھی تحویل میںلے لی گئی ہیں ۔

اب مائیکل کوہن کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری اداروں کے سا تھ ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہیں،لیکن اس سے قبل وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ہیں۔ خود ٹرمپ بار بار کہتے رہے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے وکیل نے ان کے غیر اخلاقی تعلقات کوچھپانے کے لیے کسی کو کوئی رقم دی ہے۔

دوسری جانب حال میں اسٹورمی ڈینیئلز نے ٹی وی انٹرویو میں تفصیل کے ساتھ ٹرمپ سے اپنے تعلقات کی کہانی بیان کی جس کے نتیجے میں ایف بی آئی کو کارروائی کرنا پڑی۔ اس نے خاص طور پر یہ بتایا کہ کس طرح 2011 میں لاس ویگس میں ایک کار پارکنگ ایریا میں کسی شخص نے اس سے کہا کہ ’’ٹرمپ کو اکیلا چھوڑ دو‘‘ اور پھر اداکارہ کی بیٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر بچی کی ما ں کو کچھ ہوگیا تو یہ بڑی شرم کی بات ہوگی۔

دراصل اب یہ اسکینڈل اتنا پھیل چکا ہے کہ اداکارہ کو بڑے مالی فواید پہنچا سکتا ہے ۔ذرایع ابلاغ کےبڑ ے بڑےادارے مذکورہ اداکارہ کو مزید راز فاش کرنے پر اکسا رہے ہیں اور اسےبڑی بڑی رقوم دینےکے و عد ے کیے جارہے ہیں۔ اس لیے اداکارہ رازخفیہ رکھنے کا معاوضہ ، یعنی ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز واپس کرنے کو تیار ہے کیوں کہ وہ اس طرح ہر قسم کے معاہدے یا پابندی سے آزاد ہوجائے گی اور مزید کھل کر بات کرسکے گی۔

ٹرمپ اس معاملے میں اب تک اس لیے بچے ہو ئےتھے کہ خود انہوں نے کوئی رقم ادا کی تھی اور نہ کسی معا ہدے پر اپنے دست خط کیے تھے، بلکہ یہ سارے کام وہ اپنے وکیل کے ذریعے کراتے رہےتھے۔ مگر اب ٹرمپ کے لیے خود کو اس معاملے سے الگ رکھنا ناممکن ہوگیا ہے اس لیے انہیںبیانات دینے پڑرہے ہیں۔اکتوبر 2016 میں ہونے والے اس معاہدے پر دست خط ا مر یکاکے صدارتی انتخاب سے کچھ روز قبل ہی کیے گئے تھے اور اس میں ٹرمپ کی جگہ ڈیوڈ ڈین سن اور اداکارہ کے لیے ہیگی پیٹرسن کے نام استعمال کیے گئے تھے تاکہ کبھی یہ معلوم نہ ہوسکے کہ معاہدے کے اصل فریق کون لوگ ہیں۔

افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو دنیا میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ کہیں خانہ جنگی کا شکار ہیں ا و ر کہیں بھوک اور غربت سے مررہے ہیں اور ذرایع ابلاغ کے عالمی ادارے اس قسم کی خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ 1990 کے عشرے میں بھی، جب روانڈا میں لا کھو ں افراد قتل کیے جارہے تھے اور یوگوسلاویہ میں خانہ جنگی جاری تھی،عالمی ذرایع ابلاغ نےاس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات پر آ سما ن سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اگر کوئی راہ نما کسی اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتاہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان باتوں کو اتنا اچھالاجائے کہ دنیا کے بڑے مسائل پیچھے رہ جائیں۔

حال ہی میں برازیل کے ایک سابق صدر کو بدعنوانی کے الزام میں بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے قبل جنوبی کوریا کی سابق صدر بھی اسی طرح کے مقدموں کا سامنا کرچکی ہیں۔ لیکن یہ سارے مقدمات چلنے کے سا تھ دنیا کے بڑے اور اہم مسائل کو پس پشت نہیں ڈالنا چا ہیے۔ 

دنیا بھر کے عوام کے اصل مسائل بے روزگاری، غر بت،ناخواندگی اور بیماریاں ہیں۔ مگر دنیا کے بڑے کا ر و باری ادارے اپنے منافعے کی لالچ میں لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائے رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی استحصالی نظام کے خلاف آواز نہ اٹھاسکے۔ راہ نمائوں کو اعلیٰ اخلاقی صفا ت کا حامل ضرور ہونا چاہیے اور عوام کو اپنے راہ نمامنتخب کر تے ہوئے ان کے اخلاق و کردار کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے مگر اس کی آڑ میں عوام کے اصل مسائل سے توجہ ہٹنی نہیں چاہیے۔

تازہ ترین