• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2005ء میں بھارت اور امریکہ کے درمیان سول جوہری معاہدہ اور 2008ء میں امریکی کانگریس سے اس کی منظوری کے بعد پاکستان نے امریکہ کے علاوہ نئے دوست تلاش کرنے شروع کردیئے۔ 2010ء میں پاکستان یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات تو خراب نہیں کرے گا تاہم اس پر اسلحےکا انحصار ختم کردے گا۔ پاکستان F-17 تھنڈر طیارہ بنا چکا تھا، کروز و شاہین میزائل کی سیریز پر کام کررہا تھا، الخالد ٹینک خود بنا چکا تھا جو امریکی ٹینک A1 اور A2 کے ہم پلہ ہے، اس کے علاوہ یوکرائن سے بھی روسی ساختہ ٹینک حاصل کرچکا تھا، پاکستان کے شپ یارڈ نے تیزی کے ساتھ بحری جہازوں، گشتی کشتیوں اور دیگر بحری سازوسامان بنانے کی تیاری شروع کردی تھی، امریکہ کو ویسے پتہ چل چکا تھا کہ پاکستان اپنی راہیں امریکہ سے جدا کررہا ہے مگر جب پاکستان نے افغان صدر کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیا تو انہوں نے اس کی اطلاع امریکہ کو دیدی، پھر 2011ء کے سال میں امریکہ نے ہم پر عملی طور پر دھاوا بول دیا، جنوری 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا، 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد کا آپریشن اور اسامہ بن لادن کو مردہ حالت میں لے جانا، اگرچہ اس پر اتفاق نہیں ہے کہ جس شخص کو مار کر لے جایا گیا وہ اسامہ بن لادن ہی تھا، پھر سلالہ پر بلاواسطہ حملہ کرنا اور پاکستان کے 26 فوجی شہید کرنا، امریکی حملہ کا شاخسانہ تھا اگرچہ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کو تنبیہ کی تھی کہ اگر اس نے بدلہ لیا تو جنگ چھڑ جائے گی مگر افغانستان میں وہ تمام سیل ختم کئے گئے جنہوں نے ایبٹ آباد کے آپریشن میں حصہ لیا تھا، یہ امریکی ہیلی کاپٹر چینوک کے گرنے کی وجہ سے ہوا، پھر جلال آباد میں 50 امریکی ،فوجی طالبان کے حملے میں مارے گئے اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے، پاکستان نے افغانستان جانے والی راہداری بند کردی تھی جو کئی مہینوں کے بعد کھولی گئی۔ جہاں تک اسلحہ کا تعلق ہے پاکستان اورین طیارہ طرز پر فریگیٹ بنا چکا ہے اور جدید اسلحہ اور ہمارے میزائلوں پر نشانے پرحملہ کرنے کی دھاک پوری دُنیا پر بیٹھی ہوئی ہے مگر سائبر اور لیزر جنگ کی تیاریوں کی ابھی تک پاکستان نے کوئی اطلاع ظاہر نہیں کی تاہم اب پاکستان نے اسلحہ کے حصول کیلئے روس سے رجوع کرنا شروع کیا ہے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے وزیردفاع خرم دستگیر خاں روس کے دورے پر گئے اور انہوں نے روس سے T-90 ٹینک کے حصول کی کوشش کی، T-90 ٹینک بہت جدید ہے تاہم یہ بھارت کے پاس ہے اور پاکستان اُس کی برابری کیلئے یہ ٹینک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روس بھارت کو اسلحہ سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس نے کبھی پاکستان کو اسلحہ نہیں دیا مگر جب سے امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک معاہدہ ہوا ہے وہ اب پاکستان کو اسلحہ بیچنے پر راضی ہوگیا ہے۔ پاکستان کو اسٹرٹیجک معاملات میں کافی سامانِ حرب کی ضرورت ہے جس میں Su-35 طیارہ جو بھارت کے پاس نہیں ہے تاہم وہ امریکی F-35 فائٹر جیٹ خریدنے کےلئے بات چیت کررہا ہے، F-35 خریدنے کیلئے بھارت نے فرانس سے رافیل طیارےکا سودا ختم کردیا، اس کے علاوہ پاکستان کو فضائی دفاعی نظام کی ضرورت ہے، اس کے پاس چین سے خریدا ہوا ایک نظام موجود ہے ، وہ خود بھی دفاعی نظام بنا رہا ہے، روس کے پاس کئی فضائی ڈیفنس نظام موجود ہیں جس میں ایک اِگلا ہے دوسرا اسٹرلو اور وربہ اِگلا کاجدید ترین نظام ہے، روسی انفراریڈ پوزیبل میزائل (SAM) 9K38 جس میںزمین سے فضا پر مارنے والے GRAU نظام لگا ہوا ہے۔ جو کندھے پر رکھ کر مارا جاتا ہے۔ دوسرا نظام Pantzir S1 (پینتیزر ایس 1) ہے،اس نظام کے حصول کی پاکستان کوشش کرسکتا ہے۔ پاکستان روس سے طویل رفاقت کا طلبگار ہے اور اسلحہ کی خریداری میں بھی طویل مدتی پالیسی کا خواہاں ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کا سلسلہ افغانستان میں تقریباً یکساں موقف رکھنے پر ہے اور بھارت اور امریکہ کے درمیان اسلحے کی سپلائی روکنے کیلئے پاکستان کو روس اسلحہ فروخت کرکے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے درمیان افغان جنگ کی تاریخ حائل ہے مگر اب پاکستان شنگھائی کارپوریشن کا ممبر بن گیا ہے جس سے امریکہ کافی ناراض ہے، پاکستان نے امریکہ کی طرف دیکھنے بجائے علاقائی ملکوں سے تعلقات بڑھانا شروع کئے ہیں، پاکستان افغانستان سے تعلقات اچھے کرنے میں لگا ہوا ہے، ایران سے تعلقات میں بہت بہتری آگئی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات مگر برابری کی سطح پر رکھنا چاہتا ہے۔بھارت نے اپنی تباہی کے خود سامان کر لئے ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں منظرعام پر آچکی ہیں اور عالمی پابندیاں لگ چکی ہیں اور دوست ممالک ان کو بچانے کیلئے ویٹو کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ روس کو پاکستان کے معاملے میں قدرے تذبذب ہے کہ پاکستانی اسلحہ مارکیٹ اتنی بڑی نہیں ہے جتنی کہ بھارت کی کیونکہ بھارت کی دو بلین سے زیادہ کی سالانہ اسپیئرپارٹس کی تجارت ہےجبکہ امریکہ روس کو بھارت کی مارکیٹ سے نکالنے کیلئے بھارت کو جدید ترین ہتھیار دے رہا ہے، روس کی پالیسی یہ ہے کہ وہ بھارت کو ناراض تو نہیں کریں گے مگر پاکستان یا کسی اور ملک کو اسلحہ فراہم کرنے کا موقع ملا تو اُس کو ضائع نہیں کرے گا مگر روس کو یہ فکر دامن گیر بھی ہےکہ پاکستان نہ جانے اسلحہ کی قیمت کی ادائیگی کا کیا طریقہ اختیار کرے گا، روس کو یہ مشورہ دیں گے کہ پاکستان کو اسلحہ سپلائی کا یہ موقع ضائع نہ کرے کیونکہ پاکستان ایک اچھا ملک ہے، پاکستان اور روس سینٹرل ایشیا کے علاوہ ایران کے ساتھ مل کر زمینی رابطہ بن جاتا ہے جو کسی وقت اسٹرٹیجک اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ امریکی روس کا پیچھا کررہے ہیں وہ یوکرائن اور شام میں روس کو الجھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ایران کو بھی سخت وارننگ دے رہے ہیں شام جنگ کا فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ روس نے پاکستان کی سرزمین پر آ کر پاکستانی فوج کے ساتھ جو مشترکہ مشقیں کی تھیں وہ اسٹرٹیجک نوعیت کی تھیں، کیونکہ امریکہ بھارت مل کر افغانستان کو توسیع پسند ملک بنانا چاہتے ہیں اور خطے کا جغرافیہ تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں، جس کے اثرات روس پر بھی پڑیں گے اور پاکستان سے جو فوائد اُسے حاصل ہونے جارہے ہیں جو اسٹرٹیجک سطح پر بھی ہیں اور تجارتی سطح پر بھی وہ اس سے محروم ہوجائے گا۔ روس کو پاکستان کو سوخوئی 35 جو Su-35 کہلاتا ہے۔ وہ ایک اسکواڈرن کو فوری طور پر فراہم کر دینا چاہئے وہ بھارت کو روسی اسلحہ خریدنے پر مجبور کردے گا ،اگر امریکہ F-35 طیارہ خریدنے سے باز آئے تو پاکستان کیلئے مفید ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین