• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سوں کو یاد ہوگا کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2015کے ابتدائی میچز میں ٹیم کے موجودہ کپتان سرفراز احمد کو نہ کھلانے پر میڈیا نے بہت شور مچایا تھا! ملک کے معروف مزاحیہ فنکار عمر شریف نے کچھ یوں تبصرہ بھی کیا کہ، ’’ارے بھائی، جب کپتان راضی، کوچ راضی، بورڈ راضی، سارے کرکٹ تجزیہ کار راضی، تو کیا سرفراز کو کھلانے کے لئے امریکہ مداخلت کرے گا یا روس کے حملے کا انتظار ہے؟‘‘ وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقاجات (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوامیں انضمام میں پر اسرار تاخیر بھی ورلڈ کپ 2015میں سرفراز کو ابتدائی میچز نہ کھلانے جیسا کوئی معاملہ دکھائی دیتی ہے؛ نون لیگ حکومت، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور فوجی قیادت کی حمایت کے باوجود کوئی نامعلوم قوت اِس پیش رفت میں مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ دسمبر میں خبر ملی تھی کہ فاٹا سے متعلق اصلاحات پر قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے چند اہم فیصلے کئے گئے ہیں لیکن بعد ازاں مذکورہ علاقوں کے مقامی نمائندوں سمیت انضمام کے عمل میں کسی بھی متوقع پیش رفت سے متعلق تفصیلات پر قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اِس معاملے میں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن یہ خبریں بھی ملتی رہی ہیں کہ اَن کے تحفظات دور کرنے کے لئے اعلیٰ سول اور ملٹری حکام نے گفت و شنید کے راستے کھلے رکھے ہیں۔
فاٹا کا انضمام ملک میں امن عامہ اور سیاسی و اقتصادی استحکام کے لئے اَب ناگزیر ہے! مذکورہ علاقہ جات باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرّم، شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیرستان نامی ایجنسیوں پر مشتمل ہیں۔ اِن میں اورکزئی کے سوا تمام ایجنسیوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جبکہ جنوبی وزیرستان کی سرحدیں شمال مغرب میں افغانستان اور جنوب میں زیریں پنجاب سے ملی ہوئی ہیں۔ یہ ساتوں ایجنسیاں پاکستانی قوانین اور عدالتوں کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ یہاں صرف انگریزوں کے دور کا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن نافذ ہے جس کے تحت کسی بھی مقامی باشندے کو جواز بتائے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اِس سیاہ قانون کے حوالے سے محاورۃ کہا جاتا ہے کہ یہاں لوگوں کو وکیل، اپیل اور دلیل کا حق کبھی حاصل نہیں رہا ۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں ریاستی قوانین سے ماورا ایسا کوئی بھی علاقہ دہشت گردی، اسلحہ سازی، غیر قانونی کرنسی، اغوا اور منشیات کے منافع بخش کاروبار کیلئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا رہا ہے۔ یوں وزیرستان میں ملتے جلتے حالات کی بدولت ملک بھر میں دہشت گردی اپنی بھرپور قوت اور تسلسل کے ساتھ حملہ آور ہوتی رہی۔ دہشت گردی کے اِن مراکز کا تانا بانا سابق سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار سے جڑا ہے۔ المیے کی یہ داستان در حقیقت جنرل ضیاءالحق کی جانب سے اِس جنگ میں امریکہ کی حمایت کے فیصلے سے شروع ہوتی ہے۔ جہاد کے نام پر امریکی مفادات کے لئے لڑی گئی اِس جنگ کے دوران ضیاء حکومت کی تمام تر توجہ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے بجائے امریکیوں کے مفادات کی نگرانی پر مرکوز رہی۔ ریاستی نظام کمزور ہوتا چلا گیا اور آج کوئی تین دہائیوں کے بعد بھی قوم اِس پرائی جنگ میں ہاتھ ڈالنے کی قیمت اجتماعی طور پر ادا کررہی ہے۔ تشویش کی بات یہ کہ اِن تمام برسوں میں اِن قبائلی علاقوں میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی بیداری کے سبب یہ فکر بھی پروان چڑھتی محسوس ہو رہی ہے کہ جہاد کے نام پر لڑی گئی افغان جنگ درحقیقت امریکیوں سے زیادہ ’’اشرافیہ‘‘ کے تحفظ اور مفادات کے لئے لڑی گئی جب کہ قربانیاں دینے والے مقامی لوگ آج بھی سیاہ قوانین اور سیاسی و اقتصادی محرومیوں کا شکار ہیں۔ بہارِ پشتون اور اِس تحریک کے تحت ہونے والے حالیہ اجتماعات بظاہر قبائلی علاقوں میں بیدار ہوتی ہوئی اِس نئی فکر کی شائستہ علامات ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف طویل و اعصاب شکن جنگ کے دوران یہ قبائلی علاقے کوئی ایک عشرے تک تربیتی مرکز کے ساتھ ساتھ امریکیوں اور ان کے وفادار جنگجووئوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ اور نظریاتی درس گاہ کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔ اَفغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی بغیر کسی جانچ پڑتال اور کنٹرول کے جاری رہا اور نتیجے کے طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے باسی آج بھی اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان 44برسوں پر محیط سرد جنگ کے خاتمے پر عالمی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں! سوویت یونین جیسی طاقت بکھر کر رہ گئی اور دنیا میں تاریخ کی خوفناک ترین جنگوں کے امکانات ختم ہوگئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو ابھی مزید بھیانک ادوار سے گزرنا تھا۔ یہ قبائلی علاقے دہشت گردوں کی مستقل پناہ گاہ بن گئے اور یوں ملک میں خود کش حملوں، فائرنگ، اغوا اور بم دھماکوں کا سلسلہ کبھی مختصر اور کبھی طویل وقفوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر جاری رہا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت ابتدائی پیش رفت کے بعد اِن علاقوں میں اصلاحات کے نفاذ کے لئے آئین پاکستان میں اکیسویں ترمیم کی گئی۔ اِس ترمیم کے تحت فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا۔ لیکن اِس عمل میں سست روی مذکورہ علاقوں میں تیزی سے سیاسی و سماجی بے چینی کا سبب بنتی رہی۔ قومی میڈیا پر متعلقہ خبروں کی غیر اعلانیہ پابندی کے باجود اِس بڑی تبدیلی کو پوری دنیا اِن دِنوں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
اس سال جنوری میں قومی اسمبلی نے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ اختیار اِن علاقوں تک وسیع کرنے کا بل بھی منظور کرلیا۔ کارروائی کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کا اختلافی بل رد کردیا گیا اور یوں اِس عمل میں حائل یہ واجبی رکاوٹ بھی دور ہوگئی لیکن شاید وہ پراسرار قوت ایک بار پھر متحرک ہوگئی! اصلاحات کا عمل قانونی اور دستاویزی سطحوں پر مکمل ہونے کے باجود اب ایک بار پھر اس معاملے میں عملاً کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اُدھر اِس تاخیر کے دوران ہی اِن قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کی جانب سے کوئٹہ اور اسلام آباد کے بعد اب پشاور میں ایک اور بڑے اور کامیاب اجتماع نے اِن اصلاحات کے جلد نفاذ کی اہمیت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔
تمام تر صورتحال میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے تمام مطالبات اِن قبائلی علاقہ جات میں مجوزہ اصلاحات اور صوبہ خیبر پختونخوا میں اِن کے انضمام کی صورت میں خود بخود پورے ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس سلسلے میں وقت پر کی گئی کوئی بھی عملی پیش رفت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ قوم اب مزید تاخیر کے سیاسی و جغرافائی نتائج بھگتنے کی متحمل نہیں ہوسکتی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین