• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دولت مشترکہ کا اجلاس

دولت مشترکہ کا حالیہ اجلاس اپنے اندر ایک کشش رکھتا تھا۔ اس وقت ملکہ الزبتھ کی سال گرہ کی تقریبات بھی جاری ہیں اور دولت مشترکہ کے کھیل آسٹریلیا میں اپنے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ موجودہ ملکہ الزبتھ کے والد شاہ جا ر ج چہارم نے 1949میں دولت مشترکہ کی تنظیم قائم کی تھی۔ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد 1952 سے اب تک ملکہ الزبتھ اس کی سربراہ ہیں۔ اس تنظیم کے ابتدائی اراکین کی تعداد آٹھ تھی جو اس کے بانی ممالک کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ دیگر 7 ممالک میں برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، جنوبی افریقا، بھا ر ت ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا شامل ہیں۔

آج اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 53 ہے اور دل چسپ امر یہ ہے کہ ان میں دو ایسے ممالک (موزمبیق اور روانڈا) بھی شامل ہیں جو کبھی برطانوی سلطنت کا حصہ تھے اورنہ تاجِ برطانیہ سے کسی نوعیت کا آئینی تعلق رکھتے تھے۔اراکین میں 16 ممالک ایسے ہیں جو اب بھی ملکہ برطانیہ کو اپنی مملکتوں کا سربراہ تسلیم کرتے ہیں اور6 ممالک ایسے ہیںجہاں آج بھی بادشاہ موجود ہیں۔ 31 ممالک ان کے علاوہ ہیں ۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی ان 53 رکن ممالک میں رہائش پذیر ہے۔

یاد رہے کہ دنیا کی کل آبادی اس وقت 7.4 ارب افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 2.4 ارب افراد دولت مشترکہ کے رکن ممالک میں رہتے ہیں۔ان میں سے آبادی کے لحاظ سے بھارت سب سے بڑا ملک ہے۔دوسری جانب دنیا کا ایک چو تھا ئی رقبہ ان ہی رکن ممالک پر مشتمل ہے۔رکن ممالک میں رقبے کے لحاظ سے کینیڈا سب سے بڑا ملک ہے۔ ما لد یپ وہ آخری ملک تھا جس نے 2016میں دولت مشتر کہ کی رکنیت چھوڑ دی تھی۔ اس سے پہلے گیمبیا نے اسے نیا نو آبادیاتی ادارہ قرار دے کر 2013 میں اس سے علیحد گی اختیار کر لی تھی۔ زمبابوے کی رکنیت رابرٹ موگابے پر دھاندلی کے الزامات کے سبب معطل کر دی گئی تھی۔ 

لیکن اب زمبابوے میں رابرٹ موگابے کا طویل عہد اختتام کو پہنچ چکا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جولائی کے مہینے میں ز مبابوے میں عام انتخابات اگر شفاف انداز میںہو گئے تو اس کی دولت مشترکہ کی رکنیت بحال کر دی جائے گی۔ پا کستان کی رکنیت بھی 1999میں منتخب حکو مت کا تختہ الٹے جانے کے بعد معطل کر دی گئی تھی۔

دولت مشترکہ کے قیام سے 2012 تک اس کا کو ئی دستور نہیں تھا،لیکن 2012 میں 16 اقدارپرمشتمل طر یقہ کار کو دولت مشترکہ نے اپنا نصب العین بنا لیاجن میں جمہوری اقدار کی پاس داری سرفہرست ہے۔دولت مشتر کہ سے وابستہ تمام ممالک کی مشترکہ معیشت 10 ٹریلین ڈالرز پر مشتمل ہے ۔واضح رہ کہ چین کی معیشت 11 اور امریکا کی 19 ٹریلین ڈالر زسے زایدکی ہے۔ 

بریگزٹ کے بعد اس تنظیم کو برطانیہ میں بہت زیادہ اہمیت دی جا ر ہی ہے۔بریگزٹ کے نتیجے میںبرطانیہ کویورپ کے مما لک سے جو تجارتی مسا ئل پیش آ سکتے ہیں ان سےنمٹنے کی غرض سے دولت مشترکہ کو برطانیہ کے لیےایک Life Boat کے طور پر لیا جا رہا ہے،کیوں کہ خیال ہے کہ ان ممالک سے تجارت کی صورت میں دیگر ممالک کی نسبت 19 فی صد زیادہ فائدہ ہوگا۔

برطانیہ دولت مشترکہ کی سب سے بڑی معیشت ہے جس کا حجم 2496.757 ارب ڈالرزہے۔برطانیہ کے بعدبھارت سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہےجس کی معیشت کا حجم 2459.459 ارب ڈالرزہے۔برطانیہ د ولت مشترکہ کو ایسی تنظیم کے طور پر دیکھ رہا ہےجس کے رکن ممالک میں تمام کاروبارِ مملکت اور نجی کاروبار انگریزی زبان میںچلایا جاتاہے۔ ان تمام ممالک کا قانونی ڈھانچایا تو بالکل برطانوی طرز کاہے یا اس سے ملتا جلتا نظام قانون رائج ہے۔ 

