• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 تختِ لاہور کے قیدی

ہمارے دوست رئوف اتنے سادہ ہیں تو نہیں۔ پتہ نہیں کیسے انہیں پتھروں کو نچوڑ تے نچوڑتے یقین آ گیا ہے کہ ان میں سے پانی بہہ نکلا ہے اورکہہ دیا ہے :’’ایک انقلا ب دیکھنا باقی تھا۔ اب وہ بھی دیکھ لیا‘‘۔

انہیں یہ انقلاب نئی شین لیگ یعنی سابقہ نون لیگ کےکچھ ایم این ایز کی صوبہ جنوبی پنجاب کے ایشو پر ن لیگ کو چھوڑنے پر دکھائی دیا ہے ۔میں حیران ہوں سرائیکی صوبے کے قیام پراُن کا یقین دیکھ کر ۔اللہ کرے کہ یہ خواب تمہیدِ انقلاب بنے مگرسچ یہ ہے کہ پچھلے انتخابات کی طرح پھر الیکشن آنے پر سرائیکی عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

یہ انتظامی بنیاد پر جس نئی صوبے کی بات ہورہی ہے اُس کے متعلق جس طرح کی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے وہ اتنی آسان نہیں۔ کیونکہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے مترادف ہے جس کے لئے الیکشن لڑنے سے پہلے پارٹی کے منشور میں اُس بنیادی ترمیم کا شامل ہونا ضروری ہے دوسری صورت میں سرائیکی صوبہ بنانے کے لئے ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔ یعنی سچی بات یہی ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ سرائیکی صوبے بنوانے کے لئے پوری طرح سر گرم عمل نہیں ہوتی اس وقت تک سرائیکی صوبہ نہیں بن سکتا۔

گزشتہ انتخابات سے پہلے صدر زرداری کا سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کرنا اور پھر نون لیگ کی طرف سے جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام کے لئے پنجاب اسمبلی میں قراردادوں کا منظور کیا جانا۔ یہ سب کیا تھا۔ بس ایک فریب ایک دھوکا۔1990

سے پہلے جن دنوں میں میانوالی میں رہتا تھا۔ وہاں ضلع کونسل سے ہم نے بھی سرائیکی صوبے کے قیام کی قرارداد منظور کرائی تھی۔ مجھے پنجاب اسمبلی کی قراردادیں بھی بالکل ویسی لگی تھیں۔
یہ بھی ایک خوش آئند عمل ہے کہ الیکشن کے دنوں میں ہماری لیڈر شپ کو سرائیکی صوبہ یاد آجاتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق اس وقت اگر سرائیکی صوبے کےلئے سرائیکی لیڈر شپ کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سرائیکی صوبے کے قیام کو تحریک انصاف کے منشور کا حصہ بنوائیں۔

عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر تمام معاملات طے کریں۔ جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے اپنی نشستوں کی قربانیاں دیں۔ یہ جو لوگ نون لیگ چھوڑ چکے ہیں مگر تحریک انصاف میں ابھی شامل نہیں ہوئے ان کا صرف اور صرف مقصد ہے کہ کسی طرح تحریک انصاف انہیں ٹکٹ دینے کا وعدہ کرے تو وہ اس میں شامل ہوں۔

شمولیت سے پہلے ٹکٹ دینے کا وعدہ تو عمران خان نے چوہدری نثار علی خان سے بھی نہیں کیا بلکہ خود چوہدری نثار نے اخباری بیان میں کہہ دیا ہے کہ ’’مجھے پی ٹی آئی سے کسی عہدے کی آفر نہیں ہوئی‘‘ موجودہ شین لیگ میں شامل وہ تمام لوگ جو پرویز مشرف کے ساتھی تھے وہ اُس وقت عمران خان کے سامنے دستِ طمعِ دراز کیے ہوئے ہیں مگرعمران خان جانتا ہے کہ پچھلے پانچ سال جن لوگوں نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا ایک مرتبہ پھر انہیں عوام پر مسلط کرنا عوام سے زیادتی ہوگی۔ بے شک یہ تمام لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں۔ دیکھتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

سرائیکی تحریک جو بنیادی طور پر ہم نے ایک لسانی تحریک کی حیثیت سے شروع کی تھی۔ الحمدللہ ہم اس میں کامیاب ہوئے سرائیکی زبان کو ایک علیحدہ زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ اس میں بے شمار لوگوں کی خلوصِ دل کے ساتھ بے پناہ محنت شامل ہے۔ آخری آدمی جس کا احسان سرائیکی زبان کبھی نہیں اتار سکتی وہ جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے سرائیکی زبان کے ٹیلی وژن ’’روہی‘‘ کا آغاز کیا۔

میرے خیال میں اب بھی تحریک انصاف میں سرائیکی زبان اور تہذیب کے خیر خواہوں میں جہانگیر ترین سے زیادہ اور کوئی نہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی اپنی ماں بولی کا حق ادا کرنے کےلئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یعنی تحریک انصاف کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ساتھ مل کر سرائیکی لیڈر شپ نئے صوبے کے لئے کوئی سنجیدہ کام کر سکتی ہے۔ وہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اس نعرے پر پھر سرائیکی عوام کو بے وقوف بنا لیں گے وہ غلطی پر ہیں ۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تحریک انصاف کوئی سابقہ نون لیگ اور موجودہ شین لیگ جیسی پارٹی نہیں جوصرف جیتنے والے امیدواروں کے ساتھ مل کر اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کر کے اقتدار میں آ جائے۔ یہی وجہ ہے جب بھی ن لیگ پر کوئی برا وقت آتا ہے تو اس کے درخت سے پرندے اڑ کر کسی اور درخت پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اُس کے مقابلے میں تحریک انصاف ایک تنظیم ہے جسے عمران خان نے ایک طویل عرصہ تک عوام میں کام کر کے تیار کیا ہے۔

ہر شہر ہر گائوں میں ایسی تنظیم سازی کی گئی ہے کہ ہر کارکن کی بات عمران خان تک پہنچتی ہے اور یہ بات بھی سب لوگوں کو معلوم ہو چکی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے فیئر الیکشن کرانے کا عہد کر رکھا ہے ایسی صورت میں تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ تمام پلان اے اور پلان بی ناکام ہو چکے ہیں جس کے تحت تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت وجود میں آنے والی تھی۔

انتخابات لیٹ کرانے کی بھی ساری کوششیں تقریباً اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ اب نگران حکومت تین ماہ کے لئے آنا ہے اور الیکشن ہونے ہیں۔ جس میں امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے گی۔ ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ آزاد امیدوار کامیاب ہوکر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر یں لیکن یہ طے ہے کہ دو تہائی اکثریت تحریک انصاف کے پاس ضرور ہوگی۔ ن لیگ کی واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ امکانی سزا یافتہ لیڈر شپ کے پیچھے کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے اوپر جب سابق صدر آصف علی زرداری نے خودکش حملہ کیا تھا اس کے بعد پنجاب میں اس کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں رہی۔ عین ممکن ہے سندھ میں وہ کوئی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ خیبر پختون خوامیں تو خیر بجز فیصل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کے کسی امیدوار کی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ن لیگ کو وہاں اُس کے اتحادی لے ڈوبیں گے۔

تحریک انصاف کا مخالف ووٹ کئی حصوں میں تقسیم ہوگا۔ یعنی تحریک انصاف کے امیدوار کے سامنے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی یعنی پوری متحدہ مجلس عمل، ن لیگ اور پھر پیپلز پارٹی کے امیدوار ہونگے۔ سو تحریک انصاف کو خیبر پختون خوا میں الیکشن جیتنے میں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔

بلوچستان میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ وہ جنہیں تحریک انصاف نے چیئرمین سینیٹ بنوایا ہے وہ بلوچستان کے معاملات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ لوگوں کا ساتھ دینے کے وعدے کے پابند ہیں۔

سندھ میں خاص طور پر کراچی اور تھر کے علاقے میں تحریک انصاف حیرت انگیز طور پر کامیاب ہوگی۔ ارباب غلام رحیم کسی بھی وقت تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر سکتے ہیں اور عمر کوٹ میں اس مرتبہ شاہ محمود قریشی کو شکست دینا ممکن نہیں ہوگا۔

بہرحال یہ طے ہے کہ تحریک انصاف کے سواتختِ لاہور کے قیدیوں کو کوئی رہائی نہیں دلا سکتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین