• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیائی ملکوں کی تازہ ترین اقتصادی صورت حال پر ہفتے کو جاری کی گئی عالمی بینک کی رپورٹ کا یہ پہلو جہاں نہایت حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کی تقریباًپوری آئینی میعاد میں مسلسل سیاسی خلفشار کے باوجود رواں مالی سال میں شرح ترقی چند ماہ پہلے تک کے اندازوں سے زیادہ یعنی ساڑھے پانچ فی صد کے بجائے پونے چھ فی صد سے اوپر رہے گی، وہیں اس رپورٹ میں منفی توازن ادائیگی ، بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایہ کاری میں انحطاط کے رجحان سمیت قومی معیشت کو درپیش کئی چیلنجوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے مزید میکرو اکنامک اصلاحات پر زور دیا گیاہے۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں ایک اور بہت بڑے چیلنج کی نشان دہی بھی کی گئی جو روزگار کی صورت حال سے متعلق ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر ماہ ڈھائی لاکھ نوجوان روزگار کی عمر کو پہنچ رہے ہیں لہٰذا شرح ملازمت کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ 14لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔بلاشبہ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے اور دنیا میں متعدد ایسے ملک ہیں جو قدرتی وسائل سے تقریباً یکسر محروم ہونے کے باوجود محض اپنی افرادی قوت کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے آج صف اول کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہیں ۔ جبکہ ہماری اقتصادی منصوبہ بندی کا ایک نہایت منفی رخ یہ ہے کہ ہم اب تک اپنی قومی ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق پورے ملک کے لیے ایسا نظام تعلیم تشکیل نہیں دے سکے جو دولت کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر ملک کے ہر باصلاحیت نونہال کی معیاری تعلیم و تربیت کا ضامن ہو۔ علم پر مبنی معیشت آج کی دنیا میں ترقی و خوشحالی کا بے خطا نسخہ ہے، لہٰذا ہمارے معاشی حکمت کاروں کو قوم کے ہر بچے کے لیے معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی یقینی بنانے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ ایسا ہوگیا تو ہمارے نوجوانوں کو روزگار تلاش نہیں کرنا پڑے گا بلکہ روزگار کے مواقع خود انہیں ڈھونڈیں گے۔

تازہ ترین