اسلام آباد(نمائندہ جنگ) مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں جمعرات کو بھی وکیل صفائی امجد پرویز نے استغاثہ کے مرکزی گواہ واجد ضیاء کے بیان پر جرح جاری رکھی، تینوں ملزم جرح کے دوران عدالت میں موجود رہے، وقفے پرنواز شریف اور مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی گئی تاہم کیپٹن صفدرسماعت ختم ہونے تک موجود رہے۔ عدالت کا وقت ختم ہونے پراحتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سماعت آج جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی، مریم نواز کے وکیل آج بھی گواہ پر جرح جاری رکھیں گے۔ جرح کے دوران وکیل صفائی اورنیب پراسیکیوٹر کے مابین تلخی،تکرار، مسکراہٹ اور ایک دوسرے پر جملےبازی کا سلسلہ جاری رہا۔سماعت کے دوران سینیٹر پرویز رشید اور مشاہد حسین کے روسٹرم کے قریب کھڑے ہونے پر نیب پراسیکیوٹر نےاعتراض اٹھایا کہ کسی ٹرائل میں ایسا نہیں ہوتاکہ وزیر کھڑے ہو کر کمنٹس کرتے رہیں ، واجدضیاء نے بتایاکہ نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز اور بطور گواہ کیپٹن صفدر کے دستخط ہیں، ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کیلئے بریگیڈ ئر نعمان کی خدمات حاصل کیں گئی تھیںجبکہ ہارڈ کاپی پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے آئی۔ واجد ضیاء کے مطابق کوئسٹ سولسٹر اور رابرٹ ریڈلے کی طرح راجہ اختر کی سی وی اور پروفائل قبضہ میں نہیں لیں اور نہ ہی جے آئی ٹی رپورٹ سے منسلک کیں، جے آئی ٹی کا سربراہ بننے پر اپنے کزن راجہ اختر کی مبارکباد کی تصدیق کرتے ہوئے واجد ضیاء نے بتایا کہ اس سےپہلے پرویز مشرف کیس کی ذمہ داری ملنے پر بھی انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ وکیل صفائی امجد پرویز اور واجد ضیاء میں مکالمہ ہوا، واجد ضیاءنے پوچھاکہ ایک ایک کرکے سوال پوچھیں تاکہ کلیریٹی رہے، وکیل صفائی نے کہاکہ آپ کی مرضی جس کے بارے میں بھی بتا دیں، واجد ضیاء نے بتایاکہ بدقسمتی سے یہ ٹرسٹ ڈیڈ اصلی نہیں،واضح کریں کہ آپ مریم صفدر کی طرف سے جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ پر موجود دستخط کا پوچھ رہے ہیں یا جو سی ایم اے کیساتھ لگائی گئی تھیں، دو فروری2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز، کیپٹن صفدر اور حسین نواز کے دستخط موجود ہیں، دو فروری کی ٹرسٹ ڈیڈ پر وقار احمد اور جرمی فری مین کے دستخط بھی موجود ہیں ،مریم، صفدر اور جرمی فری مین کو جے آئی ٹی نے تحقیقات میں شامل کیا،جرمی فری مین کو کوئس سولیسٹر کے ذریعے تحقیقات میں شامل کیا گیا،وکیل صفائی نے پوچھا کہ جے آئی ٹی نے کیپٹن صفدر کو ٹرسٹ ڈیڈ دکھائی تھی؟ جس پر گواہ نے بتایا کہ کیپٹن صفدر نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی کی بطور ٹرو کاپی تصدیق کی۔گواہ کےمطابق صفدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کن جائیدادوں سے متعلق ہے،کیپٹن صفدر کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مریم نواز نے جے آئی ٹی کو دو ٹرسٹ ڈیڈ پیش کیں ،ایک ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول اور دوسری کومبر سے متعلق تھی، ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں مریم صفدر نے کلیم کیا کہ یہ اوریجنل ہے جس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ کیا آپ نے مریم صفدر سے کنفرنٹ کرایا کہ یہ اوریجنل نہیں، نوٹرائزڈ کاپی ہے،جس پرگواہ نے جواب دیا کہ مریم نواز نے پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کے اصلی ہونے کی تصدیق کی تھی، جے آئی ٹی نے مریم نواز کا 161 کا بیان قلمبند کیا،جے آئی ٹی نے طلبی کے سمن پر مریم نواز کو اصل دستاویزات ساتھ لانے کا کہا تھا،مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سمن پر پیش ہونے کے بعد یہ ڈیڈ پیش کی، گواہ نے کہا کہ مریم نواز کے بیان اور جے آئی ٹی کے بیان پر تبصرے میں لفظ ری کنفرم نہیں لکھا،جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ مریم صفدر کو ٹرسٹ ڈیڈ پر کنفرنٹ کرایا،گواہ کے مطابق جے آئی ٹی کو رابرٹ ریڈلے کی پہلی رپورٹ واٹس ایپ پر 4جولائی 2017کو موصول ہوئی، مریم نواز کو 5جولائی 2017کو پیشی کے دوران ریڈلے کی رپورٹ پر کنفرنٹ نہیں کرایار،یڈلے کی رپورٹ پر کنفرنٹ نہ کرانے کی وجہ مریم نواز کی پیش کی گئی ڈیڈز کی ساخت مختلف ہونا تھی ،گواہ کے مطابق کوئسٹ سولیسٹر کو ٹرسٹ ڈیڈ کی واضح ’’کیم اسکین‘‘ کاپیاں بھجوائی گئیں، فرانزک تجزیے کیلئےکوئسٹ سالیسٹر نے ڈیڈز ریڈلے کو بھجوائیں،گواہ نے کہاکہ وہ ریڈلے کی رپورٹ پر کمنٹ نہیں کرسکتا ،یہ بات درست نہیں کہ رابرٹ ریڈلے حروف شناخت کرنے کے ماہر نہیں تھے،جے آئی ٹی نے خدمات لینے سے پہلے رابرٹ ریڈلے کی سی وی دیکھی تھی، مریم نواز سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی وصول کرنے کے بعد سیزر میمو تیارنہیں کیا۔ گواہ کے مطابق مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈاس کے حوالے کی جس کے بعد مریم نواز کا انٹرویو شروع کیا گیا،ٹرسٹ ڈیڈ بھجوانے کیلئے اسپیشل کوریئر استعمال کیا گیا، گواہ نے بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ بھجوانے کیلئے بریگیڈیئر نعمان کی خدمات لی تھیں، یہ معلوم نہیں کہ ٹرسٹ ڈیڈ کا پارسل لندن کون لے کر گیا تھا؟جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ لندن پہنچانے والے کا بیان قلمبد نہیں کیا،امجد پرویز نے سوال پوچھا،کیا یہ درست ہے کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی رپورٹ کیساتھ کو ئی پیمانہ بھی مقررکیا تھا ؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیارابرٹ ریڈلے کی دوسری رپورٹ تین ذرائع سے ملی،8جولائی کو وٹس ایپ۔9جولائی کوای میل اور10 جولائی کو ہارڈ کاپی ملی کوئسٹ سولسٹر نے ای میل کے ذریعے بھجوائی، ہارڈ کاپی پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے آئی ہائی کمیشن سے رپورٹ پاکستان لانے کیلئے بریگیڈئر نعمان نے مدد کی ،گواہ نے بتایا کہ یہ بات ہم نے جے آئی ٹی رپورٹ میں نہیں لکھی ،صرف یہ بتایا کہ رپورٹ ملی ہے ،جتنی باتیں آپ پوچھ رہے ہیں ،سب لکھتے تو 10کی بجائے 100والیم بن جاتے ،بریگیڈئیر نعمان جے آئی ٹی ممبر تھے۔ اس لئے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا،برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سٹاف نے رابرٹ ریڈلے رپورٹ کی ہارڈ کاپی وصول کی جس شخص نے رپورٹ وصول کی ،اسکا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا ، واجد ضیا نے بتایا کہ چین آف کسٹڈی سے متعلقہ افراد کے جے آئی ٹی نے بیان نہیں لئے، چین آف کسٹڈی والی بات جے آئی ٹی رپورٹ میں درج نہیں کی، سپریم کورٹ میں ریڈلے رپورٹ کی ای میل والی رپورٹ جمع کرائی جس پر امجد پرویز نے پوچھا کہ کیا جے آئی ٹی نے لکھا کہ ہم ای میل والی رپورٹ لگا رہےہیں ،وکیل صفائی نے استفسار کیا کہ اصل دستاویزات 10 جولائی سے 22جولائی تک کس کے قبضے میں تھیں ؟جس پر گواہ نے بتایاہم نے لکھا تھا ،ہم رپورٹ لگا رہے ہیں، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ موصول ہونے کا ذکر ڈائری میں درج نہیں کیا،گواہ نے بتایا کہ دوسری رپورٹ موصول ہونے تک والیم چار کی بائنڈنگ ہو چُکی تھی، فرانزک رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائی ،جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ اصل دستاویزات نہیں دیں ،صرف نقول کاپیاں لگائیں یہ دستاویزات جے آئی ٹی کے ایک لاکر میں رکھی گئیں۔