انگریزوں سے متاثر ہونے کا معا ملہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس وقت برطانیہ اپنی برآمدات کا 8.9 فی صد حصہ ان ہی مما لک کو بھیج رہا ہے۔ اسی شرح سے وہ جرمنی کے لیے بھی برآمدات کر رہا ہے۔تاہم برطانیہ ان ممالک سے 7.8 فی صد درآمدات کرتاہے۔وہ چین سے بھی اسی شرح سے درآمدات کرتا ہے۔

برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہ دولت مشترکہ کو اپنے تجا رتی مقاصد کے لیےبڑے پیمانے پر استعمال کرے ۔ ا ن حالات میں بھارت بھی دولت مشترکہ میں بہت متحرک ہو رہاہے۔چناں چہ تقریبا ایک عشرے بعد کسی بھارتی وز یر اعظم نے اس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ ملکہ برطانیہ کابہ حیثیت سر براہ دولت مشترکہ آخری اجلاس تصورکیا جارہا ہے ۔اس تنظیم کے لیے ملکہ کی خدمات کوخراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے یہ اس تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا اجلاس تھا۔

بھارت کے وزیر اعظم، مودی اپنے ساتھ بڑا وفد لے کر گئے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت دولت مشترکہ کے ذریعے ایشیامیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اس کی معیشت کا حجم جلدہی برطانیہ سے بھی بڑھ جائے گا۔برطانیہ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے دہلی کی جانب بہت زیادہ جھکنے کی راہ پرچل پڑا ہے۔ بھا ر ت کو اس تنظیم کے حوالے سے یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس میں اس کاایشیا کی سیاست میں سب سے بڑا حر یف چین داخل نہیں ہو سکتا۔

پاکستان اپنے بدترین داخلی ، سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں عشروں سے بدامنی سے نبردآزما ہونے کے سبب اس وقت کم زور معیشت رکھتا ہے۔تاہم اگر سیا سی عدم استحکام سے جان چھوٹ جائے اور جمہوری نظام مستحکم ہو جائے تو پاکستان کی معیشت میں نمو کے بڑے مواقعے موجود ہیں۔ ان ہی مواقعے کو مد نظر رکھتے ہوئے برطانیہ نے پاکستان سے تجارتی تعلقات بڑھانےکے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے۔

دولت مشترکہ کے اس اجلاس میں 46 ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت شریک ہوئے۔دیگرممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ شہزادہ چارلس کو تنظیم کا نیا سربراہ نام زد کر دیا گیاہے جس کی خواہش ملکہ الزبتھ نے اپنی تقریر میں ظاہر کی تھی۔حالاں کہ یہ تجویز بھی تھی کہ تمام رکن ممالک باری باری اس کے سربراہ بنیںکیوں کہ دولت مشترکہ کی سربراہی وراثتی عہدہ نہیں ہے۔ اس اجلاس میں بلیو چارٹر کا اعلان کیا گیا جس میں سمندروں کو آلودگی سے محفوظ رکھنا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے رکن ممالک کو بچانا شامل ہے۔ 

تنظیم کے چھوٹے رکن ممالک،دولت مشترکہ کے بڑے رکن ممالک سے اس حوا لےسےخاص طورسےمددکے خواست گارہیں۔سائبر سیکیورٹی آج عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ اس ضمن میں آن لا ئن جرائم اورخطرات سےنمٹنےکا اعلان کیا گیا۔علاوہ ازیں 2030تک رکن ممالک کے مابین 2 ٹریلین ڈالرز تک تجارت بڑھانے کا بھی اعلان کیا گیا۔

اس اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم،شاہد خا قا ن عباسی نے پاکستان کی نمائندگی کی اوربرطانیہ کی وزیر ا عظم تھریزامے سے علیحدہ بھی ملاقات کی جس میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم ،وزیر اعظم کا دورہ کابل اور اس کے نتائج اور دہشت گردی کے انسداد کے لیےپاکستان کی کوششوں کا ذکر ہوا۔ملاقات میں وزیر اعظم نے شام میں میزائل کے حملوںکے بارے میں پاکستان کا اصولی مو قف دہرایا کہ کیمیائی حملے کہیں سے بھی ہوں ناقابلِ قبو ل ہیں اور ایسے واقعات سے متعلق اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہونے چاہییں۔برطانوی وزیر ا عظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانب سے دی گئیں قربانیوں کا اعتراف کیا۔

تازہ ترین